"کہانی میاں کچھوے اور بیگم کچھوے کے انمول رشتے کی " (دای اماں کے اسٹائل میں)

ایک ایسی کہانی جو ہمیں آپس میں محبت اور خلوص سے رہنے کا درس دے رہی ہے اور ساتھ ہی مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی اہمیت بھی اجاگر کر رہی ہے۔
پیارے بچوں جو کہانی آج میں آپ کے ساتھ شیئر کرونگی وہ میاں کچھوے اور ان کی بیگم کی لازوال محبت اور خلوص کی ہے۔ آپ سب اسے پڑھیں، لطف اندوز ہوں اور اس کے اخلاقی تنیجے پر بھی غور کریں اور اپنی زندگی میں اسے شامل کریں۔

کئ برس گزرے نیلے گہرے سمندر میں ایک کچھوا اپنی بیگم کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ دونوں ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ سمندر کی تمام مخلوق جیسے مچھلیاں، کیکڑے، جھینگے وغیرہ سب ہی ان کی زندگی پر رشک کرتے تھے۔

ایک دن میاں کچھوے نے اپنی بیگم سے کہا، 'سمندر میں رہتے بہت دن گزر گۓ کیوں نہ کچھ دنوں کے لۓ زمین کی سیر کے لۓ چلا جاۓ۔' بیگم کچھوا یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور اگلے دن سے زمینی سفر پر جانے کی تیاری شروع کر دی۔ پیارے بچوں آپ تو یہ بات جانتے ہیں نہ کہ کچھوے پانی اور زمین (خشکی) دونوں جگہ با آسانی رہ لیتے ہیں۔

گو موسم معتدل تھا مگر جوں ہی میاں کچھوے اور ان کی بیگم سمندر کے ٹھنڈے پانی سے گرم ریت پر آۓ ان کے تو اوسان ہی خطا ہونے لگے۔اس کے علاوہ جس چیز نے انہیں حواس باختہ کیا وہ سمندر کنارے بھیڑ تھی۔ کچھ لوگ سمندر کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کر رہے تھے تو کوئ اونٹ کی سیر کر رہا تھا۔ کہیں بچے گھڑ سواری سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو کہیں فیملیز گول گپے اور چنا چاٹ کھانے میں مصروف تھیں۔ میاں کچھوے تو یہ منظر دیکھ کر خاصے پریشان ہوۓ اور بولے 'بیگم میرا خیال ہے ہمیں سمندر میں واپس چلے جانا چاہیۓ، یہاں تو انسانوں نے بہت شور شرابہ مچا رکھا ہے۔' انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اسی اثناء میں کسی شرارتی بچے نے کچھوؤں کو دیکھ کر پاس پڑی خالی بوتل کو اس طاقت سے ان کی طرف اچھالا کہ وہ سیدھی بیگم کچھوے کے سر پر اس زور سے لگی کہ خون کا فوارہ جاری ہوگیا اور وہ تکلیف سے کراہنے لگیں۔ بس پھر کیا تھا بچوں! میاں کچھوے نے فورا" بیگم کو سہارا دیا اور سمندر کی لہروں میں گم ہو گۓ۔

گھر پہنچتے ہی میاں کچھوے نے بیگم کو آرام کرنے کا کہا اور خود ڈاکٹر آکٹوپس کے پاس پہنچے اور ساری روداد کہہ ڈالی۔ ڈاکٹر آکٹوپس فورا" ہی میاں کچھوے کے گھر ہو لۓ۔ ڈاکٹر آکٹوپس نے بیگم کچھوے کے معائنے کے بعد ایک افسوس ناک خبر سے آگاہ کیا کہ سر پر چوٹ لگنے کے باعث بیگم کچھوا اپنی بینائ کھو چکی ہیں۔ میاں کچھوا یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوۓ مگر انہوں نے اپنی بیگم کی ہمت بندھائ کہ وہ دل چھوٹا نہ کریں۔ ان شاء اللہ بہت جلد ان کی بینائ واپس آ جاۓ گی۔ اب کیا تھا گھر کے تمام کام کی ذمہ داری میاں کچھوے پر آ گئ جسے وہ ہنسی خوشی بخوبی انجام دینے لگے۔ بیگم کچھوا اکثر میاں کچھوے کا شکریہ ادا کرتیں کہ وہ تمام گھریلو کام کر رہے ہیں۔ جس پر میاں کچھوا اطمینان سے جواب دیتے کہ مجھے ان کاموں کی ذیادتی سے کوئ فرق نہیں پڑتا یہ تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہے جو ان شاء اللہ جلد ختم ہو جاۓ گی۔

دن گزرتے گۓ، بیگم کچھوا وقت پر دوائیاں لے رہیں تھیں۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ ایک دن جب وہ سو کر اٹھیں تو ان کی بینائ واپس آ چکی تھی۔ اب تو میاں کچھوے اور بیگم کچھوے کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فورا" گھر میں میٹھا تیار کیا اور ڈاکٹر آکٹوپس کے گھر پہنچے کیونکہ یہ سب انہی کی دوائیوں اور میاں کچھوے کی دعاؤں کا ہی اثر تھا کہ بیگم کچھوا دوبارہ سے دیکھنے کے قابل ہو گئیں تھیں۔

پیارے نونہالوں! ابھی ان کی زندگی میں خوشی کے رنگ آۓ چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک اور سانحہ رونما ہو گیا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئ ہو۔ چلو آگے سنو کہ ہوا کیا۔

ایک دن میاں کچھوا کھانے کی تلاش میں بہت آگے نکل گۓ، انہیں اس بات کا انداذہ ہی نہ رہا کہ وہ اس جگہ پہنچ چکے تھے جہاں خطرناک شارکس کا راج تھا۔ ابھی وہ واپسی کا سوچ ہی رہے تھے کہ یکایک ایک شارک نے میاں کچھوے کی ٹانگ کو اپنے تیز دانتوں میں دبوچ لیا۔ میاں کچھوے درد سے چلا اٹھے، خون تیزی سے بہنا شروع ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ میاں کچھوے درد کی شدت کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے، ایک اور شارک وہاں آ پہنچی۔ بس بچوں پھر کیا تھا دونوں شارکس کا آپس میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ اور یوں میاں کچھوے نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ جلد سے جلد گھر پہنچنے کی ٹھانی۔ گو درد بہت ذیادہ تھا اور تیز تیرنا بہت مشکل مگر میاں کچھوے نے ہمت نہ ہاری۔ جیسے ہی وہ گھر پہنچے بیگم کچھوا انہیں اس حالت میں دیکھ کر شدید پریشان ہو گئیں۔ وہ فورا" ڈاکٹر آکٹوپس کے پاس پہنچیں اور سارا واقعہ بیان کر دیا۔ ڈاکٹر آکٹوپس نے مرہم پٹی کر دی اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ میاں کچھوے کی ایک ٹانگ ضائع ہو چکی ہے اور دوسری ٹانگ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر میاں کچھوے کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ۔ اسی لمحے بیگم کچھوے نے تسلی آمیز لہجے میں میاں کچھوے سے کہا، "فکر نہ کریں اللہ سب بہتر کریں گے۔ جیسے بینائ چلے جانے پر آپ نے میری خدمت کی تھی اور گھر کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں ویسے ہی میں دل و جان سے آپ کی خدمت کرونگی اور تمام کام بھی بخوشی سر انجام دونگی۔ یہ سن کر میاں کچھوے بہت خوش ہوۓ۔

میرے پیارے بچوں دیکھا آپ نے کس طرح مشکل وقت میں میاں کچھوے اور ان کی بیگم نے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوۓ ایک خوشگوار زندگی بسر کی۔ ہمیں بھی چاہیۓ کہ مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور آپ جانتے ہیں نہ کہ اللہ کی مخلوق کی مدد کرنے سے اللہ سبحان و تعالی بہت خوش ہوتے ہیں۔

 
Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 4 Articles with 7217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.