کیا ہم کافر ہیں؟

دنیائے عالم کے تمام مذاہب میں سے حق پر صرف آسمانی مذاہب تھے۔نزول قرآن پاک سے پہلے تین آسمانی کتابوں کو اور کئی صحیفوں کو نازل کیا گیا تھا۔جن میں تورات زبور اور انجیل تھی۔یہود تورات اور زبور کو ماضی بعید میں بھی نہیں سنبھال سکے تھے۔کبھی ان سے بخت نصر جیسا بادشاہ اس پاک کتاب کو چھین کر لے گیا تو کبھی انہوں نے اپنے ہی مفاد کے لئے اس کی آیات کو بدلنا شروع کر دیا۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں اور ان کی وفات کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بہت بڑے یہود کے عالم جو شریر اور فسادی قسم کے تھے۔حضرت داؤد علیہ السلام کے خلاف باتیں کرتے تھے۔اور امت موسی علیہ السلام کو یکجا نہ ہونے دیتے تھے۔بلکہ ان کو متفرق اور نئے نئے مسائل میں الجھا کر رکھ دیتے تھے۔شریعت موسی میں سود کی ممانعت تھی۔لیکن حیرت انگیز طور پر یہی بڑے عالم جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے مخالف تھے اور خود کو موسی علیہ السلام کا جانشین گردانتے تھے خود ہی سود خور تھے۔خدائے واحد کی طرف سے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام معجزات عطا کر دیئے گئے اور ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا گیا اور جنات کو تابع کر دیا گیا۔اس وقت ان لوگوں میں سدھار آیا۔لیکن اس کے بعد پھر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس تک ان لوگوں نے تورات میں تحریف کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔دور نبوی میں مسلمانوں کے ساتھ مناظرے کے دوران یہ لوگ تورات کی آیات پر انگلیاں رکھ لیتے تھے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے تورات میں موجود واضح نشانیوں کو چھپاتے تھے۔ان کو سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ آخری نبی بنی اسرائیل میں سے کیوں نہیں ہے۔

اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو ٹارگٹ بنا لیا۔مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کے لیے اور ان کو فرقوں میں تقسیم کرنے کے لئے یہود نے بہت کوششیں کی ہیں۔ کبھی کوئی نیا فرقہ جنم لیتا تو کہیں سے خوارج سر اٹھا لیتے کہیں سے ناصبیت آ جاتی تو کہیں سے روافض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کافر اور مرتد کے فتوے لگاتے ہیں۔ اسلام میں ان کی ذہنیت کے لوگ ایسے داخل ہوئے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں کچھ لوگ جو خود کو مفتیان اسلام سمجھتے تھے انہوں نے حضرت علی حضرت امیر معاویہ اور غالبا حضرت امر بن عاص رضوان اللہ اجمعین کے خلاف کفر کا فتوی لگایا اور متفقہ طور پر یہ اعلامیہ جاری کیا کہ امت کو ان تینوں لوگوں کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے لہذا ان تینوں کو شہید کردیا جائے۔یہ تمام خلفشاریں یہود و نصاری کی جانب سے پیدا کی گئی تھی۔

دین اسلام میں فتویٰ ہمیشہ عقیدے پر لگتا ہے۔ کسی جماعت گروہ یا پورے کسی فرقے پر آپ فتوی نہیں لگا سکتے۔کیونکہ اس جماعت میں جس پر آپ فتوی لگا رہے ہیں۔اس میں لوگوں کے نظریات و عقائد مختلف ہو سکتے ہیں۔ لہذا اپ مختلف نظریات کے حامل لوگوں پر ایک ہی فتوی نہیں لگا سکتے۔

خاص کر جب آپ کہیں پر کسی خاص فرقے کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ تو آپ اپنے مخالف کے سامنے اپنے فرقے کو حق ثابت کرتے ہیں نہ کہ دین اسلام کو اس وقت آپ غیر ارادی طور پر دین اسلام کو ثانوی درجہ دے رہے ہوتے ہیں اور اپنے فرقے کو اول درجے پر رکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ دین اسلام جو کہ مجموعہ قرآن اور حدیث کا اس کو ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ تو کیا آپ اس وقت مسلمان رہتے ہیں ؟
لیکن آج دور حاضر کے مسلمان کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں واضح طور پر احکامات ہیں فرقوں میں تقسیم مت ہونا۔ لیکن پھر بھی آج ہم ستر سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہیں۔ ہمارا ہر عالم دین ممبر رسول پر بیٹھ کر یہ کہتا ہے کہ قرآن کی زیر زبر میں شک کرنے والا یا انکار کرنے والا کافر ہے۔تو پھر جو پوری پوری آیات کے انکاری ہیں۔ جو فرقوں میں بٹ گئے کیا وہ بھی کافر ہیں؟
کیا پھر ہم بھی کافر ہیں؟
جس طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرمایا !
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪
ترجمہ . "اللہ تعالٰی کی رسّی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو"
سورة آل عمران آیت نمبر ١٠٣
ان واضح احکامات کے بعد اگر ہم اپنے اپنے فرقوں کو ہی فوقیت دیتے ہیں تو ہم وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا کے انکاری ہو جاتے ہیں یہاں پر اپنے آپ پر اور مجھ پر فتویٰ لگانے کا کام اب آپ کا ہے۔

رب کائنات نے قرآن میں سورۃ آل عمران میں آیت نمبر 105 میں فرمایا
وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ
ترجمہ " تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفّرقہ ڈالا اور اختلاف کیا ، انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے ۔ "
اللہ تعالی کے پچھلے حکم میں تو صرف ہم وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا کا انکار کر رہے تھے۔لیکن یہاں تو ہم پوری آیت کا ہی انکار کر رہے ہیں۔لیکن یہاں ہمارے لیے نرمی نہیں ہے۔ یہاں پر وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ہے۔
کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا تو ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔تو تفرقہ بازی اور اختلاف تو ہم نے بھی کیا ہے جبکہ ہمارے پاس واضح احکامات ہیں قرآن کی صورت میں۔
اس کے بعد ہمارے علماء نے ہمیں صرف یہی سکھایا ہے کہ اللہ بہت بڑا غفور الرحیم ہے۔شاید ہمارے علماء کی القہار پر نظر نہیں پڑی۔ وہ آپ کو کیسے بخش دے گا جب کہ آپ نے تو اپنی ساری زندگی میں اس کے احکامات کو جھٹلایا۔
لہذا ہم اس آیت کے بھی انکاری ہیں۔

کیا ہم کافر ہیں؟

ہمارے علماء کے لئے اور ہمارے مسلمان بھائی جو صرف کلمہ پڑھ لینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں ان کے لیے اللہ کا ایک اور حکم پیش ہے
رب کعبہ نے سورۃ آل عمران آیت نمبر 106 میں فرمایا

یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اسۡوَدَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ ۟ اَکَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ
ترجمہ: " جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ ، سیاہ چہرےوالوں ( سے کہا جائے گا ) کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کُفر کیا؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھّو ۔ "
میرے بھائیو اور بہنو! کلمہ پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہوتا۔کیونکہ اگر صرف کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہوتا تو قرآن مجید کبھی نہ اترتا ماسوائے ایک کلمے کے۔
اسبات میں کوئی شک نہیں کے اسلام کو مذاہب باطلہ سے اس وقت شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔ اور تمام مذاہب باطلہ آپ کے تمام فرقوں کے نظریات کے ایک ایک نقطے سے واقف ہے۔ اب ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی فرقے ایک نکتہ کو پکڑ کر تھوڑا اچھال دیتے ہیں۔ باقی کام فرقہ واریت کے نام پر خود بخود ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اسلام ایک جماعت کا نام ہے
اسلام ایک امت کا نام ہے
اسلام تفرقہ بازی کا درس نہیں دیتا۔اسلامی یکجہتی کا درس دیتا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال باجماعت نماز،نماز جمعہ اور حج ہے۔
میری آپ تمام قارئین سے گزارش ہے آپ اسلام کو دین مان کر چلیں نہ کہ اسلام کوفرقوں میں بانٹ کر چلیں۔ کیوں کہ اگر ہم فرقوں میں تقسیم ہو کر چلے تو قرآن کے احکامات کو دیکھتے ہوئے مجھے مجبورا آپ لوگوں سے پوچھنا پڑے گا
کیا ہم لوگ کافر ہیں؟
 

Usama khan daultana
About the Author: Usama khan daultana Read More Articles by Usama khan daultana: 8 Articles with 4416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.