کار سرکار مداخلت‘ شکر ہے کہ کوئی تو قانون سمجھتا ہے.



کار سرکار میں مداخلت کا قانون وہ قانون ہے جسے ضلعی انتظامیہ کے بیشتر افسران کسی کو بھی اندر کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور اس کا نشانہ زیادہ تر کمزور طبقہ ہی بنتا ہے اخبارات میں زیادہ تر اس حوالے سے خبریں چھپتی ہیں کہ آپریشن کے دوران کار سرکار میں مداخلت پر ریڑھی بانوں کو اندر کردیا گیا‘ اب بھلا یہ کوئی بات ہے ریڑھی با ن کی کوئی اوقات نہیں ہوتی وہ غریب بندہ ہوتا ہے اس لئے ہر دفعہ کارسرکار میں مداخلت کے جر م میں داخل کیا جاتا ہے اور پھر شریف سے شریف بندہ بھی اتنا ذلیل ہوجاتا ہے کہ مستقبل میں اگر اس سے کیساتھ کوئی زیادتی بھی کرے تو پھر وہ خاموش رہتا ہے.ایسا ہی واقعہ گذشتہ دنوں چمکنی کی حدود میں واقع ایک پٹرول پمپ میں بھی پیش آیا.جس میں ایک ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نے ایک سینئر وکیل کو کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں پولیس اہلکاروں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا. عام آدمی کو قانون کا پتہ نہیں ہوتا اس لئے وہ رگڑے کھاتا ہے جبکہ یہ واقعہ وکیل کیساتھ پیش آیا جنہیں قانون کا بھی پتہ ہوتا ہے اس لئے وکیل پر تشدد اسسٹنٹ کمشنر اور ان کیساتھ تعینات پولیس اہلکاروں کے گلے میں ہڈی بن گئی ہیں.

سب سے پہلے واقعہ کی تحقیقات اس حوالے سے ضروری ہے کہ متعلقہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کا موقف ہے کہ وہ ڈیوٹی کررہا تھا‘ اگر وہ واقعی ڈیوٹی کررہا تھا تو اس کی اس قد ر محنت قابل تحسین ہے کہ اس معاشرے میں دفاتر میں کام کرنے والے دن کو کام نہیں کرتے اور پشاور کا ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر رات کو ڈیوٹی کررہا تھا. جو واقعی لائق تحسین ہے‘ ویسے اس ڈیوٹی کے بارے میں کسی کو معلوم بھی ہے کہ کس ڈیوٹی پر انہیں لگایا گیا تھا اور کیا اس بارے میں اپنے سینئر کو اعتماد میں لیا تھا یا نہیں‘ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو اس معاملے میں دیکھنے کی ضرورت ہے.

پشاور ہائیکورٹ سے رپورٹنگ کی وابستگی کی وجہ سے متعلقہ وکیل سے ہیلو ہائے کی حد تک تعلق رہا ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہونے کی وجہ سے اس کے پاس زیادہ خبریں ہوتی رہی ہیں لیکن اتنا شریف بندہ تھا کہ ہر ایک صحافی کے پاس خود جا کر معلومات دیتا‘ اتنی عاجزی سے پیش آتا کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وکیل ہے یہ راقم کا ذاتی تجربہ ہے‘ ہمیشہ سر کہہ کر بات کرنے والے وکیل کی جانب سے بدتمیزی کی باتیں حیران کن ہے جسے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پھیلایا جارہا ہے اور اس میں سوشل میڈیا پر موجود کچھ افراد جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نقلی اکاؤنٹ کے ذریعے یہ مہم چلا رہے ہیں جس میں وکیلوں کی کردار کشی بھی کی گئی جو قابل افسوس امر ہے.

رات کے وقت پیش آنیوالے واقعے میں غلطی وکیل کی تھی یا ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کی‘ اس بارے میں تحقیقات ہی سے پتہ چلے گا‘ لیکن اگر کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر ایک عام سے آدمی کو اندر کرتا تو پھر وہ روتا پھرتا کہ کدھر پھنس گیا ہوں لیکن یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر اور اس کے ساتھ تعینات پولیس اہلکاروں نے وکیل کیساتھ زور زبردستی کی‘ وائرل ہونیوالے ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وکیل کا گریبان چاک ہے اور پولیس اہلکار اسے گاڑی میں ڈال رہے ہیں کیا اسسٹنٹ کمشنر کودئیے جانیوالی سیکورٹی اس مقصد کیلئے ہوتی ہے کہ اس سے شریف آدمی کو دھمکایا جائے‘ اسسٹنٹ کمشنر کیساتھ گاڑیوں میں ڈیوٹی انجام دینے والے پولیس اور اسسٹنٹ کمشنر عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لیتے ہیں اور ان کا بنیادی کام عوام کو سہولیات کی فراہمی ہے ناکہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ہراساں کرنا اور تشدد کا نشانہ بنانا.. اگر یہی عمل وکیل کرتا تو بھی قابل مذمت ہوتا لیکن ایک سرکاری ملازم کی جانب سے وکیل پر تشدد اس بات کی نشاندہی بھی ہے کہ صاحب لوگوں کو اپنے اخنیارات کا زعم ہے.اگر وکیل نے غلطی بھی کی تو کیا اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے.

چمکنی میں پیش آنیوالے واقعے کے بعد وکلاء نے بھی مظاہرہ کیا‘ احتجاج کیا اور روڈ بلاک کرتے ہوئے عدالتوں سے بائیکاٹ کیا‘ یہ حقیقت ہے کہ اس سے زیاد نقصان عوام کا ہی ہوا‘ کچھ کے کیسز کی تاریخیں لگ گئیں‘ روڈ کی بندش سے بھی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کے جواب میں اب اسسٹنٹ کمشنر کی برادری بھی میدان میں آگئی ہیں‘ سیکرٹریٹ کے کمپیوٹر آپریٹر جو اب آئی ٹی ایکسپرٹ بن گئے ہیں وہ بھی احتجاج کرنے ان کے ساتھ ہوگئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر زور ان کی برادری کی جانب سے کئے جانیوالے احتجاج سے عام عوام کو بھی نقصان ہوگا.توڑ پھوڑ ہوگی ایسے میں اگر خدانخواستہ کچھ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا اس کا جواب پر دونوں اطراف کے لیڈرشپ کو سوچنے کی ضرورت ہے.

سچی بات ہے کہ دونوں طاقتور ہے‘ اور اسے اردو زبان میں ہاتھیوں کی لڑائی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس میں غلطی زیادہ سرکاری تنخواہوں لینے والے انتظامیہ کی ہے کیونکہ ان کا بنیادی کام عوام کی خدمت ہے‘ یہ نہیں کہ وکیل فرشتے ہیں لیکن وہ پرائیویٹ لوگ ہیں جن کو ضرورت ہوتی ہیں وہ وکلاء کے پاس جاتے ہیں وکلاء کسی کو زبردستی اپنی طرف نہیں بلاتے.جبکہ سرکار کی تنخواہیں لینے والوں سے غریب عوام کو روز انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سرکار کے بیشتر دفاتر میں "خرچے پانی " کے بغیر کام نہیں چلتا‘ یہ ایک عام تاثر بھی ہے جس کا ہر ایک کو سامنا کرنا پڑتا ہے.

ایک ایسے وقت میں جب ہر دوسرا شخص مہنگائی سے پریشان ہے ڈیڑھ سو روپے کلو ملنے ولا گھی ساڑھے پانچ سو ‘ آٹھ سو روپے آٹے کا تھیلا سولہ سو‘ پٹرول دو سو نو روپے نے اس ذہنی انتشار کا شکار کیا ہے ایسے میں انہی عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے‘ گاڑیوں میں پھرنے والے‘ سیکورٹی کے نام پر سیکورٹی گارڈ رکھنے والے شخص کیساتھ اگر کوئی بدتمیزی بھی کرے تو اسے برداشت کرنا ہی پڑے گا‘ کیونکہ وہ سرکار کا ملازم ہے حالانکہ ہمارے ہاں اسسٹنٹ کمشنرز کا اتنا نشہ ہوتا ہے کہ بغیر پئے ہی بندہ مدہوش ہوتا ہے.بدتمیزی کی بات اس لئے کی کہ صوبے کے دارالحکومت میں تعینات افسران کا یہ موقف ہے کہ متعلقہ وکیل نے سرکار کے خلاف بات کی اور حکومت پر تنقید کی‘ تو اس ملک میں تنقید کرنا منع ہے‘ یہاں روزنائی کی دکان سے لیکر بس کے اڈے پر اور ہوٹل کے دکان سے تھڑے پر بنے دکان اور ریڑھی بان تک حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن پھر بھی وہ ٹیکس بھرتا ہے‘ کچھ بالواسطہ اور کچھ بلا واسطہ.

موجودہ حالات میں دونوں اطراف سے وابستہ افراد کو بیٹھ کر اس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے‘ ورنہ دوسری صورت میں یہ جتنا زور پکڑے گا اس میں نقصان عوام کیساتھ سرکار کا بھی ہے‘ چاہے کوئی بھی کتنا بڑا افسر ہو‘ اس نے آنا عدالت ہی ہے اور وکیل کے ذریعے ہی پیش ہونا ہے‘ اور ہاں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سب کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جھکنے سے کسی کی بے عزتی نہیں ہوتی‘ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں
.
ویسے آپس کی بات ہے جس پر کسی کو برا ماننے کی ضرورت نہیں یہ حقیقت ہے کہ بیورو کریسی ہر ایک کی رکھیل کا کردار ادا کرتی ہیں‘ راتوں رات تبدیل ہونیوالوں میں بیورو کریٹ سرفہرست ہوتے ہیں جو ہر آنے جانیوالے کے آگے لیٹ جاتے ہیں‘ بھلے سے وکیل جتنے بھی برے ہوں لیکن ابیورو کریٹ کے مقابلے میں ان وکلاء میں عوامی حقوق‘ سمیت جمہوریت ہر معاملے میں اٹھنے کی طاقت رکھتے ہیں‘ کبھی کسی نے سنا ہے کہ بیورو کریسی سے وابستہ کسی شخص نے کسی قانون‘ عوامی مسئلے پر بات کی‘ یا پھر اٹھ کر احتجاج کیا‘ کسی فورم پر انسانی حقوق کی بات کی‘ہاں یہ لوگ اکٹھے ہوتے جب ان کے اپنے مسائل ہوں یا مراعات ہوں جبکہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ وکیل کم از کم عوامی مسائل سے لیکر الٹے سیدھے قوانین کے نفاذ پر اٹھ کھڑے تو ہوتے ہیں اور آواز تو بلند کرتے ہیں.
ایسے میں اگر وکلاء پٹرول بم سے لیکر مہنگائی کے شکار عوام کو لیکر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر.نہ رہے گا بانس اور بجے گی بانسری.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 425543 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More