حضرت علی ؓ شیر خدا کے اوصاف

حضرت علی بن ابی طالبؓخانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔حاکم نیشاپوری جو اہل سنت کے بزرگ علما میں شمار ہوتے ہیں اپنی کتاب مستدرک ،جلد_۳،صفحہ_۳۸۴ پر اس حدیث کو باسندو متواتر لکھا ہے ، لکھتے ہیں :" امیر المومنین علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہ ،فاطمہ ابنت اسدکے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے "شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’ ازالٗالخفاء‘‘ صفحہ ۱۵۲ پر اس حدیث کو اور واضح طور پر تحریرکیا ہے کہ احضرت علیؓسے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی کو یہ شرف نصیب نہیں ہوا چنانچہ لکھتے ہیں :" روز جمعہ تیرہ رجب کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا "علماء شیعہ رضوان اﷲ علیہم نے کچھ اس طرح لکھا ہے :" جس وقت جناب فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے تو وہ خود خانہ کعبہ کے قریب تشریف لے گئیں اور خدا وند عالم سے دعا کی کہ خدا یا میری اس مشکل کو آسان کردے۔ ابھی دعا میں مشغول ہی تھیں کہ خانہ کعبہ کی دیوار پھٹی اور فاطمہ بنت اسدؓ اندر داخل ہوگئیں اور وہیں پر حضرت علیؓ کی ولادت ہوئی "بریدہ بن قعنب سے روایت ہے بریدہ کہتے ہیں کہ :میں عباس اور بنی ہاشم کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا کہ اچانک فاطمہؓ بنت اسد آئیں اور طواف خانہ کعبہ میں مشغول ہو گئیں، اثنائے طواف میں ان پرآثار وضع حمل ظاہر ہوئے تو خانہ کعبہ کے قریب آکر فرمایا :" خدا وندا میں تجھ پر اور تیرے تمام پیغمبروں پر اور تیری کتاب پر ایمان رکھتی ہوں جو تیری طرف آئی ہے۔اور اپنے جد جناب ابراہیم خلیل کی تصدیق کرتی ہوں اور یہ کہ انھوں نے اس خانہ کعبہ کو بنایا ، خدایا اس شخص کا واسطہ جس نے اس گھر کی بنیاد رکھی، اور اس بچے کا واسطہ جو میرے بطن میں ہے اس کی ولادت میرے لئے آسان کر "بریدہ بن قعنب کہتے ہیں :ہم لوگوں نے دیکھا کہ اچانک خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسدؓا کعبہ کے اندر داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ پھر دیوارکعبہ آپس میں مل گئی۔ہم لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ خانہ کعبہ کا تالا کھول کر اندرداخل ہوں لیکن تالا نہ کھلا۔ تالے کے نہ کھلنے سے ہم لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ خدا وند عالم کا معجزہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔جناب فاطمہ بنت اسد چوتھے روز حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھوں پر لیئے ہوئے برآمد ہوئیں۔روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت ؓ اسد فرماتی ہیں کہ علی ؓ کی ولادت کے بعد جب میں خانہ کعبہ سے باہر آنے لگی تو ہاتف غیبی نے ندا دی :اے فاطمہ ! اس بچہ کا نام " علی " رکھو اس لئے کہ یہ علی و بلند ہے اور خدا علی اعلیٰ ہے : میں نے اس بچہ کا نام اپنے نام سے جدا کیا ہے اور اپنے ادب سے اس کو مودب کیا ہے اور اسے اپنے علم کی باریکیون سے آگاہ کیا ہے۔حضرت علی ان خوش قسمت لوگوں میں شمارہوتے ہیں جن کی تربیتخودآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے مقدر میں لکھا تھااورآپ ؐ کے وفاداردوستوں میں شمارہوا۔ اس مقام پر سیدنا علی شیرِ خدا رضی اﷲ عنہ کے اس قول کا ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی لذت آفرین کیفیت کو بیان کر کے ثابت کر دیا کہ عظمتِ رسولؐ کا پرچم سر بلند کرنا اور اطاعتِ مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کیمحبت دل میں روشن رکھنا ہی ایمان کی اساس ہے۔سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے حضورپاک ؐ کی محبت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اﷲ کی قسم! حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے اموال، اولاد، آباء و اجداد اور امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے اور کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اپنے آقا و مولا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔الشفاء ، 2 : 568حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اْن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سْرخ اْونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میری جگہ پر اسی طرح ہیں جیسے ہارون موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ آپ ؐ ایک اورجگہ فرماتے ہیں : ’’جس کا میں مولا ہوں اْس کا علی مولا ہے المسند (1 : 165، 166، رقم : 106)‘زید بن ارقمؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور وہ دن بہت گرم تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اﷲ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اْس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ تھام لیا اور فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اﷲ اور اْس کا رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اْنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اْس کا علی مولا ہے کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904۔حضرت ضرارؓ نے حضرت علی ؓکے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ سنئیے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اونچے مقصد والے اور بڑے طاقت ور تھے۔ فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و انصاف والا فیصلہ کرتے تھے۔ آپ کے ہر پہلو سے علم چھلکتاتھا۔ اور ہر طرف دانائی ظاہر عیاں ہوتی تھی۔ دنیا اور دنیا کی رونق سے ان کو وحشت تھی۔رات اور رات کے کے اندھیرے سے ان کا دل بڑا مانوس تھا (یعنی رات کی عبادت میں ان کا دل بہت لگتا تھا) اﷲ کی قسم وہ بہت زیادہ رونے والے اور بہت زیادہ فکر مند رہنے والے تھے۔ اپنی ہتھیلیوں کو الٹتے پلٹتے اور اپنے نفس کو خطاب فرماتے سادہ اور مختصر لباس اور موٹا جھوٹا کھانا پسند تھا۔ اﷲ کی قسم وہ ہمارے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے۔ جب ہم ان کے پاس جاتے تو ہمیں اپنے قریب بٹھا لیتے۔ اور جب ہم ان سے کچھ پوچھتیتو ضرور جواب دیتے۔ اگرچہ وہ ہم سے بہت گھل مل کر رہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی ہیبت کی وجہ سے ہم ان سے بات نہیں کر سکتے تھے۔جب آپؓ کے چہرے پرمسکراہٹ ہوتی تو آپ کے دانت پروئے ہوئے موتیوں کی طرح نظر آتے۔دینداروں کی قدر کرتے۔ مسکینوں سے محبت رکھتے۔ کوئی طاقتور اپنے غلط دعوے میں کامیابی کی آپ سے سے توقع نہ رکھ سکتا اور کوئی کمزور آپ کے انصاف سے نا امید نہ ہوتا۔ اور میں اﷲ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کو ایک دفعہ ایسے وقت میں کھڑیہوئے دیکھا کہ جب رات کی تاریکی چھا چکی تھی اور ستارے ڈوب چکے تھے اور آپ اپنی محراب میں اپنی داڑھی پکڑے ہوئے جھکے ہوئے اور اس آدمی کی طرح پریشان ہوتے جیسے کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو اور غمگین آدمی کی طرح رو رہے تھے اور انکی صدا گویا اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ بار بار یا ربنا یا ربنا فرماتے اور اﷲ کے سامنے گڑگڑاتے۔ پھر دنیا کو مخاطب ہو کر فرماتے کہ اے دنیا: تو مجھ سے دور ہو جا کسی اور کو جا کر دھوکہ دے میں نے تجھے تین طلاقیں دیں۔ کیونکہ تیری عمر بہت تھوڑی ہے اور تیری مجلس بہت گھٹیا ہے تیری وجہ سے آدمی آسانی سے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہائے ہائے کیا کروں زاد سفر تھوڑا ہے اور سفر لمبا ہے اور راستہ وحشت ناک ہے۔ یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس پر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا بیشک ابو الحسن (حضرت علی رضی اﷲ عنہ) ایسے ہی تھے۔ اﷲ ان پر رحمت نازل فرمائے۔ اے ضرار تمہیں ان کی وفات کا رنج کیسا ہے۔؟ حضرت ضرار نے کہا اس عورت جیسا غم ہے جس کا اکلوتا بیٹا اس کی گود میں ذبح کر دیا ہو کہ نہ اس کے آنسو تھمتے ہیں اور نہ اس کا غم کم ہوتا ہے پھر حضرت ضرار اٹھے اور چلے گئے۔(حیاٗ الصحابہ)اﷲ پاک ہمیں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے تاکہ آخرت میں آقادوجہاں ؐ کے سامنے آنکھیں ناجھکانیں پڑیں۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 198210 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.