تاریخ ساز سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو

پاکستان کی تاریخ سازسیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو ۵ جنوری۸۲۹۱ءکوصوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ،آپکی مادری زبان سندھی تھی۔۔۔ آپ کے والد سر شاہنواز خان بھٹواپنے دور میں حکومتی سطح پر ایک مقام رکھتے تھے اسی لیئے اُس دور کی انگریز حکومت نے ان کی خدمات پر انہیں سر کے اعزاز سے نوازا تھا، یاد رہے انگریز حکومت سر کا خطاب انہیں دیدی تھی جنکی خدمات اُن سے مشروط ہوں اور آپ کی والدہ کا نام خورشید بیگم تھا ،آپ کے والد سندھ کے جاگیرداروں میں شامل ہوتے تھے ۔ ۷۳۹۱ ءتا ۷۴۹۱ءتک آپ نے بمبئی کے کیتھیڈرل اسکول سے میٹرک کی تعلیم حاصل کی، ۷۴۹۱ءجوائنٹ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے تعلیم کا سلسلہ جاری کیا پھر ۹۴۹۱ءکو برکیلے کیمپس میں تبادلہ کرالیا، ۲۵۹۱ئ۔۰۵۹۱ءآکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاست میں گریجویشن کی تعلیم حاصل کی،لنکولن ان سے بار ایٹ لاءیعنی بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی، لندن سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد۴۵۹۱ءمیں سندھ مسلم لاءکالج کراچی میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیتے رہے،اسی دوران ذوالفقار علی نے سیاست میں بھی قدم رکھا ۔۷۵۹۱ءتا ۸۵۹۱ءکے دوران ذوالفقار علی بھٹو یونائٹیڈ نیشن کے وفد میں شامل ہوئے ،اور آپ اس وفد کے سربراہ بھی تھے آپ نے اپنی تقریر میں انتہائی شجاعت و بہادری کامظاہرہ پیش کرتے ہوئے ان کے ناجائز مطالبات کو پھاڑ ڈالا جو اب تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔۔۔۔۔ذوالفقار علی بھٹو ایک نئی جدید سوچ کے مالک تھے وہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے حالات اور وقت کے ساتھ لیکر چلنا چاہتے تھے اسی لیئے انھوں نے ایک ایسی سیاسی جماعت بنائی جس کا منشور فلاح بہود اور عوامی خدمات پر مشتمل تھا ، بھٹو نے بہت کم وقت میں پورے پاکستان کی عوام کا دل جیت لیا تھا، انہی کے دور حکومت میں پاکستان نے ایٹم بم کی تیاریاں شروع کردی تھیں ، پاکستان اسٹیل مل اور دیگر ادارے بھی وجود میں آئے، بھٹو نے زراعت کو فروغ دینے کیلئے جدید زرعی آلات کسانوں ، زمینداروں کومفت اور آسان اقسام میں زرعی لون فراہم کیئے تاکہ کسان اور جاگیردار ان جدید ٹیکنالوجی اور لون کی سہولت کو اختیار کرتے ہوئے زرعی اجناس کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں ، اسی طرح صنعت و تجارت کی فروغ کیلئے بھی نئے پلان تیار کیئے اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے پیداوار میں اضافہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۰۱ فروری ۲۷۹۱ءکو لیبر لاءمتعارف کرایا گیاتاکہ محنت کش مزدوروں کو ان کا صحیح حق مل سکے۔آپ کے دور حکومت میںمزدور یونین کومکمل آزادی حاصل تھی،بھٹو غریب پرور ہونے کے ناطے وہ مزدور یونین کے حامی تھے ۔۲۷۹۱ءمیں بھٹو نے اولڈ ایج بینیوینٹ اور پینشن کا سسٹم رائج کیا ،۴۲ ستمبر ۲۷۹۱ءکو نیشنل بک فاﺅنڈیشن کی بنیاد رکھی ، ۸۲ نومبر ۲۷۹۱ءکوپاکستان کا پہلا نیوکلیر پاور پلانٹ کراچی کا افتتا ح کیا، ۵ فروری ۳۷۹۱ءکو این ڈی ایف سی کو اسٹیبلش کیا، ۹ فروری ۳۷۹۱ءکو قائد اعظم یونیورسٹی کاافتتاح کیا، ۲۱ اپریل ۳۷۹۱ءکو پاکستان آئین میں ترامیم کیں، ۷۲ جون ۳۷۹۱ءکو پورٹ قاسم اتھارٹی کو اسٹیبلش کیا، ۴۱ اگست ۳۷۹۱ءکو بحیثیت پرائم منسٹر منتخب ہوئے، ۸۲ جولائی ۳۷۹۱ءکو شہریت کاکارڈ یعنی این آئی سی کارڈ کا عمل لایا گیا،یکم جنوری ۴۷۹۱ءکو تمام بینکوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا،۱۲ مئی ۴۷۹۱ءکو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو اسٹیبلش کیا، ۲۲ فروری ۵۷۹۱ءکو اسلامی وزراءکانفرنس کاا نعقاد لاہور میں کیا ، ۳ مارچ ۶۷۹۱ءکو سیرت کانفرنس کا انعقاد کرایا گیا،ستمبر ۶۷۹۱ءمیں بھٹو نے تیسری دنیا کا پلان پیش کیا۔۷۷۹۱ءکو بھٹو نے پاکستان نیشنل الائنس کی شدید مخالفت کا سامنا کیا ۔ ۸ اکتوبر ۷۷۹۱ءکے الیکشن بھٹو کیلئے شدید دباﺅ کا باعث بنے۔۔۔۔۵ جولائی ۷۷۹۱ءکو جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءکانفاذ کیا اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُس وقت کی اسمبلیوں کو تحلیل کرڈالا اور ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا اور پھر ۸۲ جولائی کو رہا کردیا اور ایک عارضی حکومت پی این اے اور سی ایم ایل اے کے اشتراک سے بنائی،۳ ستمبر ۷۷۹۱ءکو کلفٹن کراچی سے دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو کوقتل کیس میں گرفتا ر کیا، پھرلاہور ہائی کورٹ کی بیل کے تحت ۳۱ ستمبر ۷۷۹۱ ءرہا کردیا گیا، ۷۱ ستمبر ۷۷۹۱ءکو تیسری بار لاڑکانہ سے گرفتار کیا،ستمبر ۷۷۹۱ءکو چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس یعقوب علی خان کو منصب سے ہٹادیا گیا اس کی وجہ بیگم نصرت بھٹو کی مارشلاءکے خلاف اپیل پر کاروائی تھا۔۔۔۔۹ اکتوبر ۷۷۹۱ءکو چیف جسٹس مولوی مشتاق لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کی بیل کو ختم کردیا تھا پھر گرفتاری کا عمل لایا گیا۔۔۔ چھ ماہ اندھیری کوٹری میں قید سلاسل کاٹنے والے سیاسی حکمراں نے تن تنہا بقیہ دن زندگی کے گزارے اور آخر کار ۴ اپریل ۹۷۹۱ءکی صبح صادق میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔۔۔ بھٹو ایک نہایت قابل ذہین شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن ان کے مشیر اتنی اہلیت کے قابل نہ تھے کہ ان کی حکومت میں بپا ہونے والی شورش کو ختم کرسکیں بلکہ یہ وزراءو مشیر حالات و واقعات کی بناءپر اپنی اپنی خود غرضیوں میں مبتلا ہوگئے اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اس احساس کو بلآخر بھانپ لیا لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی، وہ جیالے جو بھٹو پر مر مٹنے کی قسم کھاتے تھکتے نہیں وہ اُن حالات میں نئے سیاسی پلیٹ فارم میں جا گھسے تو کچھ نے راہِ فرار اختیار کی اور کچھ نے آمر حکومت کا آلہ کار ثابت ہوئے ، کچھ ایسے بھی تھے جو واقعی احساس رکھتے تھے لیکن وہ ان حالات کا سامنا کرنے کیلئے قطعی تیار نہ تھے گو کہ اُس وقت آپ کی جیون ساتھی اور اولاد کا ساتھ رہا ۔ ۔۔بھٹو سیاسی مخالفین کا تو مقابلہ کرتے رہے لیکن اپنے آستین میں پنپنے والے سانپوں، سازشوں، منافقوں کو تلاش کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ۔اس بات کا بر ملا اظہارانھوں نے جیل کی کال کوٹھری زندگی کے آخری ایاموں میں کہی، بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ اپنی زندگی میں ہی اپنی چہیتی بیٹی بےنظیر بھٹو کے حوالے کردی تھی اور بیٹی نے خوب باپ کا حق ادا کیا لیکن بینظیر کے ساتھ بھی جیالوں نے باپ کی طرح اسی بھی دھوکا دیا اور یہ بھی عوام کی خاطر امر ہوگئی۔ بھٹو ایک نہایت بہادر ، نڈر، جفاکش ، با ہمت ، مدبر، ہوشیاراور ذہین انسان تھے لیکن بھٹو کی وفات کے بعد جیالوں نے کیا اپنے عہد و وفا پورے کیلئے یا وہ ملکی دولت کو لوٹنے کھسوٹنے میں لگ گئے۔۔۔۔۔؟؟آج بھی موجودہ دورمیں پاکستان کی عوام نے بھاری مینڈیٹ سے بھٹو ازم کی خاطر پاکستان پیپلز پارٹی کا منتخب کیا ہے۔ کیا اس پیپلز پارٹی نے بھٹو کے منشور کے تحت عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے مثبت اقدامات اٹھائے؟؟روٹی ، کپڑا اور مکان پاکستان پیپلز پارٹی کا بنیادی نعرہ تھا اور ہے ، ۶۶۹۱ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی آج ۱۱۰۲ءکو ۵۴ سال ہوگئے ہیں کیا ان ۵۴ سالوں میں جب جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس نے کہاں تک بلا تفریق و امتیاز عوام الناس کی خدمات پیش کی ہیں ؟؟حقیقت اب عوام کے سامنے از خود آچکی ہیں ، بڑے بڑے نعروں، باتوں، انٹرویوز اور بیانات سے اب یہ قوم دھوکے میں نہیں آسکتی کیونکہ اسی عوام کو اب جینے کیلئے کتنوں کی جانیں دینی پڑی ہیں ، کتنے بھوک و افلاس کی بناءپر خاک میں مٹ گئے ہیں ، بے روزگاری، لوٹ مار، نا انصافی، ظلم و ستم ، بے راہ روی ، اقربہ پروری کیا یہی تھا ذوالفقار علی بھٹو کا مشن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور ؟؟؟ ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کو مکمل مٹا دیا گیا یہ کیسی محبت تھی یہ کیسا جنون تھا یہ کیسا پیار تھا کہ اپنے لیڈر کو برباد ہوتا دیکھ کر بے حس تماشا بنے رہے کہ جیسے جانتے ہی نہیں اور جب ایوانوں کی سیٹوں کا عکس دیکھا تو پلٹ آئے اور لومڑی کے آنسو بہاکر اپنے خلوص و محبت کا اظہار جتانے لگے کہ پھر سے لوٹیں گے اس وطن کی دولت کو ، مٹا دیں گے عوام کے ہر قدم کو ، کہ راج کریگا نام بھٹو کا کہ پھیلے گا ظلم و ستم جیالوں کا۔۔۔۔آج پاکستان اسی نقطہ پر آگیا ہے ،اب تو نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ دیگر سیاسی پارٹیاں جو مال و متاع کی حامی ہیں ہر ذریعے سے سمیٹ رہے ہیں دولت عوام کی ، جیسے انصاف کے گھروں پر تالے لگا دیئے ہوں اور منصب کے جیب بھر دیئے گئے ہوں اورعوام بھوک ، ننگی ، لاغر سسک کر ان کے قدموں میں سجود ہوگئی ہو، اور بے غیرت ان کے عیش و تعائیش کا اہتمام کرتے پھر رہے ہیں اگر یہ مشن نہیں تھا بھٹو کا تو اب عوام کی آواز آتی ہے۔۔۔۔۔۔
مٹا دو ایسے ظالم حکمرانوں کو جو تمہیں مٹانا چاہیں
جنکی نیت ہے عوام کے خون سے پیاس بجھانے کی

اب عوام کو سوچنا ہی ہوگا کہ کسی کے دھوکے میں نہ آئیں ، جو ہوا اس سے سبق سیکھ لیں اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال رکھیں ، جنہیں پرکھ لیا انہیں دوبارہ نہ پرکھیں اور ان سیاست دانوں کو بھی ذہن میں رکھیں جو ان کا ساتھ دے رہے ہیں جو ان کے ظلم و ستم کا حصہ بن رہے ہیں اور دولت سمیٹنے میں ہم قدم ہیں اب عوام اپنے دل و دماغ کے تحت منتخب کرے اور اس فرسودہ ووٹنگ سسٹم کی مکمل مخالفت کرتے ہوئے جدید کمپیوٹرائز سسٹم کو رائج کرنے کا مطالبہ کرے تاکہ قائد اعظم اور قائد عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان سامنے آئے ہر پاکستانی خوشحال اور پاکستان آباد ورنہ آج سے بھی زیادہ برُے حالات پیدا ہوجائیں گے اور منزل ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 249335 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.