موسمیاتی تبدیلیاں:دُنیا نازک موڑ پرآن پہنچی!

جنوبی ایشیاء اِس وقت شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے جبکہ پاکستان کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان حکام نے جمعے کو ہیٹ ویو کی وجہ سے پانی کی شدید کمی اور صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ ایک تحقیق کیمطابق1880ء کے بعد 2000ء سے موسمی تبدیلیوں میں تیزی واقع ہوئی۔ جرمن واچ کے مطابق پاکستان دُنیا کے اْن سات ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے شدید متاثر ہوں گے۔موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دو دہائیوں میں (2010ء سے2030ء) کے دوران موسم میں حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح 1950ء سے1990ء کے دوران چار مرتبہ دُنیا کے مختلف خطوں کو شدید ترین گرمی کا شکار ہونا پڑا اسی طرح ان دو دہائیوں میں پھر دُنیا کے مختلف علاقوں میں شدید ترین گرمی پڑنے کا امکان ہے۔ کرہ ارض پر بالعموم موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔موسمیاتی تبدیلی دُنیا کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا۔

اپریل سے ہی پاکستان اور انڈیا کے کچھ علاقے شدید گرمی کی زد میں ہیں جبکہ ورلڈ میٹیرولوجیکل آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کیمطابق 2050 عیسوی تک بنگلہ دیش اور پاکستان میں لاکھوں انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہونگے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہایت خطرناک ہونگے۔اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اِنسانی نسل کو اِس وقت سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔انسان کے اپنے ہی پیدا کردہ تباہ کن حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اکثر ملکوں کے لئے ماحولیاتی تبدیلی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ دُنیا اِس مقام سے بہت دور ہے جہاں اسے اصل میں ہونا چاہئے تھا۔ وطن عزیز کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید خطرات کا سامنا ہے۔

سائنسدان‘ ٹیکنالوجی کے ماہرین کااِن موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ دُنیا بھر کے ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ دُنیا بھر میں تیل ٗگیس کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اس مسئلہ کو پیچیدہ تر کر دیا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع نہ ہونے کی بنا ء پر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دُنیاکے مختلف ممالک میں خوفناک سیلاب آئینگے۔ دُنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے میں سے ایک ہے۔ رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار‘ متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ پاکستان موسمی تبدیلیوں سے متاثر ممالک میں شامل ہے جہاں کہیں تو سخت ترین سرد موسم کے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں تو کہیں گرمی نے خطہ کو پگھلا کر رکھ دیا۔ کہیں سیلابوں اور طوفانوں نے تباہی مچائی تو کہیں طوفانی بارشوں نے بے حال کردیا۔پاکستان میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے نقل مکانی اور ذرائع آمدن کی تبدیلی جیسے مشکل فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہے۔

لندن کی انوائرمنٹل جسٹس فاؤنڈیشن کے مطابق دنیا میں 26 ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور 2050ء تک 500 سے 600 ملین لوگ مزیدہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ شدید دیگر خطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔سائنس دان عالمی حدت میں اضافہ کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدا ر کا فضاء میں اخراج قرار دیتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ایندھن‘ قدرتی گیس‘ کوئلہ‘تیل سے توانائی پیدا کرنے کے ماحول پر منفی اثرات انسانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ مضر رساں ہیں۔ کوئلہ توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70 فی صد زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے۔ہمارا بھی ماحول کی تباہی میں بنیادی کردار ادا ہے جن میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی‘جنگلات کے رقبہ میں آگ‘بلند و بالا عمارتیں‘برھتی ہوئی آبادی‘گاڑیوں کی بہتات وغیرہ شامل ہیں۔

اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989ء سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔ ویب آف سائنس کے مطابق واٹر ٹاور آف ایشیا ہمالیہ‘ ہندوکش اور قراقرم، قطب شمالی و قطب جنوبی کے بعد برف کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور یہی پہاڑی سلسلے دریائے سندھ کی روانی کے ضامن بھی ہیں۔پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں‘شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے سربراہ آصف انعام کی تحقیق کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے زیر آب آ چکے ہیں جبکہ 2050ء تک سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین پانی میں ڈوب چکے ہوں گے۔

ماہرین ماحولیات متعدد مرتبہ اس خدشہ کا اظہار کر چکے ہیں کہ سمندر کی سطح میں تیزی سے اضافہ کے باعث 2060ء تک دو کروڑ سے زائد آباد ی کا شہر کراچی زیر آب آ سکتا ہے‘ سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں سمندر کی سطح میں اضافہ زیر زمین پانی میں کمی خشک سالی‘ سیلاب و دیگر موسمی تبدیلیوں سے جڑے مسائل کی وجہ سے ہزاروں گھرانے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ متعد د گھرانے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔مستقبل میں موسمی تبدیلیوں کی ہولناکی سے لاکھوں خاندان ایسے ہی خطرات سے دوچارہو سکتے ہیں۔ صنعتی سرگرمیوں کے دو بڑے مراکز چین اور بھارت کے درمیاں میں واقع ہونے کے باعث پاکستان گوناگوں ماحولیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار پانی پر ہے جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے حصے کو صاف پانی میسر نہیں‘ پانی کے بحرا ن میں مبتلا اس ملک کی پانی سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں۔ آبی ذخائر بنانے اور دریاؤں‘ ندی‘ نالوں کا پانی نامیاتی و صنعتی و دیگر آلودگی سے محفوظ رکھنا ہو گا۔ہمارا ملک انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی تعدادخطرناک حد تک کم ہو چکی ہے اور باقی ماندہ جنگلات اور درخت تیزی سے صاف کیے جارہے ہیں۔

موجودہ جنگلات اور درختوں کو بچانا اور نئے جنگلات اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔کیمیائی کھادوں،زہروں اوردیگر کیمیائی مادوں کااستعمال کم سے کم کرنا ہوگا اورزراعت میں ماحول دوست اور استقامت انگیز(Sustainable)طریقے اپنانا ہونگے۔بائیوڈائیورسٹی‘ویٹ لینڈزاور جنگلی حیات کو محفوظ بنانا ہوگا۔گلیشئرز کوجوکہ تیزی سے پگھل رہے ہیں اورآ بی وسائل‘ دریاؤں‘جھیلوں وغیرہ کومحفوظ بنانا ہوگا۔ہمیں سمندرکے پانی کوزرعی‘صنعتی اور دیگر آلودگیوں سے زہریلا اور تیزابی ہونے سے بچانا ہوگا۔ ہمیں اپنے قدرتی وسائل پربوجھ کم سے کم کر کے ان کے استعمال کو استقامت انگیز بنانا ہوگا۔ہم نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو محدود کرنے سمیت دیگر اہم اقدامات نہ کئے تو اس کے بعد سیلاب‘طوفان‘ موسمیاتی شدت‘ خشک سالی‘ فصلوں کی تباہی کا عمل تیز ہوسکتا ہے جس کے پورے سیارے پر غیرمعمولی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 142468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.