پیری مریدی کا اصل مقصد

تحریر: اللہ بخش فریدی فیصل آباد

ہمارے معاشرہ میں عام طور پر پیری مریدی کا یہ تصور پایا جاتا ہے کہ پیر ہاتھ پکڑ کر جنت لے جائیں گے، خدا کی پکڑ سے چھوڑا لیں گے، بخشش کا پروانہ دلوائیں گے ۔ یہ تصور بالکل باطل ہے ، پیر کا مقصدیہ ہرگز نہیں ہے ۔ پیر کا مقصد یہ ہے وہ شیروں کی جماعت اکٹھی کر رکھے اور امت کی ضرورت کے مطابق ان کا استعمال کرے ۔ امت کو جہاں جس مقصد کےلئے افرادی قوت کی ضرورت ہو مہیا کریں ۔ جہاد کےلئے مجاہد چاہیں مہیا کریں ، دفاع کےلئے محافظ و پاسباں چاہیں مہیا کریں ، تبلیغ کےلئے مبلغ چاہیں مہیا کریں ، بیداری و اصلاح اور رشد و ہدایت کےلئے اصلاح کار چاہیے تو مہیا کریں ۔ یہ مقصد ہے بیعت اور پیر کا ۔ بلکہ حکیم الامت، دانائے راز حضرت اقبال علیہ الرحمہ نے تو ایک اور بات کہی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں ۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

’ ’ اے شخص! تو نے مجھ سے ملت کے رہبر و پیشوا، ملت کے امام کی خوبیوں کی بابت پوچھا ہے،میری دعا ہے کہ خدا تجھے بھی میری طرح صاحب اسرار کر دے، بھیدوں اور رازوں کا جاننے والا بنا دے ۔ تیرے دور کا سچا راہبر، پیر و امام وہی ہو سکتا ہے جو تیرے دل میں عہد ِ حاضر کی تمام قباحتوں کےلئے نفرت پیدا کر دے ۔ وہ امام برحق یہ خصوصیت بھی رکھتا ہوکہ تجھے موت کے بعد کی حقیقت کا پتہ دے اور محبوب حقیقی کا چہرہ دکھا کر تیرے اندر شہادت کی تڑپ پیدا کرے اور اس کی یاد میں تیرا جینا دشوار کر دے اور تیرے لیے زندگی عذاب بنادے ۔ تو پہلے پانچ پڑتا تھا تو بیعت مرشد کے بعد آٹھ کی پابندی کرنی پڑھ جائے ۔ وہ مرشد کیا ہوا جو اپنے مریدسے پانچ وقت فراءض کی بھی پابندی نہ کروا سکے ۔ تیرے امام برحق کے اندر یہ خوبی بھی ہونی چاہیے کہ تجھے تیرے نقصان ،ملت کے ساتھ ہونے والی اونچ نیچ ، ظلم و زیادتی کا احساس دلاکر، ملت کی فکر پیدا کر کے تیرے لہو کو گرمادے، تیرے جوش اور ولولوں کو ابھار دے، اور تیری زندگی کو تلوار کی طرح تیز کر دے جو ہر باطل کو کاٹ کے رکھ دے ۔ اگر کوئی ایسا شخص جو تجھے سلاطین، بادشاہوں ، وڈیروں اور سیاستدانوں کا پجاری بنائے اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرے تو وہ تم اور تمہاری قوم کے لئے فتنہ کے سواء اور کچھ نہیں ہے ۔ ایسے امام و پیر سے نہ صرف خود بچو بلکہ قوم کو بھی بچاؤ ۔

وہ کیا پیر ہوئے جو اپنے مریدین سے پانچ وقت نماز کی پابندی نہ کروا سکیں ، اسلامی احیاء و اخلاقیات کی پاسداری نہ کروا سکیں ۔ پیر کا یہ مقصد نہیں کہ وہ بد عمل بھیڑوں کی جماعت اٹھی کر لے اور میدان میں کھلا چھوڑ دے کہ جہاں چاہیں چرتی پھیریں ۔ نہ نماز کی پابندی، نہ روزہ کی پرواہ، نہ اسلامی اخلاقیات کی پاسداری، نہ اسلامی اخوت کا لحاظ، نہ امت کے نفع و نقصان کی فکر ۔ یہی چیزیں ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں اگر یہ نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق تو نہ رہا ۔

کیا ایک پیر اگر اپنے مریدین کا کوئی برا عمل و فعل دیکھے اور سختی سے ڈانٹ کر کہے کہ یا یہ عمل چھوڑ دو یا ہمیں چھوڑ دو ۔ تو یقینا وہ برا عمل تو چھوڑ دے گا مگر پیر کو نہیں چھوڑے گا اگر سچی عقیدت والا ہے تو ۔ پیر حضرات ایسی جرات دیکھاتے ہوئے میدان میں تو اتریں کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہوجائے گی ۔ کھرے نکھر کر سامنے آئیں گے اور کھوٹے اپنا راستہ الگ کر لیں گے ۔ میں ایک دفعہ سفر سے واپسی پر اپنے مرشد کریم رحمتہ اللہ علیہ کے شہر سے گذر رہا تھا تو سوچا اتفاقاً گذر تو ہو ہی رہا ہے حضرت قبلہ صاحب کی زیارت ، سلام و دعا سے مستفید ہوتے چلیں ۔ تھری پیس پینٹ کوٹ، ٹائی کے ساتھ جیسے ہی حضرت صاحب سے آمنا سامنا ہوا ، آپ کے چہرے پر سخت ناراضگی کے آثار دیکھے اور خوب ڈانٹ بھی پڑی ۔ اور پاس بیٹھنے بھی نہیں دیا گیا ، فرمایا جاؤ ، ہو گیا سلام ، تم اس لباس میں مجھے اچھے نہیں لگ رہے ہو ۔ وہ دن گیا آج تک خود پہننا تو درکنار دوسروں کو پہنے ہوئے دیکھ کر دل میں نفرت ابھرنے لگتی ہے ۔ مطلب کہ پیر کی ناراضگی میں ، پیر کی ڈانٹ میں اثر ہے اگر ڈانٹنے والے ہوں تو؟ اگر مریدین کی بری ادائیں دیکھ کر، برے افعال دیکھ کر ان کا خون کھولتا ہو تو؟ اگر ایک پیر اپنے مریدین سے سختی سے کہے کہ یا نماز ترک کرنا چھوڑ یا ہمیں چھوڑ دو، تو یقینا وہ نماز ترک چھوڑ دیں گے مگر ایک پیر خانے کو نہیں چھوڑیں گے ۔ اگر ایک پیر بغیر سنت مبارک ( یعنی داڑھی مبارک ) کے مریدین کو اپنے منہ نہ لگائے ، اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دے تو یقینا لوگ سنتوں پر عمل پیرا ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ پیر حضرات، علمائے کرام جن سے لوگ گہری عقیدت رکھتے ہیں وہ اگر چاہیں تو لوگوں سے ہر ممکن دین کی پابندی کروا سکتے ہیں ۔ کوئی ہمت و جرات کرنے والا تو بنیں اور انجام خدا پر چھوڑ دے ۔ یقینا بہت کچھ بدل جائے گا معاشرہ میں ۔ اگر کسی پیر کا کوئی مرید کسی سے زیادتی کرتا ہے تو پیر صاحب زیادتی کرنے والے کو پکڑیں اور ناز و نکھرے دکھا کر معافی مانگو کر دم لیں تو یقینا لوگ حقوق العباد کی پاسداری کرنے لگیں گے ۔ اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھیں گے ۔ پیر کا کام ہے سر پر چڑھ کے رہنا، گلے میں پٹہ ڈال کے رکھنا ۔ ذرا ادھر ادھرراہ راست سے بھٹکنے لگے تو لگام کھینچ کر سیدھا کر دے ۔

آج کسی ویڈیو سنٹر یا موبائل شاپ کے قریب سے گذریں تو اس پر باطل والے شیطانی بتوں کے طرح طرح کے نیم عریاں و فحش پوسٹر لٹکے ہوتے ہیں لوگوں کو متوجہ کرنے کےلئے، ایمان سے خالی، قہار کے قہر سے بے خوف لوگ آتے ہیں اور یہاں سے اپنی اپنی پسند کے شیطانی بت خرید کر لے جاتے ہیں ۔ اور اندر بیٹھا ہوتا ہے ایک دکھاوے کا مسلمان، ایمان سے خالی ، خدا کے غضب سے بے خوف مسلمان ۔ کہتا ہے الحمد للہمیں مسلمان ہوں ، ٹی وی پر دیکھیں ، شوبز میں دیکھیں کیسے کیسے فحش و عریاں کردار خودکو بڑے فخر سے مسلمان کہہ رہے ہوتے ہیں کہمیں مسلمان ہوں ، حق باطل میں فرق کرنے والا ہوں ، اللہ سے ڈرنے والا ہوں ، یہ توبس روزی کا ایک ذریعہ ہے ۔ آگ لگا دے ایسی روزی اور روزی خانے کو جو رسول اللہ ﷺ کی امت کو گمراہ کرے اور گمراہی و ضلالت کے ذرا ئع فروخت کرنے کو روزی کا ذریعہ کہے ۔ جو لوگوں کو خدا سے بے نیاز و غافل کرے اور لوگوں میں فحاشی پھےلائے، عریانی پھیلائے اور پھر کہے مسلمان ہوں ، میرے اندر سب کچھ ہے ایمان بھی ہے اور خدا کا خوف بھی ۔ سب جھوٹ، اس کا ظاہر تو نہیں بتا رہا کہ وہ خدا سے ڈرنے والا ہے، وہ حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔ بنا شیطان کا ایجنٹ بیٹھا ہے، شیطانوں کی مورتیں بیچ کر لوگوں کو خدا سے غافل وبے نیار اور گمراہ کر رہا ہے ، بیچ جہنم رہا ہے، راستہ دوزخ کا دکھا رہا ہے اور کہتا ہے میں مسلمان ہوں شرم آنی چاہیے خود کو مسلمان کہتے ہوئے ۔ کون یقین کرے گا تیری اس ایمانیت و مسلمانیت پر؟ اور لعنت تیری ایسی روزی پر جو تو حرام کماتا ہے وہ دوزخ کا ایندھن ہے ۔ تو دوزخ کے ایندھن سے پیٹ پال رہا ہے اپنا اور اپنے بچوں کا بھی ۔ کسی بڑے سے بڑے ملاں اور مفتی سے کہو کہ اس بات کا رد کر دے کہ یہ روزی حرام اور جہنم کا ایندھن نہیں ہے ۔

امت کے رہبر پیر و مفتی حضرات پتہ نہیں کہاں سو رہے ہیں یہ سرکش عفریت معاشرہ کی رگوں میں رچ بس گئی ہے اور اس کے خلاف ان کی طرف سے کوئی فتویٰ، کوئی روک تھام کی تدبیر نظر ہی نہیں آتی ۔ اس شیطانی عمل و فعل کے آغاز سے لے کر اب اس کے خلاف ان کا کوئی مجموعی کردار و وار ہی دےکھائی نہیں دیتا، اس کے خلاف کی گئی کوئی مزاحمت ہی نظر نہیں آتی بلکہ بڑے بڑے اعلیٰ نسب سید گھرانے شوبز سے وابستہ ہیں ، اس قبیح فعل میں ملوث ہیں ۔ ان کے پروڈیوسر ہیں ۔ اِدھر ان کی زبانیں نہیں کھلتیں آپس میں لڑنا ہو تو بڑی گرج ہے ان کے لہجہ میں ،بڑی گرمی ہے ان کے جسم میں ، بڑا رعب اور دبدبہ ہے ان کی للکار میں ۔ ایک دوسرے پر فتوؤں کی بارش کرتے ہیں اور اس ناسور کے خلاف کوئی فتویٰ دینے کو تیار نہیں کہ یہ کاروبار حرام ہے اور امت کو گمراہ کر رہا ہے، امت کو جہنم کا راستہ دیکھا رہا ہے ۔ بلکہ اس قبیح شیطان کے معاونتی کاروبار کی حمایت میں یہ تو دعائیں دیتے ہیں اس شعبہ سے وابستہ اپنے عقیدت مندوں کو ۔ عقیدت مند آئے، پوچھا کیا کاروبار کرتے ہو؟ ۔ ’’جی حضور! ویڈیو سنٹر ہے، موبائل شاپ ہے گانے، فلمیں ، ڈرامے ، مجرے ، فحاش و عریاں کردار بھر بھر دیتے ہیں لوگوں کو ۔ ‘‘ اچھا تو کنتی آمدن ہو جاتی ہے؟ ۔ ’’جی حضور ! اتنی ۔ تو پیر جی نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کر دی کہ یا اللہ اوربہتر کر اور ترقی دے کہ اور بھی کھل کر شیطان کی معاونت کریں ۔ کہیں ایسا ہوتا ہے کہ عقیدت مند آئے کہا حضور کاروبار کےلئے دعا فرما دیجئے تو حضور نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کر دی اور پوچھنا تک گوارا نہیں کیا کہ کیا کاروبار ہے؟ کیاکاروباری اصول اپناتے ہو؟ ملاوٹ تو نہیں کرتے؟ ناپ تول میں ہیر پھیر تو نہیں کرتے، مال جھوٹ بول کر اور زیادہ مہنگے داموں تو نہیں بیچتے؟ امت کو خدا سے غافل کرنے کے دھندے میں تو مشغول نہیں ؟کوئی امت کےلئے نقصان دہ کام تو نہیں کرتے مثلاً میوزک سنٹر، موسیقی ، ڈرامہ و فلم بینی کا دھندہ، سگریٹ وغیرہ کا دھندہ جو امت کےلئے زہر ِ قاتل ہے ، حضرت صاحب نے کچھ پوچھنا گوارا نہیں کرنا، کوئی نصیحت نہیں کرنی، کوئی حکمت اور تدبیر نہیں بتانی، بس ہاتھ اٹھائے، دعا دی اور رخصت کر دیا ۔ مطلب کیا ہوا کہ اور زیادہ لوگ آئیں تجھ سے جہنم کا ٹکٹ لینے، گمراہی وضلالت کے سازوسامان خریدنے ، خدا سے غفلت و بے نیازی کے اسباب اکٹھے کرنے ۔ جیسا شیطانی فعل ہو، جیسا بھی شیطانی کاروبار ہو یہ بس اور برکت اور عاقبت خیر، آخرت میں اچھے انجام کی دعائیں دیتے ہیں ۔ اس قبیح شیطانی کاروبار سے امت کی خیر ہو یا نہ ہو انہیں اس سے غرض نہیں ۔ یہ کردار ہے اس معاشرتی ناسور کے خلاف ہمارے پیروں اور رہبروں کا تو امت نے گمراہ ہونا یا نہیں ؟؟؟

فرنگی صیدبست از کعبہ و دیر
صدا از خانقاہاں رفت ، لا غیر

حکایت پیش ملاز باز گفتم
دعا فرمود یا رب عاقبت خیر!

ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج کے پیر بے عملیت کا درس دے رہے ہیں ۔ لوگوں کو عمل سے دور کر رہے ہیں ، خود اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ پیر کے ہاتھ بیعت کر لو تمہاری جنت پکی، ہم جانے اور جنت جانے ، ہم چھوڑا لیں گے ، ہم ہاتھ پکڑ کے ساتھ جنت لے جائیں گے ۔ سب اپنا حلقہ ارادت بڑھانے کے چکر میں ہیں ۔ اتنے بڑے بڑے نامور، جلیل القدر، عالی مرتبت ولی اللہ، غوث، قطب ، ابدال گذرے ہیں کسی نے بھی اس طرح کے طریقے نہیں اپنائے اور لوگوں کو اپنے مرید ہونے کی دعوتیں نہیں دیں کہ میری بیعت کر لو تو جنت مل جائے گی ۔ آج لوگ سمجھتے ہیں کسی پیر کی بیعت کر لی، پیر کی محفل میں آئے گئے تو جنت مل گئی ۔ پیر وہ نہیں ہوتا جو تمہیں پہلے عمل سے بھی بیزار کردے بلکہ اصل اور حقیقی پیر وہ ہے جو تیرےلیے زندگی اور بھی اجیرن، مشکل و دشوار کر دے کہ پہلے پانچ نمازیں پڑھتاتھا تو اب بیعت کے بعد آٹھ کی پابندی کر، اور خود کواسلامی احکامات و اصول و ضوابط پر لوہے کی طرح جما دے کہ کبھی نہ اکھڑنے پائے ۔ وہ کیا پیر ہوئے جو اپنے عقیدت مندوں سے اضافی تو درکنار پانچ فرض نمازیں بھی پوری نہ کروا سکیں ؟ وہ کیا پیر ہوئے جو معاشرتی اخوت، ہمدردی و رواداری تو دور کی بات ایک گھر کے سگے بھائیوں میں اخوت و ہمدردی پیدا نہ کر سکیں ؟اگر آج معاشرہ میں گھر گھر اخوت، بھائی چارہ اور خاندانی ہمدردی ہوتی تو اس کی چمک اور مہک اجتماعی معاشرہ میں نظر آتی ۔

آج کل علماء و پیروں کی اولاد کے ہاتھ پاؤں چومے جاتے ہیں چاہے وہ جتنی بد عمل، غافل و سرکش ہو، چاہے جتنی اعمال وکردار اور اخلاقیات سے دور ہو ۔ اور حد تو یہ ہے کہ پیروں کے گھر پیدائشی بچے کو ولی، قطب ، غوث تصور کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ منصب ایسے ہی کسی کی جھولی میں نہیں ڈال دیا جاتا ہے؟ جو اس منصب پر پہنچے وہ اپنے کردار اور عمل کے زور سے پہنچے ہیں ۔ جسے کسی نبی کا بیٹا پیدائشی نبی نہیں ہو سکتا اسی طرح ولی کا بیٹا بھی پیدائشی ولی نہیں ہو سکتا جب تک اپنی محنت، کردار اور عمل سے ولی نہیں بن جاتا ۔ ہمارے سب معاشرتی اسلوب ہی غلط ہیں ۔ ہمارے معاشرہ میں اخلاق عالیہ، شریف النفس، پختہ و بلند کردار، تقویٰ و پرہیزگاری،طہارت و راست بازی، خدا ترسی و فیاضی کو کوئی عزت و تعظیم کا مؤجب نہیں سمجھتا ۔ سب کسی کی عزت و تعظیم کے لئے پہلے نسبت دےکھتے ہیں کہ کس پیر گھرانے سے ہے؟ کس دربار و خانقاہ سے ہے؟کس اعلیٰ افسر و عہدیدار سے تعلق رکھتا ہے؟کتنا امیر اور مالدار ہے؟لوگوں میں اس کا اثر اور دبدبہ کتنا ہے؟ اعلیٰ انسانی اوصاف و کردار سے قطع نظر ہو کر بدمعاش ، شرابی ، زانی، جوئے باز ، کرپٹ، فاسق و فاجر، انسان نما درندے کو محض اس لیے عزت و احترام کا مستحق قرار دیناکہ وہ ریشم و حریر میں ملبوس ہے، اچھی نسبت رکھتا ہے، کثیر مقدار میں اس کے پاس مال و زر ہے ، یہ کام تو عقل کے اندھوں اور انسان نما جانوروں ہی سے ہو سکتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اگر عزت و تعظیم اور قدر و منزلت نسبت کی وجہ سے کرنی چاہے تو خدا نے نبی کے بیٹے کو کیوں غرق کیا؟کیا اسے ایک نبی سے بیٹے کی نسبت نہیں تھی؟ خدا نے اس کی اس نسبت کو کیوں نہ دیکھا؟خدا نے نبی کی بیوی کو کیوں تباہ کیا؟کیا اسے ایک نبی سے بیوی کی نسبت نہیں تھی؟ خدا نے نبی کے عزیز و اقارب پر کیوں لعنت کی؟کیا وہ نبی کریم ﷺ کے قریبی اور چچا نہیں تھے ۔ بلکہ یہاں تو حقیقت یہ ہے کہ رب ذوالجلال نے ایک گستاخ اور نافرمان و بد عمل حقیقی بیٹے کو نبی کی آل ہی تسلیم نہیں کیا ۔ حضرت سیدنا نوح علیہ السلام نے عرض کی ۔

وَ نَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ اَبْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ o قَالَ یَا نُوْحُ اِنَّہُ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْاَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ o

’’ اور نوح نے اپنے رب کو پکاراکہ اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے ۔ اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے ۔ فرمایا اے نوح! وہ ہرگز تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہیں ہیں ۔ سو مجھ سے ایسا سوال مت کرو جس کا تجھے علم نہیں ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ ۔ ‘‘

(سورہ ہود 11 : 45-46)

اللہ کریم نے یہاں قرآن مقدس میں واشگاف الفاظ میں یہ نوٹس دے دیا کہ کوئی بھی غیر صالح عمل والا نہ کسی نبی کی آل ہو سکتا ہے نہ کسی ولی کی، چاہے وہ ان کی حقیقی اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اللہ کریم نے اپنے نبی پر بھی واضح کر دیا کہ تم غیر صالح شخص کو اپنی آل کہہ کر جاہل نہ بنو ۔ یہاں صاف صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ غیر صالح کو اپنی آل کہنا جاہلوں کا کام ہے اور غیر صالح کو مرشد کہنا گمراہوں کا ۔ اور یہی جہالت آج ہمارے معاشرے میں ہر سو پھیلی ہوئی ہے ۔ آج آپ جس خانقاہ، جس آستانہ پر چلے جائیں آپ کو مسند پر بیٹھے لوگ غیر صالح ہی نظر آئیں گے جن کی سیرت، جن کا کردار، جن کا واضح قطع، جن کا طرز عمل اپنے کامل اکابرین سے قطعاً نہیں ملتا ہو گا جن کے نام کا وہ کھا رہے ہیں ۔ یہ جہالت و گمراہی نہیں تو کیا ہے؟ اقبال علیہ الرحمہ نے بجا فرمایا کہ آج عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں ہیں ۔ آج کل دنیا کا نظام کردار و عمل سے نہیں صرف نسبت کے بل بوتے پر چل رہا ہے ۔ آج آستانوں کا یہ حال ہے کہ پیر کا بیٹا ہے بیٹھا دو مسند پر، دے دو خلافت و جانشینی، افعال و کردار کیسا ہے؟ ایساکچھ نہ پوچھو اور اپنی زبان بند رکھو ۔ یہ نیری جہالت ہے اور قرآن کی منشوعات کے سراسر منافی طرز عمل ہے ۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا کے ہاں نسبت نہیں دیکھی جاتی، اچھے اعمال و کردار دیکھے جاتے ہیں ، اعمال صالح دیکھے جاتے ہیں ، اعلیٰ اخلاق و اطوار اور تقویٰ و پرہیز گاری دیکھی جاتی ہے ۔ وہاں کسی سے تعلق و نسبت نہیں ، رشتہ داری نہیں بلکہ اطاعت و فرمانبرداری کا معیار دیکھا جاتا ہے اور پھر اسے پرکھا بھی جاتا ہے کہ کتنا ثابت قدم رہتا ہے؟ کتنا اطاعت کے معیار پر قائم رہتا ہے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج ہم نسبتیں دیکھتے ہیں اچھے اعمال و کردار نہیں ۔ ہم اطاعت و فرنبرداری کی طرف نہیں جاتے بلکہ دارین میں نجات کےلئے نسبتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ ہم اعلیٰ انسانی اخلاق اور پختہ و بلند کردار سے دنیا میں سرفراز و کامران نہیں ہونا چاہتے بلکہ ہم دارین میں سرفر ازی و کامرانی کےلئے سفارش ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں ، دنیا میں با اثر تعلق داروں پر بھروسہ ہے اور آخرت میں حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پرکہ وہ اپنی شفاعت و سفارش سے نجات دلوا دیں گے ۔ ہم کامیابی کیلئے خود اپنی محنت پر یقین نہیں رکھتے ےہی آج ہماری دنیا میں بربادی، خواری و ناداری اور ذلت و رسوائی کا سبب ہے ۔

 

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 101 Articles with 103433 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More