سیدھا رستہ

چڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کی بولیاں کہیں دور سے سنائ دے رہی تھیں مگر جب دستک کی ٹھک ٹھک بھی سنائی دینے لگی تو منور کو آنکھیں کھولنی ہی پڑیں۔ ایک سفید براک ہیولا اس کے پاس کھڑا تھا ۔

“بابا میں اٹھ گیا ہوں” ،منور غنودگی میں بولا اور گرتے پڑتے وضو کرنے چل دیا۔تھوڑی دیر میں بابا اور منور مسجد کی طرف قدم بڑھا رہے تھے ۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے باقی کی سستی بھی دور کردی اور وہ ہشاش بشاش مسجد میں داخل ہوا ،جہاں اس کے بابا امامت کرواتے تھے۔منور دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کچھ روز پہلے ان کے ساتھ والے گھر میں نئے ہمساۓ شفٹ ہوۓ تھے اور منور اپنی فطری خوش اخلاقی کی وجہ سے بہت جلد ان کے بیٹوں کا دوست بن گیا تھا۔ان دونوں بھائیوں کے پاس قیمتی موبائل تھے جن پہ وہ کئ کئ گھنٹے گیمز کھیلا کرتے اور اب منور بھی ان سے وہ سارا کچھ سیکھ رہا تھا ۔ایک دن ان کا ایک کزن بھی گروپ میں شامل ہوگیا۔

“چل یار آج کچھ نیا کرتے ہیں ،میں ان مار دھاڑ والی گیمز سے بور ہوگیا ہوں” ،ایک دن ان میں سے ایک نے کہا اور پھر منور کو ٹک ٹاک کے بارے میں بتانے لگا۔پہلے تو منور نے اس پہ ویڈیو بنانے پہ اعتراض کیا لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی ان دوستوں کے رنگ میں رنگنے لگا۔لباس سے لے کر ہئیر کٹ تک سب کچھ بدلتا چلاگیا ۔ اس کے بابا اسے سیدھا رستہ اور الٹا رستہ سمجھانے کی کوشش کرتے مگر اس کے دوستوں نے اسے پرانے زمانے اور نئے زمانے کی کنفیوژن میں ڈال دیا تھا لہذا اسے بابا کی باتیں سمجھ ہی نہ آتیں۔ وہ اور اس کے دوست راتوں کو دیر تک گلی میں ٹک ٹاک پہ اوٹ پٹانگ ویڈیو بنا بنا کے شئیر کرتے رہتے اور خود ہی دیکھ دیکھ کے ہنستے رہتے۔ اب اس کی فجر کی نماز بھی قضا ہونے لگی اور بابا کی فکروں میں اضافہ ہوتا گیا ،انھوں نے منور کے لئے نوافل کی تعداد میں اضافہ کردیا۔

ایک دن موسم بڑا خوش گوار تھا اور تینوں دوست منور کے پاس کھڑے ٹک ٹاک پہ ایکشن ویڈیو بنارہے تھے کہ اچانک ایک سمت بھاگ کھڑے ہوئے ۔ منور حیران ہوکے کھڑے کا کھڑا انھیں دیکھ رہا تھا کہ دور سے کسی نے پکارا ،“منور پیچھے دیکھ ،کتا ای !!”

اتنے میں ایک بڑے سے کتے نے اس کے اوپر جمپ لگائی ،یہ آفت اتنی اچانک آئی کہ اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا،اور اس کا پاوں ،کتے کے منہ میں تھا۔اس نے دوستوں کو بڑی آوازیں دیں لیکن وہ سنی ان سنی کرکے بھاگتے گئے۔خوف کی حالت میں منور نے کتے سے پاؤں چھڑوانے کی کوشش کی پھر اس کے جسم نے توازن کھو دیا ،وہ دھڑام سے گرا ،اس کا سر فرش سے ٹکرایا اور وہ اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا!

جانے کتنی دیر گزر چکی تھی جب منور نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف سفید ہی سفید تھا
“میں کہاں ہوں” وہ سوچ رہا تھا۔ اوپر چھت اور دیواریں۔۔۔۔۔پھر اسے مصلے پہ بیٹھے بابا دکھائی دئیے ،وہ ہلکی ہلکی آواز میں دعائیں مانگ رہے تھے ،ان کی گلوگیر آواز میں بہت سوز تھا۔منور کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا،اس کے دوست جو سر پٹ دوڑے چلے جارہے تھے اور وہ خوف ناک کتا۔۔۔۔۔
وہ ایک دم چیخ پڑا ،“بابا ،بابا !”
اس کے بابا جلدی سے اس کے پاس آۓ۔ “پتر ، میں تیرے پاس ہی ہوں”
منور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
“بابا ، میرا سر اور پاوں درد کر رہا ہے ۔مجھے کتا کاٹ رہا تھا اور میرے دوست میری مدد کرنے کی بجائے بھاگ رہے تھے” وہ ہچکیاں لینے لگا۔بابا اسے تھپکیاں دینے لگے ۔“ بیٹا ،میں وہیں تھا ،میں نے تجھے آواز بھی دی تھی لیکن تو نہیں سمجھ سکا ،اللہ نے کرم کیا ہے ،زخم گہرا نہیں ہے ،پٹی ہوگئ ہے،انجکشن بھی لگ گیا ہے ،سر کی چوٹ بھی ٹھیک ہوجاۓ گی ۔اللہ نے تمہیں بچا لیا بیٹا،شکر ہے مالک کا!”

“بابا ،آپ ٹھیک کہتے تھے ،سیدھا رستہ بس ایک ہی ہوتا ہے ،اب اس راستے کو کبھی نہیں چھوڑوں گا” منور نے ندامت سے کہا تو بابا نے بے ساختہ ایک گہرا سانس لیا جس میں دعاوں کی قبولیت پہ رب کی شکر گذاری بھی شامل تھی !