یونیورسٹیوں میں احتسابی نظام

مثبت سوچ کے حوالے سے ویسے تو پوری قوم ہی قحط الرجال کا شکار ہے مگر سیاستدان اس حوالے سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔اسمبلی کے نوے فیصد ارکان نے کبھی اسمبلی کی کاروائی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ گونگے بہرے یہ لوگ عوام کے مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے۔ ہاں اپنے ذاتی مسائل اور ذاتی منفعت کے لئے ’’دیوانہ بکار خویش ہوشیار‘‘ کے مصداق بڑے متحرک نظر آتے ہیں۔کسی ملک کی فلاح اس کے بہتر نظام تعلیم سے وابستہ ہوتی ہے۔یہاں تعلیم پر کسی نے کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ ملک کا نظام تعلیم جس تیزی سے تباہی اور بربادی کی طرف گامزن ہے ، حکمرانوں میں کوئی شخص بھی اس کے بارے سوچنے کو تیار نہیں۔حکومتی ذمہ داران اس معاملے میں بالکل بانجھ ہیں۔ ایک مخصوص مافیہ ہے جو ہر نئے آنے والے حکمرانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے ۔ پرانی شراب نئے برتنوں والا معاملہ ہوتا ہے لفظوں کے ہیر پھیر سے پرانی پالیسیاں نئے انداز میں پیش کرکے حکمرانوں کو خوش رکھا جاتا ہے۔ استاد بھگت کبیر نے کہا تھا،
رنگی کو نارنگی بولیں، بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو گاڈی بولیں ، دیکھ کبیرا رویا

ہمارا سارے کا سارا نظام تعلیم اسی انداز سے چل رہا ہے۔ اس کی کوئی کل بھی ٹھیک نہیں۔یہاں ہر رنگی نارنگی ہے، ہر جو چیزجو اپنے مطابق ہم بناتے ہیں وہ گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔تعلیمی ترقی کا سفر مثبت نہیں مکمل معکوس ہے۔تھوڑی سی سوچ اور فہم رکھنے والا ہر کبیرا اس صورت حال پر روتا ہے مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔ کسی عمارت کی تعمیر اس کی اچھی بنیادوں سے شروع ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں پرائمری تعلیم ہماری اخلاقی اور قومی ضروریات کے بارے مکمل بانجھ ہے۔ ایک پروفیسر صاحب کافی عرصہ سائنس کے وزیر رہے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے بارے حکمرانوں کو وہ خواب دکھائے کہ وہ آج تک انہیں خوابوں کی دنیا میں مست ہیں۔ کسی نے کبھی صحیح سوچا ہی نہیں۔کہ بنیادی پرائمری تعلیم کی اصلاح سے پہلے اعلیٰ تعلیم کیسے بلندیوں کا رخ کرے گی۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے ہمارانظام کسی وقت بھی مکمل تباہی سے دو چار ہو سکتا ہے۔ اور یہ ہونا ہی ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ ماؤزے تنگ نے صحیح کہا ہے کہ ہر تعمیر سے پہلے تخریب ضروری ہے۔ہم تخریب کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ اﷲکرے کچھ فہم رکھنے والے آئیں اور تعمیر کی پیش رفت ہو۔

چارسدہ پشاور سے تعلق رکھنے والے بیرہ مند تنگی ایک سیاسی لیڈر ہیں جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے ۔ 2018 سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹ کے ممبر ہیں اور سینٹ کی کمیٹی برائے ہائر ایجوکیشن کے ممبر۔ مجھے خوشی ہے کہ ان نامساعد حالات میں تنگی صاحب نے سینٹ میں کچھ ایسے سوالات اٹھائے جو انتہائی قابل ستائش بھی ہیں اور ان کی مثبت سوچ کے آئینہ دار ہی نہیں ، قوم کی ترجمانی بھی کرتے ہیں ۔تنگی صاحب نے فرمایا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم ہے۔ اس سسٹم میں جو ٹیچر پڑھاتے ہیں، وہی پیپر بناتے ہیں، وہی مارکنگ کرتے ہیں، وہی رزلٹ مرتب کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں جہاں ایک ہی شخص سارے عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے ، کرپشن کے بہت سارے چانسز ہوتے ہیں۔ عام کرپشن، مالی کرپشن اور اخلاقی کرپشن، اس طرح کی بہت سی شکایات بھی نظر آتی ہیں، بچوں کا ہر طرح سے استحصال ہوتا ہے۔کراچی سے ایک کیس سامنے آیا اور اس میں فیصلہ طالب علم کے حق میں آیا۔ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی سے بہت سے کیس آئے۔ مگر یہ چند کیس ہیں۔ بچے اور بچیاں ڈرتے ہیں اور بہت سے کیس ڈر کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔حکومت کو کچھ ایسا انتظام کرنا چائیے کہ پیپر کوئی تیسری پارٹی بنائے ، پیپر بھی کوئی دوسرا چیک کرے تا کہ بچے اپنے اساتذہ کی کرپشن کی نظر ہونے سے بچ سکیں۔

تنگی صاحب کے سوال کے جواب میں جناب وزیر تعلیم نے کہا کہ وہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ ٹیچر جو پڑھا رہا ہو وہی پیپر بنائے، وہی مارکنگ کرے ، وہی نتیجہ مرتب کرے تو اس میں بہت سی قباحتیں آتی ہیں۔ جو مالی، اخلاقی یا کرپشن کے حوالے کسی اور طرح کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ہم نے یہ بات پہلے بھی محسوس کی تھی اور ملک کی 32 جامعات کو اس بارے خط لکھا تھا۔صرف ایک یونیورسٹی نے لکھا کہ ہم کچھ تبدیلی چاہتے ہیں بقیہ 31 یونیورسٹیوں نے کہا کہ ہم اس نظام سے مطمن ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔ 31 جامعات کا جواب بڑا ٹھیک اور فطری تھا۔پرائیویٹ یونیورسٹیاں توخالص کاروبار کرتی ہیں۔ وہ ڈگریاں بیچتی ہیں۔ چند مخصوص چیزیں پڑھانا، انہی سے پیپر بنانا اور کسی طرح طلبا کو ڈگری دے کر انہیں اور ان کے خاندان کو خوش کردینا۔ انہیں تعلیم سے نہیں ، مالیات سے غرض ہوتی ہے۔ ان کے لئے یہ سسٹم بہترین ہے۔

سمسٹر ایک خاص طرز تعلیم ہے جس میں تبدیلی کا مطلب نظام کی تبدیلی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم اور اس میں احتساب کا نظام انتہائی فرسودہ ہیں۔ ہائر ایجوکیشن مکمل اوور ہالنگ مانگتی ہے۔ موجودہ پالیسیوں کا کمال یہ ہے کہ ہماری سرکاری یونیورسٹیوں میں حقیقی استاد نا پید ہیں۔ بیجا پروموشنز نے گریڈوں کی ریس کو تو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔فارن فیکلٹی کے نام پر مغرب سے بڑی تعداد میں انڈسٹری سے وابستہ پی ایچ ڈی حضرات کو بڑی تعداد میں درآمد کیا گیا۔ انہیں تعلیم کی ابجد کا بھی پتہ نہیں تھا۔ لوکل اساتذہ نے بھی ریس میں بھرپور حصہ لیا۔ اب ہر شعبے میں پی ایچ ڈی کے حوالے سے بہت پروفیسر ہیں ، استاد کوئی نہیں۔سسٹم بدلنے کی بجائے ضرورت ایک ایسے احتسابی نظام کی ہے کہ طلبا اپنی شکایات متعلقہ حکام تک پہنچا سکیں اور حکام اس کی تحقیق کے بعد طلبا کو تحفظ دینے کے سات سات اس پر بھر پور کاروائی کریں۔بہت سے لوگ جن کے بارے طلبا اور ساتھی اساتذہ کو سنجیدہ شکایات ہیں، وائس چانسلر حضرات کو انہیں تحفط دینا بند کرنا چائیے۔ سلیبس تیسری پارٹی یونیورسٹی کی ضروریات کے مطابق بنائے اور استاد سمسٹر میں اس کے مکمل خاتمے کا ذمہ دار ہو۔وہ لوگ جو صرف تنخواہیں لیتے ہیں ، پڑھاتے نہیں ہیں، وقت پر پیپر نہیں دیکھتے، پیپر کے نام پر خانہ پری کرتے پھر بھی مہینوں تک رزلٹ نہیں دیتے ، سیاست میں وقت ضائع کرتے ہیں۔کسی سینئر کے در دولت پر بیٹھ کر چاہتے ہیں کہ بہترین استاد قرار دئیے جایئں۔ ان کے خلاف کاروائی ہونا ضروری ہے اورانہیں فارغ کرنے کا انتظام بھی ہونا چائیے۔میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر یونیورسٹیوں میں احتسابی نظام کا مکمل نفاد ہو جائے تو ہماری سرکاری یونیورسٹیوں کے نوے فیصد سینئر اساتذہ یونیورسٹی چھوڑ جائیں گے۔ان کی منزل مراد تعلیم دینا نہیں بہتر سے بہتر گریڈحاصل کرنا ہے جو وہ حاصل کر چکے۔
تنویر صادق
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444374 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More