اردواورادب اب بھی زندہ ہے

کراچی ایکسپو سینٹر میں ہونے والے 16ویں کتب میلے پر ایک چھوٹا سا تبصرہ

اردواورادب اب بھی زندہ ہے

کراچی ایکسپو سینٹر میں لگا 16 واں کتب میلہ 2021بڑے جوش و خروش سے اپنے اختتام کو پہنچ گیا لیکن کئی بے شمار حسین یادیں چھوڑ گیا کتاب سے محبت کرنے والوں نے جس طرح اس کتب میلہ میں رونق ڈالی وہ ایسی تھی جس سے آپ کی آنکھ ایک منٹ کیلئے بھی اوجھل نہ ہو۔ پچھلے سال 2020 میں قاتل وائرس کوورنا کی وجہ سے بد قسمتی سے یہ کتب میلہ نہ لگ سکا۔ لیکن اس بارمیلہ جب لگا تو کتاب پڑھنے کا شوق رکھنے والے نہ رک سکے اور لاکھوں کی تعداد میں ایک سمندر کی طرح کراچی ایکسپو سینٹر کی طرف کھینچے چلے آئے، کیا بچے کیا بوڑھے کیا نوجوان کیا لڑکیااور لڑکے ہر عمر کے لوگ کتاب سے اپنی محبت کا اظہار رکرتے نظر آئے۔میرادو دن ایکسپو سینٹر جانے کا اتفاق ہوا دونوں میرے ہفتہ اور اتوار ایکسپو سینٹر میں کافی مصروف گزرے جہاں میں نے متعدد بے شمار منجھے ہوئے ادبی لوگوں سے ملاقات بھی کی اور ان بہترین لکھاریوں کی کتابوں سے لطف اندوز بھی ہوا۔میں حیران تھا کہ انگریزی سے زیادہ آج کل کے نوجوانوں میں اردو کا شوق اب بھی زندہ ہے یعنی جو لوگ کہتے تھے کہ اردو مٹ چکی ہے ختم ہوچکی ہے ان سے کہوں گا کہ ایک دفعہ ایکسپو سینٹر کا چکر لگا کر دیکھ لیتے اپنی آنکھوں سے تو پتہ چل جاتا ہے اردو سے اب بھی لوگ کتنی محبت کرتے ہیں ادب ابھی بھی زندہ ہے۔ یو توں مجھے بھی انگریزی کتابیں اور انگریزی میں کالم لکھنے کا خاصا شوق رہا ہے لیکن چونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے تو اسی لئے میں اردو کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔چلے پھر آتے ہیں کتب میلے کی طرف میں جب وہاں گیا تو خاصا رش دیکھنے کو ملا۔ ویسے تو کافی کتابوں کے سٹال پر رش دیکھنے میں نظر آیا لیکن جو سٹال لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا وہ تھا علی میاں پبلشرز کا سٹال جہاں میں حیرت میں تھا کہ کافی رش تھااور میڈیا بھی وہاں موجود رہا اور کیوں نہ ہوتا وہاں پربڑیاور مشہور رائٹرز کے ساتھ ساتھ ایک کتاب لاریب بھی رکھی تھی جو کہ لبنیٰ غزل صاحبہ نے لکھی ہے اور لبنیٰ غزل صاحبہ کو کون نہیں جانتا؟ اردو ادب سے محبت کرنے والا ہر شخص اس شخصیت کے بہترین نام سے بخوبی واقف ہے،چالیس سال ڈائجسٹ میں لکھنے کا تجربہ رکھنے والی لبنیٰ غز ل صاحبہ یہ کتاب تقریباََ سولڈ آئوٹ ہوچکی تھی اور خود لبنیٰ غزل صاحبہ بھی اپنے مداحوں کیجھرمٹ میں وہاں آٹو گراف دینے اور ملنے کیلئے موجود تھیں۔ لبنیٰ غزل کی یہ کتاب نومبر 2020 میں شائع ہوئی مگر پچھلے سال کورونا کی وجہ سے کتب میلہ نہ ہوا ورنہ یہ کتاب تو پچھلے سال ہی لوگوں کی الماری کی زینت بن جاتی اس کتاب پر ایک تبصرہ بھی ضرور لکھوں گا کیوں کہ اس کے تبصرے کے بغیر یہ کتاب ادھوری ہے۔لبنیٰ غزل جیسے اور بھی شاعر اور ادیب وہاں موجود تھے جاسوسی کی کہانیاں لکھنے والے بہت ہی معتبر شخصیت پرویز پلگرامی صاحب بھی وہاں اپنے مداحوں کے درمیان موجود تھے،جاسوسی کی کہانیاں پڑھنے کا مجھے بے تحاشہ شوق ہے اور رہے گا،معروف شاعرہ سدرہ کریم صاحبہ بھی اپنی شاعری کی کتاب کچھ بھیگے الفاظ کی پذیرائی حاصل کرنے کے لئے وہاں موجود تھیں ساتھ ہی ساتھ ایک نوجوان لکھاری بنتِ شکیل اپنی کتاب عورت کی شان کے لیئے وہاں اپنے مداحوں میں موجود تھیں، ان سب لکھاریوں کو ایک ساتھ دیکھ دل بہت خوش ہوا تھا کہ اب بھی ہمارے معاشرے میں ادب سے محبت کرنے والے موجود ہیں ادب کو پہچان دینے والے موجود ہیں،یہ لوگ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں ہمیں ان کی دل و جان سے قدر کرنی چاہئے۔ ایک اور چیز مجھے وہاں دیکھنے کو ملی اور کافی زیادہ دیکھنے کو ملی کہ وہاں پر کچھ نوجوان لڑکیاں صرف تفریح کیلئے آئی ہوئی تھیں کتاب پڑھنے کا شوق تو لگ رہا تھا لیکن خریدنے کا نہیں مجھے تو کافی نوجوان صرف سیلفیاں لیتے نظر آئے،مگر اسی میں ایک مثبت پہلو بھی تھا وہ یہ کہ حجاب میں بھی کافی نوجوان لڑکیاں موجود تھیں جو کہ اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اس ملک میں حجاب بھی اب بھی زندہ ہے حجاب پہنے کا شوق بھی اب بھی بہت زیادہ ہے،کچھ ہمارے حلقے کے لبرلز یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حجاب کا دور اب ختم لیکن کوئی ان کو کتب میلے میں لے جائے تاکہ ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے۔ کتب میلے کی کتابوں کی خوشبو سونگھنے کے بعدتھوڑا زائفہ چکھنے کا بھی دل کیا تو میں کیفے ٹیریا کی طرف چل دیا جو کہ بک سٹالز کے اوپر والے فلور پر موجود تھا کافی گہما گہمی وہاں بھی دیکھنے میں آئی،لیکن بیٹھنے کی جگہ کافی کم تھی۔وہاں پر بریانی سے لے کر چائنیز، فاسٹ فوڈ،پزا،پکوڑے،سموسے سب موجود تھے جن سے کافی لطف اندوز تو ضرور ہوا کیوں کہ لزیز ہی اتنے تھے مگر ساتھ ہی قیمتیں بھی آسمانوں پر تھیں اس مہنگائی کے دو ر میں غریب آدمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے وہ کرے تو کیا کرے وہ مجبوری کے تحت اپنا روز گار چلانے کیلئے کھانے پینے کی اشیاء مہنگی تو ضرور کریگا۔میری اس وقت کے جو ہمارے حکمران ہیں جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ کا آخری سال ہے اگلا سال یعنی 2023 الیکشن کا سال ہوگا خدارا اب تو کچھ رحم کر کے مہنگائی پر کنٹرول کریں۔ آپ سے ہی سب سے زیادہ لوگوں کو امیدیں تھیں مگر آپ کے ہی دو ر حکومت میں مہنگائی ہوگی تو لوگ کہاں جائیں گے؟۔ خدارا کچھ کریں۔ دوبارہ آئوں گا ایکسپو کی طرف، کھانے سے لطف اندوز ہونے کے بعد میں نے سوچا کیوں نہ دوسرے ہالز کا بھی وزٹ کیا جائے۔ جب میں وہاں گیا تو خاصا گہما گہمی دیکھنے کو ملی پڑھے لکھنے نوجوانوں میں ہنر اجاگر کرنے کیلئے بھی خاصے اچھے سٹالز لگے ہوئے تھے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر تھوڑا سا بھی ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کو سپورٹ کریں تو وہ ہمارے ملک کا نام روشن کریں گے۔ آخر میں تھک کر جب ٹانگیں بالکل جواب دے چکی تھیں لیکن کتابوں کے بیچ میں رہنے کی جستجو ابھی بھی دل میں تھی جانے کا وہاں سے ذرا برابر بھی دل نہ کیا لیکن وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہ کافی دیر ہوچکی ہے تو چلنے کا ارادہ دل پر پتھر رکھ کر کر ہی لیا۔ اپنے تجزیے کے اختتام پر یہی عرض کروں گا کہ کتابوں سے محبت کرنے والے اب بھی زندہ ہیں معاشرے میں اور صرف کتابوں سے ہی نہیں اردو ادب سے بھی محبت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی موجود ہیں خاص کر نوجوان نسل بڑی تعداد میں موجود رہی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و ایمان رکھے اور ہمارے وطن عزیز کو ایسے ہی با صلاحیت ادیبوں اور شاعروں سے نوازے۔ آمین
 

Shaf Ahmed
About the Author: Shaf Ahmed Read More Articles by Shaf Ahmed: 21 Articles with 25120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.