کیا ڈگریوں کا مستقبل خطرے میں ہے؟

روایتی ڈگریاں آنے والے سالوں میں کتنی کارآمد ہوں گی؟ جابز کے لیے اہلیت کا رجحان کیسے تبدیل ہو رہا ہے؟

گوگل نےگزشتہ سال یعنی 2020 میں ایک بہت بڑا اعلان کیا، جو جابز اور اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کا نقشہ بدل سکتا ہے: گوگل چند منتخب پیشہ ورانہ کورسز پیش کر رہا ہے جو جاب تلاش کرنے والوں کو ملازمتیں حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ بظاہر یہ عام سی بات ہے، لیکن یہ آج کے تعلیمی نظام ، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے اداروں اور یونیورسٹیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے، پہلے ہم اس کے پس منظر پر بات کریں گے۔

دنیا میں یہ بحث کچھ عرصہ پہلے سے شروع ہو چکی تھی کہ یونویرسٹا ں طلباء کو عملی زندگی میں درکار حقیقی دنیا کی مہارتوں سے مناسب طور پرلیس نہیں کرتیں ، اور کئی کئی سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی طالب علم عملی زندگی میں جاب حاصل کرنے کے لےے جدوجہد کررہے ہوتے ہیں ۔

گوگل مںے عالمی امور کے سنئر نائب صدر کینٹ واکرکہتے ہں ، "کالج کی ڈگریاں بہت سے امریکیوں کی پہنچ سے باہرہو گئی ہیں ، اور آپ کو معاشی تحفظ کے لیے کالج ڈپلومہ کی ضرورت نہیں ہونی چاہے۔ ہمیں پیشہ ورانہ پروگراموں سے لے کر آن لائن تعلیم تک نوکریوں کے لے ایسے تربیتی حل کی ضرورت ہے، جو لوگوں کی پہنچ میں ہو-"

واکرمزید کہتے ہیں ، "نئے گوگل کیرئیر سرٹیفیکیٹس ہمارے موجودہ پروگراموں کی بنا پر اس طرح ترتیب دیے گئے ہں کہ لوگ کالج ڈگری کے بغیر آئی ٹی سپورٹ کیرئیر میں راستہ بنا سکیں۔" ان کا کہنا ہے کہ "2018 مں لانچ کیا گیا ، گوگل آئی ٹی سرٹیفیکیٹ پروگرام "کورسرا" پر سب سے زیادہ مقبول سرٹیفیکیٹ بن چکا ہے ، ہزاروں لوگوں نے نئی نوکریاں تلاش کی ہیں اور کورس مکمل کرنے کے بعد اپنی آمدنی مں اضافہ کیا ہے۔"

یہ کورسز ، جنہں ہم نے گوگل کیرئیر سرٹیفیکیٹس کا نام دیا ہے ، وہ بنیادی مہارتں سکھاتے ہیں جو ملازمت تلاش کرنے والوں کو فوری طور پر روزگار تلاش کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ تاہم ، روایتی یونیورسٹی کی ڈگری کی طرح ختم ہونے میں کئی سال لگانے کی بجائے ، ان کوسز کا دورانیہ تقریباً 6 ماہ ہے۔

یہاں واکر نے جو بہت دلچسپ اور سب سے اہم بات کی ہے،یہ ہے کہ "ہماری اپنی یعنی گوگل میں ملازمت کے لیے ، ہم ان نئے کیرئیر سرٹیفیکیٹس کو متعلقہ جاب کے لے چار سالہ ڈگری کے برابر سمجھیں گے۔"
دوسری طرف ایک مشہور کمپنی کے سی ای او سٹیفان کیزرئیل کہتے ہیں کہ ، مں نے اپنے کیرئیر کے دوران کئی پروگرامرز کی خدمات حاصل کیں۔ میرے لیے اہم بات یہ نہیں ہے کہ کسی کے پاس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری ہے یا نہیں۔اہم یہ ہے کہ وہ کتنا اچھا سوچ سکتا ہے اور کتنی اچھی کوڈنگ کرسکتا ہے۔ در حقیقت ، کمپنی کی مہارتوں کے تازہ ترین انڈیکس میں سب سے تیزی سے اوپر جانے والی 20 بہترین مہارتوں میں سے کسی کے لیے بھی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔

اس بات کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ آج کی جاب مارکیٹ میں فری لانسرز تیزی سے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ بہت سی کمپنیاں اس نئے تصور کو اختیار کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔جابز کی ایک مشہور ویب سائٹ گلاس ڈور نے مزید 15 کمپنیاں جسٹر کی ہیں جن کی ملازمت کے لیے اب ڈگری کی ضرورت نہیں ہے ۔ان میں ایپل ، آئی بی ایم اور گوگل جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چھ ماہ کے کورس کی لاگت 300 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے-اتنا تو بہت سارے یونیورسٹی کے طلباء صرف ایک سمسٹر میں درسی کتابوں پر خرچ کرتے ہں ۔ اس کے علاوہ ، گوگل نے کہا کہ وہ نئے پروگراموں کے لیے ضرورت مندوں کو ایک لاکھ اسکالرشپ فراہم کرے گا۔ گوگل کا دعویٰ ہے کہ ان کے کورسز ، جن پر یونیورسٹی کی روایتی تعلیم کے مقابلے میں نہایت معمولی لاگت آئے گی ، طلباء کو فوری طور پر اعلی تنخواہ ، اور ترقی کے بہترین مواقع والے کیرئیر کے شعبوں میں کام تلاش کرنے کے لے تیار کریں گے۔کورس لینے کے لیے کوئی ڈگری یا سابقہ تجربہ درکار نہیں ہوگا۔ ہر کورس گوگل کے ملازمین کے ذریعہ ڈیزائن کیا اور سکھایا جاتا ہے جو متعلقہ شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک پروگرام کی تکمیل کے بعد ، گوگل ملازمت کی تلاش میں مدد کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ شرکاء "ان شعبوں میں ملازمتوں کے لے ،وال مارٹ ، بیسٹ بائ ، انٹل ، بنک آف امریکہ ، ہولو ، اور خود گوگل کے ساتھ اپنی معلومات کو براہ راست شئیر کرسکتے ہیں۔ گوگل کا مزید کہنا ہے کہ وہ کورس مکمل کرنے والے شرکاء کو اپرنٹس شپ کے سیکڑوں مواقع فراہم کرے گا۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ گوگل راتوں رات اعلیٰ تعلیم کے ماڈل کو توڑ تو نہیں سکتا لیکن اس نے یونیورسٹیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ضرور بجا دی ہے۔ یہ سچ ہے کہ مڈ یسن ، ڈینٹسٹری ، انجنیئر نگ اور قانون سمیت کچھ ڈگریاں ایسی ہیں جنہیں، 6 ماہ کے مختصر کورس سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا- پھر بہت سی کمپنیاں طویل عرصے تک روایتی ڈگری حاصل کرنے والوں کو ترجیح دیں گی۔ یہ سرٹیفیکیٹ بھی فی الحال صرف امریکیوں کے لیے ہیں ، اور یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ باقی دنیا اس تصور کو اپنانے میں کتنی دلچسپی لیتی ہے۔ لیکن یہ ضرور ہو گیا ہے کہ یہ تعلیم کی دنیا میں ایک بڑا قدم ہے۔ پہلی بار یونیورسٹیوں اور کالجوں کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ ان کے سامنے گوگل جسا مدمقابل موجود ہے۔

ابھی یہ دیکھناباقی ہے کہ اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے ادارے آنے والے برسوں میں گوگل کے سرٹیفیکیٹس پر کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور کیا وہ انھیں اپنانے کی کوئی کوشش کریں گے، لیکن یہ طے ہوتا جا رہا ہے کہ جابز کا مستقبل ڈگریوں سے نہیں بلکہ مہارتوں سے مشروط ہوگا اور دنیا کا کوئی بھی ادارہ اس کے اثرات سے بچ نہیں سکے گا۔

 

Jamil Ahmed
About the Author: Jamil Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.