پپو پٹواری اور اس کا رقص

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ رجہ اعجاز
یہ پپو پٹواری وہی ہے جس کا ذکر احتزاز احسن نے اسمبلی میں آپنی تقریر میں کیا تھا اور راولپنڈی میں زمین کے انتقالات کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا تھا کہ ’’پپو پٹواری‘‘ کی مرضی کے بغیر زمین کا کوئی انتقال نہیں ہو سکتا۔اس بات پر اس وقت پورے میڈیا میں شور مچ گیا اور رات کے ٹاک شوز میں ہر طرف پپو پٹواری پپو پٹواری ہونے لگا۔اس بات کا فائدہ پپو پٹواری کو یہ ہوا کہ اس کے ادارے نے اسے پٹواری سے گرداور کی سیٹ پر ترقی دے دی۔

گزشتہ دن پپو پٹواری کی ایک وائرل وڈیو سوشل میڈیا پر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں موصوف انڈیا کے لوک فنکار ستھندر سنگھ کے گیت ’’لاواں عشق دے امبڑی اڈاریاں سانوں پیار دیاں چڑھیاں خماریاں‘‘ پر کسی نجی محفل میں بہت ہی خوبصورت انداز میں محو رقص ہیں,یقین جانیے ان کا رقص دیکھتے ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر ڈوب کے رقص کر رہے ہیں,اور ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر اپنا رانجھا راضی کر رہے ہیں,کوئی کیا کہے گا یہ بات رقص کرتے پپو پٹواری سے کوسوں دور نظر آتی ہے,ظاہر اور باطن جب ایک ہو جائیں تو شخصیت کے تضادات ختم ہو جاتے ہیں اور پھر وہی نظر آتا ہیجو اصل ہو۔

اس ساری تمہید کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ میرا پپو پٹواری سے کوئی کام پھنسا ہوا ہے یا میں نے زمین کا انتقال کروانا ہے بلکہ پپو پٹواری اور اس کا رقص، اس بات کی دلیل ہے کہ اب منافق معاشرے کی منافقت میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے,عام انسان ظاہری نمود و نمائش و مصنوئی زندگی سے تنگ آچکا ہے اور اپنی اصل کی طرف چل نکلا ہے,پپو پٹواری کا یوں سر عام رقص کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے،معاشرے کی رکاوٹیں توڑنا آسان نہیں ہوتا ہے۔یہ وہ معاشرہ ہے جہاں دوغلا پن ہر شخص، ہر ادارہ،ہر شعبہ ہاے زندگی میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے،یہاں ’’کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور‘‘ کا رواج عام ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ممبر ومسجد کو ملکی سیاست اور ذاتی مفاد اور لوگوں کو خوف میں مبتلا رکھنے کیلیے استعمال کیا جاتاہے مگر وعض صلہ رحمی، بھلائی اور امن کا ہوتا ہے,جہاں ہر عدالت کے دروازے پر رشوت لینے اور دینے والے کو جہنمی قرار دیا جاتا ہے مگر جج اسی قرآنی آیت کے نیچے بیٹھ کر مقتول کو قاتل اور قاتل کو مقتول بنا دیتا ہے,آپ تھانے چلے جائیں تو ماڈل پولیس آپکو اس اچھے انداز میں خوش آمدید کہے گی کہ آپکو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا مگر سچ یہ ہے یہاں تھانے دار اسی کا ہے جس نے تھانیدار کی جیب گرم کی ہے۔

کسی بھی معاشرے کی تشکیل وہاں پر رائج معاشی اصولوں پر ہوتی ہے اور یہاں دو چہروں کے مالک کو زیادہ عزت ملتی ہے۔اس دوہرے نظام کے مالکان سے تو پپو پٹواری ہی بہتر ہے کہ جس کا ظاہر و باطن ایک ہے۔
 

Waseem Ashraf Abbasi
About the Author: Waseem Ashraf Abbasi Read More Articles by Waseem Ashraf Abbasi: 10 Articles with 8486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.