ہمارے معاشرے کا عمومی نقشہ

اطلاعات کے مطابق بہاولنگر کے دوتھانیداروں نے جرائم پیشہ افراد سے برآمد ہونے والی 35کلو چرس مال خانہ سے نکال کر فروخت کردی اور18لاکھ روپے کمالیے جبکہ مال خانہ میں چرس کی جگہ کالاصابن رکھدیا۔اتفاق سے عدالت میںمقدمہ کی سماعت کے وقت جب مال مقدمہ طلب کیاگیاتویہ راز کھلا۔میں نہیں سمجھتاکہ اس کاروائی میں صرف دو تھانیدار ہی ملوث ہوں بلکہ میرے خیال کے مطابق اس میں چند نادیدہ ہاتھ بھی ملوث ہیں ،جنہیں بچانے کی خاطردوتھانیداروں کی قربانی دی گئی ۔اورایسا اس لئے بھی کیاجاتاہے کہ بعد میں انہیں دونوں تھانیداروں کاتحفظ بھی توکرناپڑے گانا۔پولیس ،جس کاکام معاشرے سے جرائم کاخاتمہ ہے ،خود اس حد تک جرائم میں ملوث ہے کہ جس کی ایک چھوٹی سی مثال بہاول نگر کامذکورہ بالاواقعہ ہے۔یہ توسوئے اتفاق کہ عدالت نے مال مقدمہ طلب کرلیا،وگرنہ اکثر ایساہوتاہے کہ مال مقدمہ طلب ہی نہیں کیاجاتااوراگر مال مقدمہ طلب کرنے کیلئے تھوڑا بہت زور دیابھی جائے توکبھی وکیل صفائی آڑے آجاتاہے توکبھی وکیل استغاثہ اس کوشش کو ناکام بنادیتے ہیں۔اس میں ان کے اپنے ذاتی کلائینٹ کے تحفظ کی بات پوشیدہ ہوتی ہے۔بعض اوقات مال مقدمہ کاطلب نہ کیاجاناملزم کے فائدے میں جاتاہے اوربعض اوقات مال مقدمہ کی طلب مدعی کوفائدہ بخشتی ہے۔بہرحال یہ بات قانونی کاروائی کاحصہ ہے،سرِدست عرض یہ کرناچاہتاہوں کہ ہمارامعاشرہ کس حد تک بگاڑ کاشکار ہوچکاہے کہ دوقانون کے محافظ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مال مقدمہ عدالت میں طلب کیاجاسکتاہے کتنی دیدہ دلیری سے 35کلو چرس ہضم کرنے کی ہمت کرگئے۔لازمی طور پر اس میں صرف وہ دونوں ہی ملوث نہیں بلکہ کچھ اوپر کے افسران اورکچھ دائیں بائیں کے لوگ بھی ملوث ہیں۔بہرحال تفتیش جاری ہے دیکھئے کیانتیجہ نکلتاہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی کرپشن کاگراف اپنی انتہاکوچھونے جارہاہے ۔ایک طرف غربت کارونارویاجارہاہے، اشیائے خوردونوش ،پٹرولیم مصنوعات ،بجلی ،گیس اورروز مرہ استعمال کی دیگر اشیا ءکی بڑھتی ہوئی قیمتیں غربت میں مزید اضافہ کاباعث بن رہی ہیں تودوسری طرف حکومت ملکی اورغیر ملکی قرضہ جات کاڈھیر لگانے میں مصروف ہے ۔رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان پر مستقل ملکی قرضہ 794ارب روپے سے زائد ہے ۔جب کہ غیر ملکی قرضہ کی مالیت 52ارب ڈالر سے متجاوز ہے ۔ان حالات کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ ،جس میں حکومتی اہلکاروں سے لے کر سیاستدان تک سب شامل ہیں ،اپنے اخراجا ت میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں ۔اگر گہرائی سے جائزہ لیاجائے اورحکومتی اہلکاروں کے اخراجات کاذرا باریک بینی سے مشاہدہ کیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ معمولی درجے سے لے کر گریڈ 22تک کے حکومتی اہلکار وں کی تنخواہوں اوران کے ماہانہ اخراجات میں کافی فرق پایاجاتاہے ۔مثال کے طورپر ایک تھانیدار کی تنخواہ 20ہزار سے لے کر 30ہزار کے درمیان ہے ۔جبکہ اکثر تھانیداروں کے پاس اپنی پرائیویٹ گاڑیاں بھی ہیں ۔مہنگائی کے اس دور میں ایک بال بچے دار ملازم جس کی آمدن 30ہزار روپے ماہانہ ہو وہ سکون کے ساتھ اپنے خاندان کی روٹی توچلاسکتاہے مگر گاڑی خریدنا تودور کی بات اتنی آمدن میں وہ گاڑی کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتا۔ عام طور پر دیکھاگیاہے کہ گریڈ 14تک کے سرکاری ملازموں کے بچے اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اخراجات کامحتاط اندازہ تقریباً تین ہزار روپے فی طالب علم کیاجاسکتاہے جو کہ کم سے کم ہے۔یہ تو صرف اداروں کی فیسوں کاتخمینہ ہے باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں ۔یعنی اگر کسی آدمی کے تین بچے بھی ایسے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہے ہوں توصرف ان بچوں کے تعلیمی اخراجات تقریباً پندرہ ہزار روپے ماہانہ تک ہوسکتے ہیں ۔اب اگر تیس ہزار روپے تنخواہ وصول کرنے والاسرکاری ملازم اپنے بچوں کو اس معیار کے اداروں میں داخل کرواتاہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی غرض سے اوپر کی آمدنی کامحتاج ہے۔کیونکہ جب ایسے تعلیمی اداروں میں بچے داخل ہوں گے تو پھر ان کے لباس ،طعام اورقیام پر بھی اسی انداز میں خرچ کرناپڑے گا ۔مہنگائی کادور دورہ ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ تیس ہزار کی ماہانہ آمدن والاشخص اس طرح کی ”تعلیمی عیاشی“ افورڈ نہیں کرسکتا۔جب کہ اس کے پاس اپنی ذاتی گاڑی بھی ہو،اورگاڑی کے اخراجات،پٹرول یا گیس کے علاوہ اس کی دیکھ بھال کیلئے بھی ایک معقول رقم کی ضرورت ہوگی ۔یہ ایک مثال ہے وگرنہ کتنے ہی ایسے سرکاری اہلکار ہیں جن کی تنخواہ تیس ہزار روپے سے کہیں کم ہے مگر پھر بھی وہ ایسے ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہیں کہ ان کی ظاہری حیثیت کسی اونچے درجے کے بزنس مین یا گریڈ 20،22کے افسران سے کم نہیں۔جہاں جو ملازم ہے وہ اپنے سے اوپر والے افسر کی حیثیت اختیار کرناچاہتاہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کے بچے بھی” صاحب “کے بچوں کے ساتھ ہی تعلیم حاصل کریں ۔کیونکہ وہ سوچتاہے کہ وہ بھی پاکستان کاشہری ہے اسے بھی وہی حقو ق حاصل ہونے چاہیں جو اس کے افسر کوحاصل ہیں ۔قطع نظر اس کے کہ اس کی یہ سوچ کہاںتک غلط ہے اور کہاں تک درست ،کہنایہ چاہتاہوں کہ ہر ایک اپنی حیثیت سے بڑھ کر حیثیت چاہتاہے ۔اوراس کی خاطر وہ سب کچھ کرنے کوہمہ وقت تیار ہے ۔اسی سوچ کی وجہ سے ہی پاکستان میں کرپشن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔ہر کوئی اپنے اپنے مقام پر کرپشن کاشکار ہے ۔میرے ایک جاننے والے جوکہ محکمہ ہیلتھ میں ڈرگ انسپکٹر تعینات ہیں نے بتایاکہ وہ پورے ضلع کے میڈیکل سٹوروں سے دولاکھ روپے تقریباً،ماہانہ منتھلی کی مد میں اکھٹا کرتے ہیں اوراس میں سے تین حصے ادا کرنے کے بعد ان کے پاس پچاس ہزار روپے بچتے ہیں جس سے وہ اپنا”گزارہ “کرتے ہیں۔جب کہ ان صاحب کی حقیقی تنخواہ پچاس ہزار روپے سے کہیں کم ہے۔یہ صرف ایک شعبہ یعنی غیر قانونی طورپر کام کرنے والے میڈیکل سٹورز سے ماہانہ آمدن کی رپورٹ ہے جب کہ اس کے علاوہ اوربھی کئی راستے ہیں جن سے اوپر کی کمائی حاصل ہوتی ہے۔جن میں سرکاری ادویات کی خریداری ،پھر ان کاپرائیویٹ سٹوروں پر بکناوغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔میرا ایک دوست جوکہ ایم بی اے کا سٹوڈنٹ ہے نے بتایاکہ اس کاایک کلاس فیلو جس کے والد صاحب واپڈا کے محکمہ میں نوکری کرتے ہیں اوروہ میٹر چیکر ہیں۔میرے دوست کے بقول ایم بی اے کے تعلیمی اخراجات فی طالب علم تقریباً بیس ہزار روپے ماہانہ ہیں جبکہ اس کے کلاس فیلو کے والد کی تنخواہ اس سے کم ہے۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کی کیاصورت حال ہے،کہ ایک معمولی میٹر چیکر اپنی حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کررہاہے ،توپھر اس محکمہ کے لائن مین ، لائن سپریڈنٹ،فورمین سے لے کر ایس ڈی او ،ایکسین اوراوپر واپڈا کے چیئر مین تک کیا کرتے ہوں گے ۔تقریباً تمام سرکاری محکموں کی یہی حالت ہے۔صرف سرکاری محکمے ہی نہیں بلکہ جس کاجہاں ہاتھ پڑتاہے وہ وہی کرپشن سے لطف اندوز ہونااپناحق سمجھتاہے ۔بڑے افسوس سے کہناپڑتاہے کہ صحافت جیسے مقدس پیشہ سے منسلک افراد بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔میرے ایک جاننے والے صحافی کامقولہ ہے کہ” جو شخص لوٹ رہاہے، اسے لوٹناکیابُراہے؟“اس صاحب کاطریقہ واردات یہ ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری محکمہ کے ملازم کے خلاف محکمہ انٹی کرپشن میں درخواست گزاردیتاہے اورپھر بس موجاں ہی موجاں! محکمہ انٹی کرپشن جسے عرف عام میں” آنٹی کرپشن“ کہاجارہاہے کے اہلکاروں سے پیشگی معاملات طے کئے جاتے ہیں اورپھرمذکورہ کرپٹ افسر یاملازم کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں ہونے والی آمدن آپس میں بانٹ لی جاتی ہے۔یہ ہے آج کے ہمارے معاشرے کاعمومی نقشہ !

میرے خیال میں پورے پاکستان میں صرف ایک آدمی ایساہے جوکرپشن سے بچاہواہے باقی سارے کے سارے کسی نہ کسی طرح اس لت کاشکار ہیں ۔ایک آدمی جو اس لعنت سے محفوظ ہے وہ پتاہے کون ہے؟وہ ایک نیک اورپارسا انسان جو کرپشن سے بچاہواہے ، آپ اسے قرار دے سکتے ہیں، جسے کرپشن کاموقع نہیں ملتا۔
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 11 Articles with 7186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.