مسلم دنیا میں تعلیم کا قابل قدر اضافہ

 علم کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اعلیٰ تعلیم ، مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے اور معاشرے کو وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ یہ بنیادی حقیقت مسلم امہ کو قرون وسطیٰ کے دوران بہت اچھی طرح سے معلوم تھی، جو اسلامی تاریخ کا ایک سنہری دور تھا۔ "علم کی تلاش" مسلمانوں کے لیے اسلام کا معروف حکم تھا اور انہوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک اس پر عمل کیا۔

ایڈورڈ جی براؤن (1862-1926) نے بجا طور پر مشاہدہ کیا کہ، "جب بغداد او اور قرطبہ کے خلفاء نے اپنی رعایا کے درمیان تعلیم کو اس حد تک فروغ دیا کہ ہر بارہ سال کا لڑکا اور لڑکی پڑھ لکھ سکتا تھااسوقت یورپ میں بیرن، لارڈز اور ان کی خواتین اپنے نام لکھنے کے قابل نہ تھیں (فارس کی ادبی تاریخ، 1902)۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر کے مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک علم کی تمام جہتوں میں سبقت حاصل کی اور اسی لیے مارکوئس آف ڈفرین نے بجا طور پر کہا، ’’یہ مسلم سائنس، مسلم آرٹ اور مسلم لٹریچر ہے جو یورپ کو قرون وسطی کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے مدد گار ہوئی ۔ (ہندوستان میں دی گئی تقریر، 1890)۔ افسوس مسلمانوں کو کیا ہوا کہ وہ 15ویں صدی کے بعد علم سے دور ہوگئے اور دنیا کے معاملات میں اپنا غلبہ کھو بیٹھے؟ اسلامی دنیا کے تمام حصوں میں خواندگی گرتی گئی۔ مؤرخ ڈونلڈ کوٹارٹ کے مطابق انیسویں صدی کے اوائل میںاسلامی کی شرح خواندگی صرف۲سے۸ فیصد تھی۔ بیسویں صدی کے وسط میں بھی صورت حال تسلی بخش نہیں تھی۔ صرف چند ممالک جیسے مصر، تیونس، ایران، اردن، کویت، ملائیشیا، شام، ترکی اور البانیہ میں شرح خواندگی 30 فیصدکے قریب تھی۔ صرف سوویت یونین کے تحت مسلم علاقوں میں خواندگی کی شرح خاصی بہتر تھی۔ مسلم دنیا میں خواندگی کی اس صورتحال (زوال) کو جارج سارٹن نے ابتدائی اسلام کے دوران علم کی ترقی کو "حیران کن"اور پندرہویں صدی میں اس علم کا زوال حیرت انگیزبتایا ہے (ہسٹری آ ف سائنس)

پچھلی چار پانچ صدیوں کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں نے تعلیم کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں بہت دلچسپی دکھائی۔ شاعری، موسیقی، مصوری، سیرامکس، فن تعمیر، لوہاری جیسے فن پوری اسلامی دنیا میں اہم سرگرمیاں بن گئیں۔ لیکن یورپ سے آنے والی تیز رفتار ترقی پذیر جدید تعلیم میں بہت کم دلچسپی دکھائی گئی۔ غالباً پندرہویں صدی میں انکا سب سے زیادہ نقصان دہ عمل تھا جس کے تحت پرنٹنگ پریس کے استعمال کو غیر دینی قرار دیا گیا، جبکہ یہ کام یورپ کے لیے ایک نیا موڑ تھا۔ پرنٹنگ پریس کے ذریعے یورپ میں سائنسی اور صنعتی سرگرمیوں کے تمام شعبوں میں سائنسی انقلاب ممکن ہوا۔

ایک طویل نیند کے بعد پوری دنیا کے مسلمان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جدید علم اور اعلیٰ تعلیم کے بغیر مغرب کے ہاتھوں ان کے استحصال کو روکا نہیں جا سکتا۔ خوش قسمتی سے، ماضی قریب میں اسلامی دنیا میں تعلیم دوبارہ ابھر رہی ہے۔ مسلم ممالک غربت اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے مضبوط اقدامات کر رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ تیل کی معاشی طاقت ہے۔

2018 کے عالمی بینک اور UNSECO کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 24 مسلم اکثریتی ممالک بشمول سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائیشیا، آذربائیجان، اردن، متحدہ عرب امارات، ترکی وغیرہ نے اوسط خواندگی 90 فیصد سے زیادہ حاصل کی ہے ۔ ایران، تیونس، الجزائر، مصر اور مراکش میں خواندگی۔ 80فیصد سے 89 فیصدکے بریکٹ میں بتائی گئی ہے۔ بدقسمتی سے بنگلہ دیش، پاکستان اور نائیجیریا سمیت 15 ممالک اب بھی خواندگی میں پیچھے ہیں (65فی صد سے کم)۔ تاہم، 1980 )اوسط 30فیصد) کے خواندگی کے اعداد و شمار کے مقابلے میں، 2018 کا ڈیٹا تسلی بخش ہے۔ جان ملر کے سروے کے مطابق، چھ مسلم ممالک یعنی آذربائیجان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغزستان ممالک میں سب سے زیادہ شرح خواندگی کے ساتھ ہیں۔ . آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی شرح خواندگی (2017) 82فیصد ہے (مرد 87فیصد، خواتین 77فیصد)۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں خواندگی میں صنفی فرق (مرد اور خواتین) میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ کم از کم 21 ممالک میں فرق صرف 0 سے 7 فیصد ہے۔

اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے تمام شعبوں پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے اس بات پر زور دیا کہ "...اسائنسی علم کی ترقی کو صنف سے قطع نظر حاصل کیا جانا چاہیے" (UNESCO کانفرنس، 2000)۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مسلم دنیا میں سائنسی بیداری جاری ہے۔ سعودی عرب، ایران، قطر، ترکی وغیرہ جیسے کئی ممالک میں تحقیقی اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں ترتیری تعلیم عام طور پر 40 فیصد سے زیادہ ہے جہاں ترکی، سعودی عرب اور انڈونیشیا جیسے چند ممالک کو چھوڑ کر یہ 2 سے 6 فیصد کے درمیان ہے۔ مسلم ممالک میں تحقیقی اخراجات پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف ترکی، سعودی عرب، ایران اور قطر جیسے ممالک نے اس مقصد کے لیے خاطر خواہ فنڈزمختص کیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق قطر نے سائنس کے بجٹ کو اپنی جی ڈی پی کےایک فیصد سے بڑھا کرتین فیصدکرنے کی تجویز ہے۔

بہت سے مسلم ممالک نے پہلے ہی جدید علوم پر زور دیتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے مراکز (یونیورسٹییں) قائم کر رکھی ہیں۔ ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2018 کے مطابق، مسلم ممالک کی چھیانوے یونیورسٹیوں کو دنیا کی 1102 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ یقینی طور پر اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کی ضرورت کی طرف ایک مثبت قدم ہے حالانکہ صرف 18 مسلم ممالک کی یونیورسٹیاں اس فہرست میں جگہ حاصل کر سکیں۔ امید ہے کہ دیگر مسلم ممالک مستقبل کی رپورٹس میں اپنے نام تلاش کریں گے۔ فہرست میں شامل 96 یونیورسٹیوں میں سے 22 کا تعلق ترکی سے ہے اور اس کے بعد ایران سے 18۔ پاکستان، 10; ;ملائیشیا اور مصر 9 ؛ سعودی عرب، 5;؛ U.A.E اور انڈونیشیا 4؛ اردن اور مراکش 3; ؛ تیونس 2 اور الجزائر، بنگلہ دیش، کویت، لبنان، نائیجیریا، عمان اور قطر ایک ایک۔

مندرجہ ذیل ٹیبل اسلامی دنیا میں تعلیم کے دوبارہ ظہور کی تصویر پیش کرتی ہے۔ پچھلی چند دہایئوں میں خواندگی کی شرح میںقابل قدر اضافہ ہوا ہ ہےاس کے علاوہ عورت اور مرد کے درمیان خواندگی کے فرق میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہے۔ اب اسلامی دنیا میں سائنسی ترقی کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں۔

کاش پڑہ (پڑہو) کا حکم پوری ملت اسلامیہ کے دماغوں میںگھر کرلے اور علم کے حصول کو ہر مرد اور عورت اپنے لئے لازمی سمجھے

مسلم اکثریتی ممالک میں خواندگی - خواندگی میں جنسی فرق (یونیسکو/ورلڈ بینک کی رپورٹس)۔)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
ملک خواندگی فیصد ،،،، جنسی فرق فیصد
) کا نام (۱۹۸۰۔۔۔۲۰۱۸ )، (۲۰۰۷۔۔۲۰۱۸
______________________________________________
افغانستان ؛ ،،،، ۱۲۔۔۔۔۳۲ ،،،، ۳۰۔۔۔۔۲۷
البانیہ؛ ،،،، نا معلوم۔۔۹۸ ،،،، ۱۳۔۔۔۔۔۱
الجزائر: ،،،، ۳۷۔۔۔۔۸۲ ،،،، ۲۰۔۔۔۔۱۴
آذربائیجان ،،،، نا معلوم۔۔۔۹۹ ،،،، ۱۔۔۔۔۱
بحرین ؛ ،،،، ۷۳۔۔۔۔۹۶ ،،،، ۷۔۔۔۱
بنگلہ دیش: ،،،، ۲۶۔۔۔۔ ۶۲ ،،،، ۲۲۔۔۔۶
بوسنیا ؛ ،،،، نا معلوم۔۔۹۹ ،،،، ۷ ۔۔۔۲
برونائی؛ ،،،، ۶۳۔۔۔۔۹۶ ،،،، ۵۔۔۔۔۲
برکینا فاسو؛ ،،،، ۱۲۔۔۔۔ ۳۶ ،،،، ۲۰۔۔۔۱۲
چاڈ ؛ ،،،، ۱۵۔۔۔۔۴۰ ،،،، ۱۷۔۔۔۱۶
کوموروس ؛ ،،،، نا معلوم۔۔ ۷۸ ،،،، نا معلو۔۔۸
جبوتی؛ ،،،، ۳۲۔۔۔۔۶۷ ،،،، ۲۰۔۔۲۰
مصر ؛ ،،،، ۴۴۔۔۔۔۷۵ ،،،، ۲۱۔۔۔۱۶
اریٹیریا؛ ،،،، نامعلوم۔نامعلوم ،،،، نامعلوم۔نامعلوم
گیمبیا؛ ،،،، ۱۶۔۔۔۔۵۵ ،،،، نا معلوم۔۔۱۶
گنی؛ ،،،، ۲۵۔۔۔۳۱ ،،،، ۲۷۔۔۱۵
گنی بساؤ ؛ ،،،، نامعلوم۔۔۶۰ ،،،، ۳۰۔۔۲۳
انڈونیشیا؛ ،،،، ۶۲۔۔۔۹۴ ،،،، ۱۰۔۔۔۴
ایران ؛ ،،،، ۵۰۔۔۔۸۷ ،،،، ۱۲۔۔۔۸
عراق؛ ،،،، ۵۰۔۔۔۸۰ ،،،، ۳۱۔۔۱۲
اردن؛ ،،،، ۸۰۔۔۔۹۶ ،،،، ۱۰۔۔۔۳
قازقستان؛ ،،،، نا معلوم۔۱۰۰ ،،،، ۱۔۔۔۔صفر
کوسوو ؛ ،،،، نامعلوم۔ ۹۲ ،،،، نامعلوم۔۔۹
کویت ؛ ،،،، ۶۰۔۔۔۔۹۶ ،،،، ۴ ۔۔۔۲
کرغزستان،،،، نامعلوم۔۔۱۰۰ ،،،، ۱۔۔۔۔صفر
لبنان؛ ،،،، ۷۴۔۔۔ ۹۴ ،،،، ۱۱۔۔۔۴
لیبیا؛ ،،،، ۵۰۔۔۔۹۱ ،،،، ۲۰۔۔۔۱۱
ملائیشیا ؛ ،،،، ۶۰۔۔۔۹۵ ،،،، ۶۔۔۔۔۳
مالدیپ ؛ ،،،، نامعلوم ۔۹۹ ،،،، نامعلوم۔۔۲
مالی؛ ،،،، ۱۰۔۔۔۔۳۹ ،،،، نامعلو۔۔۱۹
موریطانیہ؛ ،،،، ۱۷۔۔۔۵۲ ،،،، ۲۱۔۔۔۲۱
مراکش ؛ ،،،، ۲۸۔۔۷۲ ،،،، ۲۵۔۔۲۰
نائجر؛ ،،،، ۱۷۔۔۔۱۷ ،،،، ۱۹۔۔۔۸
نائجیریا ؛ ،،،، نامعلوم۔۶۰ ،،،، ۲۰۔۔۔۱۵
عمان؛ ،،،، نامعلوم۔۹۵ ،،،، ۱۶۔۔۔۷
پاکستان؛ ،،،، ۳۱۔۔۔۵۹ ،،،، ۲۷۔۔۔۶۲
فلسطین؛ ،،،، نامعلوم۔۹۷ ،،،، نامعلوم۔۔۴
قطر ؛ ،،،، ۷۶۔۔۹۸ ،،،، ۱۔۔ ۔۔۔۱
سعودی عرب؛،،،، ۵۰۔۔۔ ۹۵ ،،،، ۱۴۔۔۔۔۵
سینیگال؛ ،،،، ۱۱۔۔۔۔۵۶ ،،،، ۵۲۔۔۔۲۵
سیرا لون ؛ ،،،، ۱۵۔۔۔۔۴۸ ،،،، ۲۱۔۔۔۲۰
صومالیہ؛ ،،،، ۲۰۔۔۔۔۳۸ ،،،، ۲۵۔۔۲۴
سوڈان ؛ ،،،، ۲۰۔۔۔۔۷۶ ،،،، ۲۰۔۔۔۱۵
شام؛ ،،،، ۵۳۔۔۔۸۶ ،،،، ۲۶۔۔۔۱۱
تاجکستان ؛،،،، نامعلوم ۔۔۱۰۰ ،،،، صفر۔۔۔صفر
تیونس؛ ،،،، ۵۵۔۔۔۸۲ ،،،، ۱۸۔۔۔۱۵
ترکی؛ ،،،، ۶۰۔۔۔۹۵ ،،،، ۱۷۔۔۔۔۶
ترکمانستان؛ ،،،، نامعلوم۔۔۱۰۰ ،،،، ۱۔۔۔۔ صفر یو۔اے۔ای: ،،،، ۶۵۔۔۔۹۴ ،،،، نامعلوم۔۔۳
ازبکستان ؛ ،،،، نامعلوم۔۱۰۰ ،،،، ۱۔۔۔۔صفر
یمن؛ ،،،، ۲۷۔۔۷۰ ،،،، ۳۰۔۔۲۳
 

Dr. M.I.H. Farooqi
About the Author: Dr. M.I.H. Farooqi Read More Articles by Dr. M.I.H. Farooqi: 11 Articles with 21264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.