مارو گے تو نہیں ؟

وفاقی پولیس کے نئے آئی جی احسن یونس کی تعیناتی محکمہ پولیس میں بہتری کی علامت سمجھا جا رہا ہے گزشتہ روز آئی جی پولیس کی جانب سے کھلی کچرسی کا انعقاد بھی کیا گیا جسے سو شل میڈیا پر خوب پذیر ائی حاصل ہو رہی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کچر ی میں آنے والے درخواست گزاروں کے تخفظات کو کسی حد تک دور کیا جا ئے گاعوام کو ہمیشہ سے پولیس سے احساس تحفظ کے بجائے خوف محسوس ہوتا تھا ، یہ مسئلہ آج بھی موجود ہے۔پولیس کو صرف کاغذات کی حد تک احکامات کی بجائے حقیقتا اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کیلئے کوشاں ہے اور عوام کو بھی اس بات کا احساس ہونا لازم ہے کہ یہی ہمارے حقیقی محافظ ہیں پولیس آرڈر2002 میں اس حوالے سے ایک اہم کوشش کی گئی تھی مگر یہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ایسا نہیں کہ قصور وار پولیس ہی ہے اصل میں بہتری کی کوشش نہ حکمرانوں نے کی اور نہ کبھی پولیس نے ضرورت محسوس کی، دنیا بہتری کی طرف جا رہی ہے اور ہم ابھی انگریز کے دور میں کھڑے ہیں انصاف کا نظام بے انصافی پر مبنی ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس ملک میں ایک انصاف عام آدمی کے لئے ہے اور ایک خاص طبقے اور ایک بہت ہی خاص طبقے کے لئے ہے عوام اور پولیس کے درمیان دوری کی پہلی وجہ پولیس کا کمزور بیانیہ ہے پولیس لوگوں کو یہ سمجھانے سے قاصر رہی کہ پولیس آپ کی محافظ ہے لوگ پولیس سے خوف کھاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں پولیس طاقت ور کی غلام ہے پولیس کسی بھی وقت ظلم کر سکتی اور پولیس کو تشدد کا بہانہ چاہیے لوگوں کی یہ رائے کسی حد تک درست بھی ہے۔دنیا بھر میں بارِ ثبوت مدعی پر ہوتا ہے جبکہ ہماری پولیس اور ہمارے نظام انصاف میں بنیادی فرق ہے۔ پولیس ثبوت مدعی سے مانگتی ہے ملزم سے کہتی ہے خود کو بے گناہ ثابت کریں، پولیس کا تشدد ملزم پر ہوتا ہے الزام لگانے والے کو پولیس نہیں پوچھتی، کیس جب عدالت میں چلتا ہے تو مدعی ثبوت پیش نہیں کر پاتا اور ملزم چھوٹ جاتے ہیں ادھر کسی نے ایف آئی آر کٹوائی ادھر پولیس چھاپہ مارنے گھر پہنچ گئی چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کر دیا، ایف آئی آر کٹوانے والا کون ہے پولیس یہ نہیں دیکھتی، پولیس کی جیب جس نے گرم کی پولیس اسی کی ہے تھانہ وہ جگہ ہے جہاں ظالم بھی پیسہ دیتا ہے اور مظلوم بھی تفتیش کے نام پر جو تشدد تھانوں میں ہوتا ہے اس سے اﷲ ہی بچائے جس کے پاس پیسہ نہیں جس کا پیچھا کرنے والا کوئی نہیں اس کے ساتھ وہ زبان بولی جاتی ہے جو شریف لوگ سن نہیں سکتے، ان کی نگاہیں گالیاں اور ذہنی ٹارچر بندے کو شرمندہ کر دیتا ہے۔ پولیس کو تفتیش کے جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے اور انہیں اس حوالے سے ضروری تربیت بھی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے وہ جسمانی تشدد کے آسان مگر غیرآئینی طریقہ کار کو اختیار کرتی ہے۔ پولیس تشدد پاکستانی معاشرے کی ایک بھیانک حقیقت ہے اور ایک ایسا جرم ہے جسے معاشرے نے خاموشی سے قبول کر لیا ہے۔ پولیس کی حراست میں دیے گئے اعترافی بیان کی عدالت میں زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، اسی لیے پاکستان میں جرائم پر سزاؤں کی شرح انتہائی کم ہے۔ پولیس کی تربیت کرنی ہو گی۔ انہیں یہ سمجھانا ہو گا کہ آپ عدالت نہیں، آپ کسی کے بارے میں فیصلہ نہ کریں، آپ کسی کو مجرم نہ ٹھہرائیں، سزا جزا عدالت کا کام ہے۔ عدالتی فیصلے سے پہلے کسی سے مجرم والا سلوک ٹھیک نہیں۔بنیادی طور پر چند چیزیں انتہائی ضروری ہیں ایف آئی آر کا اندراج، جدید طریقہ تفتیش، تھانوں میں بولی جانے والی زبان، سیاسی ماحول سے پاک تھانے، اہلکاروں کی اخلاقی تربیت، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں احتساب اور سزائیں یقینی بنانا، بین الاقوامی معیارات کے مطابق پولیس کو جدید تعلیم مہیا کرنا، تفتیش کے فرسودہ طریقوں کی جگہ جدید ذرائع کے استعمال اور عوام کو پولیس کی خدمات حاصل کرنے کا کلچر آسان بنانے جیسے پہلوؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہیاگر یہ بنیادی کام ہو جاتے ہیں تو پولیس بہتری کی طرف جا سکتی ہے نہیں تو اس ماحول میں جو آئے گا وہ اسی رنگ میں رنگ جائے گا۔


 

Waqas Muneer
About the Author: Waqas Muneer Read More Articles by Waqas Muneer: 10 Articles with 8487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.