کرونا وائرس اور بیروزگاری کے نفسیاتی صحت پر اثرات

Article is about the Mental health affected due to the unemployment caused by lockdown amid COVID-19.

ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں کثیر تعداد میں لوگوں کی جان لی اور بے شمار کی صحت کو متاثر کیا لیکن کرونا وائرس اپنے ساتھ مزید بھی بہت سے مسائل لایا۔ ان مسائل میں سے معاشی مشکلات ، غیریقینی اور ذہنی امراض سرفہرست ہیں۔ کرونا نے طویل مدتی بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا ہے جس کے نہ صرف معیشت پر بلکہ لوگوں کے روزگار ، کاروبار اور ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کرونا وا ئرس کے پھیلاؤ کے دوران دنیا کے پاس صرف قیاس آرائیاں تھیں کیوں کہ اس وقت اس موزی مرض کا کوئی علاج یا ویکسین موجود نہ تھی، تب ڈبلیو ایچ او نے دنیا پر زور دیا کہ وہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی میل جول کو کم کیا جائے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے۔ اس کے جواب میں کئی ممالک نے دفاتر اور کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ احتیاطی پابندیاں ایک سال سے زائد عرصے تک برقرار رہیں جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

طویل مدتی بے روزگاری کی وجہ سے پیشہ ور افراد اپنے کام پر عدم توجہی کی وجہ سے تکنیکی اور پیشہ ورانہ گرفت کھو دیتے ہیں اور انہیں صنعتوں کی بحالی کے بعد اپنی پرانی صلاحیتوں کو واپس حاصل کرنے کے لیے تربیت اور وقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، بعض صنعتوں کی بندش کی وجہ سے برسرروزگار افراد اپنے پیشہ ورانہ نیٹ ورکس، تخلیقی صلاحیتوں، انتظامی امور، تکنیکی کارروائیوں اور فیلڈ ورک سے الگ ہوگئے تھے جو ان کے پیشہ وارانہ دور کو نہ صرف نفسیاتی طور پر متاثر کرتا ہے بلکہ تکنیکی امور کی انجام دہی اور مالی استطاعت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ نوجوان جو ان شعبوں کی جانب مائل تھے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے،شدید متاثر ہوئے ۔ ملازمت اور تربیت کے مواقع میں کمی آنے کی وجہ سے ہنر مند اور ملازمت پیشہ افراد کی مخصوص مہارتوں میں کمی آئی ہے۔

پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جسے غربت، معاشی دباؤ اور بے روزگاری کی بلند شرح جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اپریل تا جون سہ ماہی میں پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں 13 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ سے 2 کروڑ 7 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔ اعداد و شمار کے مزید تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ صنعتی شہروں میں یہ رجحان زیادہ شدید تھا جہاں زیادہ تر لیبر فورس دیہی آبادی جو کہ کاشتکاری اور زراعت سے منسلک ہے کے برعکس صنعتوں پر زیادہ منحصر ہے۔ اعداد و شمار کے تخمینے سے پتہ چلتا ہے کہ شہری علاقوں میں ہر 4 میں سے 3 افراد پابندیوں اور کاروباری سہولیات یا تجارتی مراکز/مارکیٹوں کی بندش کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں ۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بے روزگاری اور ذہنی صحت کا گہرا تعلق ہے۔ آبادی کے بے روزگار طبقے میں ذہنی صحت کے مسائل جس میں ڈپریشن، ذہنی اضطراب و تناؤ، اور دائمی بیماریوں میں اضافہ (دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر، اور عضلاتی عوارض) کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ملازمت میں کمی اور عدم تحفظ لوگوں کے سماجی تعلقات اور طرز عمل کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے پیدہ شدہ پابندیوں کے دوران ، ملک بھر میں گھریلو اور صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا اور رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ گھر کے سربراہ کا ملازمت سے محروم یا اپنے روزگار کے حوالے عدم تحفظ کا شکار ، اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے سے قاصر ہونا ہے۔ یہ رجحان پورے گھرانے، سماجی ڈھانچے اور خاندانی تعلقات کو متاثر کرتا ہے ۔
نوجوانوں میں خاص طور پر بے یقینی کی کیفیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حال ہی میں کراچی کے ایک شاپنگ مال کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر ایک 28 سالہ نوجوان کی خودکشی کے حالیہ واقعے نے ملازمت کے عدم تحفظ اور روزگار کے مواقع کی کمی کی وجہ سے ذہنی صحت کی سنگینی کو اجاگر کیا۔ متوفی کی والدہ نے انکشاف کیا کہ مرحوم، بیروزگار اور ذہنی دباؤ کا شکار تھا جس کی وجہ سے اس نے خود کشی کرلی۔ یہ واقعہ ہمارے معاشرے، حکومت اور مختلف طبقات کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے لیے اقدامات کریں جو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سانحے نے ذہنی طور پر پریشان افراد کے لیے آگاہی مہم شروع کرنے کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے ۔ اسی حوالے ایک آگاہی مہم شروع کی گئی ہے جو کہ لوگوں کو نفسیاتی مسائل کے حوالے سے مفت مشورہ فراہم کرنے لے لیے کام کررہی ہے۔ اس آگاہی مہم کا نام " احتیاط، واحد نجات" ہے اور اس مہم کے تحت "خیال" کے نام سے ایک ہیلپ لائن متعارف کروائی گئی ہے جہاں ماہرین نفسیات ذہنی امراض پر مفت مشورہ اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ یہ ایک خوش آئیند عمل ہے لیکن ایسے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن کی بدولت مشکلات کے اس دور میں لوگوں میں امید کی شمع روشن کی جاسکے اور انہیں بہتر زندگی کی طرف راغب کیا جا سکے۔




 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Anum Sidra
About the Author: Anum Sidra Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.