تَمثیلِ دعوتِ مُرسلین و عداوتِ مُجرمین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 13 تا 21 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واضرب
لھم مثلا اصحاب
القریة اذ جاءھاالمرسلون
13 اذ ارسلناالیھم اثنین فکذبوھما
فعززنابثالث فقالوااناالیکم مرسلون 14
قالوا ماانتم الّا بشر مثلنا وماانزل الرحمٰن من
شئی ان انتم الّا تکذبون 15 قالواربنا یعلم انا الیکم
لمرسلون 16 وماعلینا الّا البلٰغ المبین 17 قالوا انا تطیرنا
بکم لئن لم تنتھوالنرجمنکم ولیمسنکم منا عذاب الیم 18 قالوا
طٰآئرکم معکم ائن ذکرتم بل انتم قوم مسرفون 19 وجاء رجل من
اقصا المدینة رجل یسعٰی قال یٰقوم اتبعوا المرسلین 20 اتبعوا من لا
یسئلکم اجرا وھم مھتدون 21
اے ھمارے رسُول ! اِس سے قبل آپ کی دعوتِ حق سننے اور انکار کرنے والے جن لوگوں کا ذکر ہو چکا ھے آپ اُن لوگوں کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ اُن کے سامنے اُن لوگوں کی اُس بستی کی مثال پیش کریں جس بستی میں ھم نے توحید کا پیغام پُہنچانے کے لیۓ پہلے اپنے دو نمائندے مامور کیۓ اور جب اُس بستی کے لوگوں نے اُن کی تکذیب کردی تو ھم نے اُس بستی میں اپنے پہلے دو نمائندوں کی تصدیق کے لیۓ اپنا ایک تیسرا نمائندہ مامُور کیا جس نے اُن لوگوں سے کہا کہ میں اللہ کا وہ نمائندہ ہوں جس کو اللہ نے اپنے اِن پہلے دو نمائندوں کی تصدیق اور تُمہاری تسلی کے لیۓ مامور کیا ھے اِس لیۓ تُم میری بات سنو اور اپنے انکار و تکذیب کا رویہ ترک کر کے اللہ کے اِن نمائندوں پر ایمان لے آؤ لیکن اُن لوگوں نے کہا کہ تُم لوگ جو ھماری طرح کے انسان ہو تو ھم تُمہاری یہ بات کیوں مان لیں کہ تُم اللہ کے وہ پیغام رساں ہو جن پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ھے بلکہ ھم تو یہ سمجھتے ہیں تُم اپنے اِس دعوے میں جھوٹے ہو اور تُم پر اللہ کی کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ، اللہ کے اُن پیغام بروں نے اللہ کو گواہ بنا کر اُن لوگوں کو یقین دلایا کہ ھم سَچ مُچ میں تُمہاری طرف اللہ کے مامور کیۓ ہوۓ اللہ کے حقیقی نمائندے ہیں اور ھمارا کام اِس سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ھے کہ ھم تُم تک اللہ کا پیغام پُہنچادیں چاھے تُم مانو یا نہ مانو لیکن تُمہاری بہتری اسی میں ھے کہ تُم ھماری اِس دعوت پر ایمان لے آؤ جس پر اُن لوگوں نے کہا کہ تُم تو کوئی بہت ہی منحوس لوگ ہو جو صبح و شام ہمیں یہ کہہ کر ڈراتے رہتے ہو کہ اگر ھم نے تُمہاری بات نہ مانی تو ھم تباہ و برباد ہو جائیں گے لیکن آج کے بعد بھی اگر تُم ہمیں ڈرانے دھمکانے سے باز نہ آۓ تو ھم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تُم کو اتنی ذہنی و جسمانی اذیتیں دیں گے کہ تُم ھماری بستی میں اپنی نحوست پھیلانے سے باز آجاؤ گے ، اُن کی یہ دھمکی سن کر اللہ کے اُن نمائندوں نے کہا کہ تُم ھماری جس دعوتِ حق کو نحوست کہتے ہو نحوست وہ دعوت نہیں ھے بلکہ نحوست تُمہاری وہ جہالت ھے جس کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور تُم ہمیں جس سزا کی دھمکی دے رھے ہو تو کیا وہ ھمارے اِس عمل کی سزا ہوگی کہ ھم تُمہارے وہ ہمدرد ہیں جو تُم کو آنے والی ایک بڑی سے تباہی سے بچانا چاہتے ہیں ، حقیقت یہ ھے کہ تُم واقعی اپنی انسانی و اخلاقی کی حدود کو پامال کر چکے ہو ، جب اُس بستی میں حق کے اظہار اور حق کے انکار کی یہ بحث و تمحیص جاری تھی تو اَچانک ہی ایک معزز شہر کا ایک معزز شہری بھاگتا ہوا وہاں آیا اور اُس نے اُن لوگوں سے کہا کہ تُم لوگ کُچھ تو خُدا خوفی سے کام لو اور اللہ کے اُن رسُولوں کی بات سنو اور اُن کی اُس ھدایت پر عمل کرو جو ھدایت وہ تمہیں دے رھے ہیں اور جس کا ھدایت کا وہ تُم سے کوئی طلبانہ بھی طلب نہیں کر رھے ہیں جو اِس بات کی ایک قوی دلیل ھے کہ وہ اللہ کے سچے راستے پر ہیں اور تُم کو بھی اللہ کے سچے راستے پر چلانا چاہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت سے پہلی اٰیت میں یہ مضمون بیان ہوا تھا کہ اِس دُنیا میں جو انسان جو اعمالِ خیر اَنجام دیتا ھے اُس کے اُن اعمالِ خیر میں سے کُچھ اعمالِ خیر جو اُس انسان کی ذات کے لیۓ ہوتے ہیں وہ اُس انسان کی نجات کے لیۓ اُس کی موت سے پہلے ہی اُس کے حسابِ آخرت میں چلے جاتے ہیں اور اُن میں سے اُس کے کُچھ اعمالِ خیر جو اہلِ دُنیا کے لیۓ خیر ہوتے ہیں وہ اعمالِ خیر اُس کی موت کے بعد بھی اُس کے عملِ خیر کے طور پر دُنیا میں موجُود رہتے ہیں لیکن دُنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے والے یہ سارے اعمالِ خیر اللہ تعالٰی کی ایک کتابِ محفوظ میں محفوظ بھی کر دیۓ جاتے ہیں تاکہ یومِ حساب کے موقعے پر اُس انسان کے آگے جانے اور دُنیا میں رہنے والے یہ سارے اعمالِ خیر اُس کی جزاۓ خیر میں شامل کیۓ جائیں اور پہلی اٰیت کے اُس پہلے مضمون کے بعد اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت سے شروع ہونے والے اِس دُوسرے مضمون میں اللہ تعالٰی نے اپنے اُن انبیاء ورُسل کا ذکر کیا ھے جو دُنیا میں انسان کو اعمالِ خیر سکھانے کے لیۓ آتے رھے ہیں اور اِس دُوسرے مضمون کے اِس مفہوم میں بھی اُسی پہلے مضمون کی اُسی پہلی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کے اِن انبیاء و رُسل کی حیات میں اُن پر ایمان لاۓ ہیں یا جو لوگ اُن کی وفات کے بعد اُن کی تعلیمات پر ایمان لائیں گے تو اُن کے وہ اعمالِ خیر دُنیا میں بھی خیر کے طور پر قائم رکھے جائیں گے اور آخرت میں بھی وہ لوگ اپنے اُن اعمالِ خیر کی جزاۓ خیر پائیں گے ، قُرآنِ کریم کے مطابق اللہ تعالٰی کے اُن انبیاء و رُسل کی تعلیمات سے انکار کرنے والے اُن لوگوں کا اُس زمانے میں پہلا اعتراض یہ ہوتا تھا کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کا پیغام لے کر اُن کے پاس آتے ہیں تو وہ فرشتے ہونے کے بجاۓ انسان کیوں ہوتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اُن کے اِس اعتراض کا سُورَہِ ابراھیم کی اٰیت 11 ، سُورَہِ کہف کی اٰیت 110 ، سُورَہِ اَنبیاء کی اٰیت 3 ، سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت 24 ، 33 ، 34 اور سُورَہِ فُصلّت کی اٰیت 6 میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ھے اور اُنہی مقامات پر دلیل کے ساتھ اُن کے اِس اعتراض کا جواب بھی دے دیا ھے ، اِن لوگوں کا اَنیاۓ کرام کی ذات پر دُوسرا اعترض یہ ہوتا تھا کہ اگر ھمارے پاس اللہ تعالٰی کا آنے والا کوئی نبی اور رسُول انسان بھی ھے تو وہ ھم جیسا ایک عام انسان کیوں ھے اِس کو تو فرشتوں کی ایک ہٹو بچو کے نقاروں کے ساتھ آنے والی جماعت کے ساتھ آنا چاہیۓ تھا اور یا وہ اپنے زمانے کا ایک ایسا امیر کبیر آدمی ہونا چاہیۓ تھا جس کے پاس بڑے بڑے سونے کے محلات بھی ہوتے اور سونے و چاندی کے وہ خزانے بھی ہوتے جن خزانوں کو دیکھ کر ھم اُس پر ایمان لے آتے ، بَھلا یہ کیا بات ہوئی کہ اللہ تعالٰی کا نبی ھماری طرح کا ایک انسان ہو اور ھم اپنی طرح کے اُس انسان پر ایمان لے آئیں ، قُرآنِ کریم نے اُن پگڑی ہوئی قوموں کے اُن بگڑے ہوۓ افراد کے اِس اعتراض کا سُورَہِ ابرھیم کی اٰیت 10 ، سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت کی اٰیت 47 ، سُورَةُالشعراء کی اٰیت 156 و 186 اور اِس سُورت کی اٰیت 15 میں بھی مُفصل اور مُدلل جواب دیا ھے ، مُحوّلہ بالا اٰیات میں بیان کیۓ گۓ اعتراض اور دیۓ گۓ جوابات سے قطع نظر اِس سُورت کی اِس اٰیت میں اُس اعتراض کا جو جواب دیا گیا ھے وہ اِس قوم کے معززینِ شہر میں سے ایک معزز شہری کی زبان سے سے یہ عقلی و مَنطقی جواب دیا گیا ھے کہ خُدا کے بندو ! تُم اللہ تعالٰی کے انبیاء و رُسل کی تکذیب سے پہلے کم از کم ایک بار تو یہ ضرور سوچ لیا کرو کہ ہر ایک انسان کے ہر ایک کام کا ایک مقصد ہوتا ھے اور اُس کے اُس مقصد کے پیچھے اُس کا ایک مفاد بھی موجُود ہوتا ھے لیکن تُمہارے پاس اللہ تعالٰی کے پہلے جو دو رسُول آۓ تو تُم نے اُن کی تکذیب کی اور پھر اُن دو رسُولوں کی تصدیق کے لیۓ تُمہارے پاس ایک تیسرا رسُول آیا تو تُم نے سوچے بغیر ہی اُس کی بھی تکذیب کر دی ، تُم ایک لَمحے کے لیۓ یہ تو سوچو کہ آخر اللہ تعالٰی کے اُن بندوں کا تُمہارے ساتھ ایسا کون سا مفاد وابستہ ھے جس مفاد کی وجہ سے تُم اُن کی مُخالفت پر کمر بستہ ہوگۓ ہو ، اللہ تعالٰی کے اُن بندوں نے تُم سے اپنے کام کا کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا ھے جس کی وجہ سے تُم اُن کی مُخالفت کر رھے ہو ، وہ تو تمہیں اپنے فائدے کے بجاۓ تُمہارے فائدے کی بات بتا رھے ہیں اور اُن کی یہی بات اُن کے اللہ تعالٰی کے رسُولِ مُرسل ہونے کی ایک مُعتبر دلیل ھے ، قُرآنِ کریم نے رسُول کے رسُول ہونے کی اِس دلیل کو سُورَہِ یُونس کی اٰیت 72 ، سُورَہِ ھُود کی 29 ، 51 ، سُورَةُالشعراء کی اٰیت 109 ، 127 ، 145 ، 164 ، 180 اور سُورَہِ سبا کی اٰیت 47 میں پُوری دلیل و تفصیل اور پُوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ھے ، جہاں تک اِس مضمون میں ذکر کی گئی اُس بستی کا تعلق ھے جس میں اللہ تعالٰی نے اپنے وہ رسول مامور فرماۓ تھے تو اہلِ روایت اور اُن کے تابعِ مُہمل مُفسرین نے اُس بستی سے شام کا شہر انطاکیہ مُراد لیا ھے اور اللہ تعالٰی کے جن رسولوں کا ذکر کیا ھے اُن سے عیسٰی علیہ السلام کا انطاکیہ میں بھیجا ہوا وہ تبلیغی وفد مُراد لیا ھے جو تبلیغی وفد اہلِ روایات کی روایات کے مطابق انطاکیہ میں سلجوقی خان دان کے انطیخش نامی ایک بادشاہ کے زمانے میں عیسٰی علیہ السلام نے بھیجا تھا لیکن یہ بات اِس لیۓ غلط ھے کہ سلجوقی خان دان کا آخری بادشاہ 65 قبل مسیح کا آخری باشاہ تھا اور عیسٰی علیہ السلام کے زمانے میں انطاکیہ سمیت شام و فلسطین کا پُورا علاقہ رومیوں کے زیرِ تسلط تھا جن کے کسی بادشاہ کا نام انطیخش نہیں تھا اور جہاں تک اٰیاتِ بالا میں قُرآن کے بیان کیۓ گۓ اُن تین رسُولوں کا تعلق ھے تو اُن سے اللہ تعالٰی کے وہ حقیقی رسُول مُراد ہیں جو اللہ تعالٰی نے اُس بستی میں مامور فرماۓ تھے اور اُن سے کسی نبی و رسول کا بھیجا ہوا کوئی تبلیغی وفد مُراد لینا قُرآن کے اُس بیانئے کے خلاف ھے جو بیانیہ اِن اٰیات میں بیان ہوا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 469613 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More