روسی اور پاکستانی ----- ہم زاد بن گئے

تاریخ اور سیاست کو پڑھنا ایک الگ بات ہوتی ہے اور کسی فرد سے سننا جو خود اس میں سے گزر کے آیا ہو ایک الگ تجربہ ہوتا ہے ۔ روس کی تاریخ کے کچھ ایسے ہی ابواب منیر بن بشیر سناتے ہیں جو روسیوں کے ہم راہ رہے تھے ۔۔
اسٹیل مل میں ملازمت کے دوران درجنوں روسی ماہرین سے واسطہ پڑا ۔ میں نے ان کی ہمیشہ دل سے عزت کی اور انہیں استاد کا درجہ دیا ۔ مجھے اپنی ایک تقریر اب بھی تھوڑی تھوڑی یاد ہے جو ایک روسی ماہر گلشکوف کے جانے کے موقع پر کی تھی ۔۔ میں نے کہا تھا کہ ہمارے ایک خلیفہ حضرت علی نے کہا تھا کہ جس نے تمہیں ایک حرف ’ا’ بھی سکھایا یا پڑھایا وہ تمہارا استاد ہے اور استاد کا ہمیشہ ادب کرو ٴ میں نے تقریر میں کہا جناب گلشکوف نے نہ صرف حرف ’ا’ سکھایا بلکہ ٓخری حرف ’بڑی ے‘ تک سکھایا سو میں ان کا ادب کرتا ہوں اور آج میں اپنے استاد محترم کو الوداع کہتا ہوں ۔۔
چنانچہ روسی ماہرین کو میں ہمیشہ روسی استاد ہی کہہ کر بلاتا رہا ۔۔
ان کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے ان کے رہنے سہنے کے ڈھنگ ‘ ان کی معاشرت ‘ ان کے روئیوں سے آگاہی ہو گئی تھی ۔۔

لیکن آج کے کالم میں ان کے ان روئیوں پر روشنی ڈالنی ہے جب ان کے ملک میں بھی پاکستان جیسے حالات پیدا ہو گئے تھے ۔ سوئیٹ یونین کا شیرازہ بکھر چکا تھا ۔۔ مشرقی جرمنی روس کے اثر سے آزاد ہو کر پھر مغربی جرمنی سے ملاپ کر چکا تھا اور عوام نے دونوں ملکوں کے درمیان بنی ہوئی دیوار ہتھوڑوں کی مدد سے ڈھادی تھی ۔۔ یہ ان کی نفرت کے اظہار اور متحدہ جرمنی سے محبت کے اظہار کا ایک طریقہ تھا ۔۔ اس دیوار سے جرمنوں کو نفرت کیوں نہ ہوتی ۔۔ مجھے یاد ہے کہ میں چھوٹا تھا اس وقت ایک تصویر کسی اخبار میں چھپی تھی جس میں ایک عمر رسیدہ خاتون دیوار کے ایک طرف کھڑی تھی اور دوسری جانب اس کی بیٹی کھڑی ہوئی تھی ۔۔ اس دیوار کی بدولت وہ الگ الگ ملکوں کے باشند ے بن چکے تھے اور ماں بیٹی کو کوئی تحفہ بھی نہیں دے سکتی تھی ۔۔ چیکو سلواکیہ بھی روس کے چنگل سے نکل چکا تھا ۔۔ یوگو سلاویہ پر روس کے اثرات نہیں رہے تھے ۔۔ چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں پر بھی اب ان کے اپنے اپنے پرچم لہرا رہے تھے ۔۔

اسٹیل مل کی منعقد ہو نے والی میٹنگ میں ایک روسی ماہر نے گلوگیر آواز میں کہا کہ ہم آپ کو اسٹیل مل کے فاضل پرزہ جات دینے سے قاصر ہیں کیونکہ جہاں یہ بنتے تھے اب وہ آزاد ہو چکے ہیں -- ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔ آپ اپنے طور پر ان ممالک سے رابطے کریں ۔ میں میٹنگ میں ہی سوچ میں پڑ گیا کہ اب مجھے کتنے ملکوں سے رابطہ کر نا پڑے گا ۔۔ روسی ماہرین کی افسردگی دیکھ کر میرا دل بھی افسردہ سا ہو گیا تھا ۔۔
-----------------------------------
روس ایک طاقتور معشیت کا ملک تھا اس لئے وہ اتنے بڑے صدمات کو جھیل گیا ۔۔ لیکن اس کے باوجود روسی عوام کی معاشی بد حالی کے قصے اخباروں میں آ نے لگے اور تصاویر بھی چھپنے لگیں ۔۔ ایک تصویر چھپی تھی کہ ایک روسی جوکہ پی ایچ ڈی کئے ہوئے تھا خوراک کی قلت کے سبب گھر میں ہی کاشت کاری کر رہا ہے اور ہل چلا کر آلو بورہا ہے ۔۔ کھدی ہوئی زمین پر ایک موٹا سا تختہ نظر آ رہا ہے جس کو رسی لپٹی ہوئی ہے اور رسی کا دوسرا سرا ۔ پی ایچ ڈی تعلیم یافتہ روسی کی کمر کے گرد لپٹا ہوا ہے اور پیچھے اس کی بیوی تختے کو دھکا دے رہی ہے ۔۔

یاد رہے کہ جاپان نے خوراک کے معاملے میں روس کی مدد کرنے سے معذوری کا اظہار کر دیا تھا

یہ خبر بھی اخباروں میں آئی تھی کہ ان حالات کو دیکھ کر بہت سے روسی سائنس دان فرار ہو کر دیگر ترقی یافتہ ممالک پہنچ گئے

اسی زمانے میں اسٹیل مل کے تنصیبی مراحل کے دوران کے سب سے بڑے روسی انجینئر تعمیرات و تنصیب (یعنی چیف ایریکشن انجینئر) جو اپنا کام مکمل کر کے روس جا چکے تھے نے پاکستان اسٹیل مل کو ایک خط روس سے لکھا ۔۔ ان کا نام پونی مرن کو تھا ۔۔ اور میں ششدر رہ گیا ۔۔ آسمان سے زمین کو گرنا شاید اسی کو کہتے ہیں ۔ یہ پونی مرنکو کا ہی کمال تھا کہ جنہوں نے وسیع و عریض زمین کی اتھاہ گہرائیوں سے بنیادوں کی اٹھان اٹھائی اور ان بنیادوں میں اپنی رسم کے مطابق بر کت کے لئے روسی و پاکستانی سکے پھیلائے اور مختلف عمارات بناتے ہوئے اسے 33 منزلہ چمنی کی بلندی تک پہنچا دیا ۔۔ پونی مرن کو اپنے کام میں کامل ، ہنر میں یکتا تھے ۔ پیچیدہ تکنیکی مسائل سے نمٹ کر وقت سے پہلے مکمل کر نے میں کامیاب رہے تھے ۔ میں نے انہیں ہمیشہ پر اعتماد ہی پایا ۔۔ ہمارے پیداوار کے وزیروں میں لفٹیننٹ سعید قادر کافی ایکٹیو وزیر تھے ۔ وہ ہر ماہ اسٹیل مل کی سائٹ پر جاکر تعمیراتی کام کا جائزہ لیا کرتے تھے۔۔ ۔ اس وزٹ میں پونی مرنکو ان کے ساتھ ہوتے تھے ۔ لفتیننٹ سعید قادرکا دبدبہ بہت تھا ۔۔ اور انکی قد و قامت اور فوجی یونی فارم ان کی شان و شوکت کو مزید بڑھاتی تھی - آواز میں رعب ہوتا تھا ۔ پونی مرنکو اعتماد سے ان کے ساتھ چلتے تھے اور کبھی کبھار بغیر کسی جھجک کے جنرل صاحب کو کندھے کے قریب بازو سے پکڑ کر کسی مسئلے کی سنگینی کی جانب اشارہ بھی کرتے تھے ۔ جنرل ضیاالحق بھی پونی مرنکو سے کافی متاثر تھے - انہوں نے پونو مرنکو کو پاکستان کی اعزازی شہریت عطا کی اور اس کے علاوہ انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’ ستارہ پاکستان ‘ سے بھی نوازا ۔ ۔ ۔
پونی مرنکو نے اپنے خط میں لکھا کہ میرے معاشی حالات بہت خراب ہو گئے ہیں اور میں کافی مشکلات اور دشواریوں کا شکار ہوں اگر پاکستان اسٹیل مل میری مدد کرے تو شکر گزار ہونگا ۔۔ میں نے صد مے سے سر پکڑ لیا

بتا مجھے او جہاں کے مالک یہ کیا نظارے دکھارہا ہے

ایک روز میں اپنے روسی محترم استاد اسماعیلوف کے کمرے میں گیا تو وہ بہت ہی ڈیپریشن اور مایوسی کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ مجھے دیکھا تو ایک پھیکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پہ آئی ۔۔ یہ دیکھ کر مجھے حوصلہ نہیں ہوا کہ اپنے آنے کا مقصد بیان کر سکوں ۔۔ اسماعیلوف نے مجھے دیکھا تو سامنے رکھی ہوئی روسی زبان میں تحریر میکانیکل انجینئرنگ کی کتاب بند کی ۔۔ فرج کھولا ۔۔ اس میں سے پانی کی بوتل نکالی اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی بوتل کسی دوسرے مشروب کی ۔۔ دونوں کی کچھ خاص مقدار میں ملایا اور پہلے لمبے لمبے گھونٹ لئے ۔۔ چہرے پر کچھ تازگی آئی تو اس کے بعد آہستہ آہستہ پورا گلاس ختم کیا ۔۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشروب ڈاکٹر نے دیا ہے کہ اعصاب توانا رکھتی ہے ۔۔
انہوں نے کہا ’ منیر میں واپس جانے کا سوچتا ہوں تو دل میں ہول آتا ہے ۔۔ اس لئے نہیں کہ پاکستان سے واپس نہیں جانا چاہتا بلکہ اس لئے کہ وہاں کے معاشی حالات نہایت دگر گوں ہیں ٴ جانتے ہو ایک ماچس کی ڈبیا کے لئے بھی مجھے قطار میں لگنا پڑے گا ۔۔ یہ پہلے ملک کے دوسرے حصوں سے آجاتی تھی اب سب الگ ہو چکے ہیں ۔۔

پٹرول ناپید ہو چکا ہے ۔۔۔ ٹرک بے کار کھڑے ہیں ۔۔۔ دکانوں میں جاؤتو الماریوں میں یا تو چائے نظر آتی یا پھر مرچ کے ڈبے - یہ اخباروں میں آچکا تھا - وہ مسائل بیان کرتے رہے میں سنتا رہا ۔۔ روسی استاد نے کہا کہ میں کم آ مدنی کے طبقے سے تعلق رکھتا تھا ۔ میرے والد مجھے پڑھائی میں اچھے نمبر لینے پر زور دیتے تھے اور ہم بھی ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے رہتے تھے ۔۔ میں جہاں رہتا تھا وہ شدید سردی کا علاقہ تھا اور درجہ حرارت منفی تیس ۔۔اکتیس تک چلا جاتا تھا ۔ میرے والد اصرار کر کے مجھے اسکول بھیجا کرتے تھے ۔ جس روز درجہ حرارت منفی اکتیس ہو تا تو کہتے آج سردی ہے نہ جاؤ۔۔ پھر والد صاحب نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے انگریزی کا کورس کروایا ۔۔ اسماعیلوف نے کہا کہ----- کیا میری محنت اکارت جائیگی ۔۔ اس کا کوئی صلہ نہیں ملے گا ۔ میں نے اپنا مستقبل بنانے کی کتنی کوشش کی تھی ٴ راتوں کو دیر تک مطالعہ کرتا تھا ۔۔ یہاں بھی تم دیکھتے ہی رہتے ہو میں فرصت ملتی ہے تو تمہارے ملک میں دستیاب انجینئرنگ کی کتب کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔۔ سب مٹی میں مل جائے گا ۔ محنت کے بدلے میں راحت نہیں ملے گی ۔ جو خواب دیکھے تھے ' ان کی تعبیر نہیں ملے گی ۔۔۔۔۔۔
میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا کیوں کہ ہمیں ان سے سیاسی امور پر باتیں کر نے منع کیا گیا تھا
یا شاید میں اپنے روسی استاد کے غم کو سمجھ ہی نہیں سکا تھا ۔۔۔ ان کے رنج و الم کا اندازہ ہی نہیں لگا سکا تھا

آج ان سب واقعات کو تین چار عشرے گزر چکے ہیں ۔۔ جانے وہ میرے استاد اسماعیلوف حیات ہیں یا دوسرے جہاں جا چکے ہیں
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں بھی اپنے ملک میں انہی حالات سے گزر رہا ہوں ۔۔ میرا بچپن بھی ایسا ہی گزرا تھا جیسے میرے روسی استاد کا ۔۔ کوئٹہ میں بھی شدید سردی ہوتی تھی ۔۔۔ روسی استاد کی با تیں یا د یں بن کر پھول نہیں کھلا رہی ہیں اور نہ ہی باد صبا کے جھونکے عطا کر رہی ہیں بلکہ ان کی باتیں آج کل کے حالات کے ساتھ مل کرمیرے جسم کے گرد ایک زنجیر بن کر بھاری ہوتی جارہی ہیں ٴ باد صبا کی بجائے باد تپاں ہے جو دل کو تپائے اور جلائے جار ہی ہے -
کیا ملا فائدہ تیری محنت کا ؟ کون ہے جس نے محنت کو اکارت کیا ؟ اور خاک میں ملا دیا
کون ہے جس نے سپنے توڑے ۔۔۔۔ میں تو نہیں ہوں ۔۔۔ میں نے تو اپنا حق ادا کر دیا تھا ۔۔۔ یہ غم کے سائے میں تو نہیں لایا

رات نے کیا کیا خواب دکھائے
آنکھیں کھلیں تو سپنے ٹوٹے
رہ گئے غم کے سائے

آج میں پاکستان میں جب ان ہی حالات سے گزر رہا ہوں جن میں سے میرے روسی استاد گزرے تھے تو مجھے ان کے غم کا اندازہ ہورہا ہے ۔۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں اپنے روسی استاد کا ہمزاد ہوں یا وہ میرے ہم زاد ہیں -- ہمزاد کا دکھ اب محسوس کر رہا ہوں
طارق عزیز نے جانے کب محسوس کیا تھا ؟
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 334154 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More