پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی سیاست ملّی و قائد اعظم سے خط وکتابت

پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری
کی سیاست ملّی و قائد اعظم سے خط وکتابت
تاریخ کے جھرونکوں سے

قائد اعظم محمد علی جناح خطوط کے آئینے میں

پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری
کی سیاست ملّی و قائد اعظم سے خط وکتابت
انتخاب:۔محمداحمد ترازی
پیر سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری(1840-1951ء) کا شمار برصغیر پاک وہند کے ممتاز صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔آپ کے اساتذہ میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری،مولانا غلام قادر بھیروی،مفتی محمد عبداللہ ٹونکی،مولانا محمد علی مونگیری اور مولانا احمدحسن کانپوری جیسے علمائے صادق شامل تھے۔جبکہ آپ کو اجازت وخلافت حضرت بابا فقیر محمد چوراہی اور اویس دوراں حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی سے حاصل تھی۔پیر جماعت علی شاہ کا حلقہ مریدین پشاور سے راس کماری اور کشمیر سے مدراس تک پھیلا ہوا تھا۔حتیٰ کہ والی افغانستان نادر شاہ اور نظام دکن میر عثمان علی خان بھی آپ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔
برصغیر کے سیاسی ومذہبی رہنماؤں میں نواب وقارالملک،مولانامحمد علی جوہر،مولانا عبدالباری فرنگی محلی،مولانا سیّد داؤد عزنوی،شاعر مشرق علامہ اقبال،نواب بہادر یار جنگ،مولانا نثار احمد کانپوری،حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی،مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی،مولانا حسن احمد مدنی،سید عطا اللہ شاہ بخاری،مولانا نعیم الدین مرادآبادی،مولانا غلام بھیک نیرنگ،مولانا ظفر علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح سے ذاتی مراسم تھے۔اور یہ تمام حضرات پیر جماعت علی شاہ کا بے حد احترام کرتے تھے۔
پیر جماعت علی شاہ ہر چند کہ بنیادی طور ہر پیر طریقت تھے لیکن سماجی اور سیاسی معاملات پر بھی آپ کی گہری نگاہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے حجاز ریلوے لائن کی تعمیر،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی توسیع اور تحریک خلافت میں بھر پور حصہ لیا اور ان مقاصد کے لیے اپنے حلقہ مریدین سے لاکھوں روپے فنڈ جمع کیا۔(1)
مارچ 1921ء کو لائل پورمیں خلافت کانفرنس کی صدارت کی اور ایسی ولولہ انگیز تقریر فرمائی کہ خلافت فنڈ میں لاکھوں روپے جمع ہوگئے۔اس کانفرنس کی کامیابی پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے لکھا:"خدائے بزرگ وبرتر نے حضرت ممدوح (پیر جماعت علی شاہ)کو اعلائے کلمۃ الحق اور صداقت کی وہی جرات وبے باکی عطا فرمائی جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز تھی۔اگر ملک کے تمام مشائخ عظام اور پیر زادگان حضرت حافظ حاجی پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوری کی تقلید کریں اور خلافت مقدسہ اسلامیہ کی حمایت اور اعانت پر کمر بستہ ہوجائیں تو خلافت اور آزادی وطن کے مسائل کا حل بہت جلد ہوسکتا ہے۔(2)
پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے تقریباًپچاس سال تک برصغیر کی سیاسی تحریکات میں سرگرم حصہ لیا۔جس کے نتیجے میں اکثروبیشتر ان کو حکومت کے عتاب کا شکار ہونا پڑا،مگر انہوں نے حق کے اظہار سے کبھی گریز نہیں کیا،1935ء میں مسجد شہید گنج کے سلسلے میں آپ نے نمایاں خدمات انجام دیں اور حکومت کو یہ احساس دلایا کہ مسلمان اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانئ دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے مسجد شہید گنج کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:"ہماری سیاست میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب پنجاب میں ہر خیال کے مسلمانوں نے پیر جماعت علی شاہ کی قیادت پر اتفاق کرلیا تھا اور انہیں "امیرِ ملت"چنا تھا۔مقصود یہ تھا کہ ان کی رہنمائی میں مسجد شہید گنج کی بازیابی کے جدوجہد کی جائے۔ان دنوں(پیر جماعت علی شاہ)سب کو محبوب تھے۔"(3)
قائد اعظم محمد علی جناح کی انگلستان سے واپسی کے بعد مسلم لیگ کی تنظیم نو کا جب آغاز ہوا تو پیر جماعت علی شاہ نے مسلم لیگ کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ملک گیر دورے کرکے اپنے مریدوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کی تلقین کی۔رئیس احمد جعفری نے لکھا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام پنجاب کے ایک جلسے کی صدارت کرتے ہوئے پیر صاحب نے فرمایا"حکومت اور کانگریس دونوں کان کھول کر سن لیں کہ اب مسلمان بیدار ہوچکے ہیں۔ انہوں نےاپنی منزل متعین کرلی ہے۔اب دنیا کی کوئی طاقت ان کے مطالبہ پاکستان کو نہیں ٹال سکتی۔بعض دین فروش نام نہاد لیڈر مسٹر جناح کو برملا گالیاں دیتے ہیں لیکن مسٹر جناح نے آج تک کسی کو برا نہیں کہا۔یہ ان کے سچا رہنما ہونے کا ثبوت ہے۔"(4)
پیر جماعت علی شاہ نے قائد اعظم کی ہر اپیل پر ایک ادنیٰ سپاہی کی طرح ہمیشہ لبیک کہا اور قائد اعظم کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔22دسمبر 1939ء کو کانگریسی وزارتوں کے خاتمے پر آپ نے "یوم نجات"منایا اور علی پور سیداں میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اس وقت سیاسی میدان میں اسلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے۔ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اب سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہیے۔"(5)
صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر بھی پیر جماعت علی شاہ نے ضعیف العمری کے باوجود مطالبہ پاکستام کی ترویج واشاعت میں اہم حصہ لیا۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا"محمد علی جناح ہمارا بہترین وکیل ہے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔"(6)
پیر صاحب اور ان کے مریدین نے تحریک پاکستان میں حتی المقدور حصہ لیا اور ہر مرحلہ پر ثابت قدمی کا ثبوت دیا۔پیر جماعت علی شاہ کو نظریہ پاکستان سے قلبی لگاؤ تھا اور وہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے۔ڈاکٹر رضی واسطی نے لکھا کہ" اس مقصد کے لیے انہوں نے پیر صاحب مانکی شریف اور مولانا عبدالستار نیازی کے معیت میں ملک گیر دورے کیے اور عوام کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تیار کیا تاکہ حکومت پر مکمل دباؤ ڈالا جاسکے۔"(7)
یہاں پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری اور قائد اعظم کی خط وکتابت درج کی جارہی۔جو یقیناً بڑی اہمیت کی حامل ہے۔(8)
بحوالہ :۔ بحوالہ:۔قائد اعظم محمد علی جناح خطوط کے آئینے میں۔ص148تا 154۔ناشر، پیس پبلی کیشنز لاہور 2015ء




















M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313720 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More