چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

مملکت خداد پاکستان کا پچھترواں یوم آزادی بہت دھوم دھام سے منایا جارہا ہے۔ اسلامیان برصغیر نے قائداعظم کی بے مثال قیادت میں زبردست جدوجہد کرکے یہ ملک حاصل کیا۔ کانگریس کی تقسیم ہند کی بھرپور مخالفت کے باوجود آل انڈیا مسلم لیگ نے نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی اور حکیم الامت علامہ اقبال کے تصور کو 14 اگست 1947 کو حقیقی روپ دے دیا۔ مطالبہ پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مرتبہ قائداعظم نے فرمایا کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ ہم اس سرزمین پر اسلامی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ رشوت اور کرپشن کے حوالے سے قائداعظم نے بات کرتے ہوئے اسے ’زہر قاتل‘ قرار دیا اور کہا کہ ہمیں کرپشن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ وہ عوام کی غربت اور معاشی صورت سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور کہتے تھے مسلم لیگ کی جدوجہد کے نتیجہ میں لوگوں کو بہتر زندگی میسر آئے گی۔

آج پچھترواں یوم آزادی مناتے ہوئے جب قائداعظم کے ان فرمودات کی روشنی میں جب پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ کونسے کارنامے اور غیرمعمولی کام ہیں جو پچھترویں یوم آزادی پر فخر سے پیش کئے جاسکتے ہیں؟ ملک کا آدھا حصہ گنوا دیا اور جو بچا وہ معاشی، سیاسی اور دیگر شعبوں میں دنیا کی اقوام سے بہت پیچھے اور مزید تنزلی کا شکار ہے۔ آج تک ایک بھی منتخب وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ پچھترویں یوم آزادی پر شادیانے بجانے کی بجائے انفرادی اور اجتماعی سطح پر احتساب کرتے ہوئے یہ سوچیں کہ پاکستان کی یہ حالت کیسے ہوگئی؟ جب پاکستان آزاد ہوا ہوا تو تمام تر مشکلات کے باوجود یہ ایک مستحکم سیاسی اور معاشی صورت حال کا حامل تھا۔ آزادی کے بعد ایک امریکی ڈالر تقریبا ساڑھے تین روپے کا تھا اور آج ہر روز اتنا گرتا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان تھا تو اسے معاشی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ آج بنگلہ دیش سماجی اور معاشی ترقی میں ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ گذشتہ سال بنگلہ دیش نے اپنی آزادی کے پچاس سال بعد، اپنا اور پاکستان کا جو معاشی تقابلی جائزہ عام کیا، وہ ہمارے سینے پر مونگ دلنے کے لئے کافی ہے۔

ایک وقت تھا جب پاکستان نے مغربی جرمنی کو قرضہ دیا۔ جنوبی کوریا نے پاکستان سے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ مستعار لیا اور ترقی کی معراج کوپہنچ گیا۔ پاکستان کی جانب سے چین کو دی جانے والی امداد کا بین ثبوت چند سال قبل خوددیکھنے کو ملا جب ہم دیوار چین کی سیر کے لئے گئے۔ آج بھی وہاں ایک کتبہ اس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ اس عظیم دیوار کی مرمت پاکستان کی امداد سے ہوئی۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ کوئی ہمیں قرض بھی نہیں دے رہا۔ ملک کی اس سے زیادہ اور بے توقیری کیا ہوگی کہ ملک کے سپہ سالار کوقرض حاصل کرنے کے لئے دوسرے ملکوں سے بات کرنا پڑ رہی ہے۔ ملک کو اس حالت پر مزدور، کسان اور عام آدمی نہیں پہنچایا بلکہ انہوں نے پہنچایا ہے جو اس ملک کے اقتدار پر قابض یا حصہ دار رہے ہیں۔ سیاست دانوں، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور عدلیہ، اس چار کے ٹولے نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے۔ جو ملک بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اور جسے ایک اسلامی فلاحی مملکت بننا تھا، وہ ایک اپنے عوام کو دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات دینے سے بھی قاصر ہے۔اس لئے ایک عظیم بیداری کی لہر کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں پاکستان بنائے۔

آج ان گمنام شہیدوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے خون سے شمع آزادی روشن کی۔ ان عظیم لوگوں کو سلام پیش کرنا ہے جنہیں یہ علم تھا کہ وہ بھارت میں ہی رہ جائیں گے لیکن انہوں نے پاکستان کے لئے جدوجہد کی۔ ان ان ماؤں بہنو کی عظمت کو سلام پیش کرنا ہے جن کا قرض ہم کبھی ادا نہیں کرسکیں گے۔ اس چھ سال کے بچے کو سلام پیش کرنا ہے جو پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اﷲ کے نعرے لگاتا پیدل پاک سرزمین میں پہنچا۔ سلام عقیدت امرتسر، دہلی، جموں اور دوسرے مقامات پر شہید ہونے کو بھی پیش کرنا ہے جن کا جرم پاک وطن سے محبت تھا۔ ان مزدوروں ، کسانوں، ہنرمندوں اور جو بھی پاک وطن کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہے، سلام کا مستحق اور قابل صد ستائش ہے۔ سلام عقیدت ان جوانوں کے لئے بھی جنہوں نے پاک سرزمین کی طرف بڑھنے والے شعلے اپنے خون سے بجھائے۔ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کو بھی سلام اور پروردگار ان کے حوصلے بلند رکھے۔
جو لوگ بیرون ملک مقیم ہیں ، ان کی پاکستان سے محبت لاثانی ہے کیونکہ ان کے سینوں میں پاکستان دھڑکتا ہے۔ وہ پاکستان کے لئے فکر مند رہتے ہوئے سوتے ہیں اور اس کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں۔ جہاں ایک بھی پاکستانی رہتا ہے ، اس نے وہاں ایک چھوٹا پاکستان بسا رکھا ہے۔ سبز ہلالی پرچم کو جس عقیدت وہ دیکھتے ہیں ویسا شائد پاکستان میں رہنے والے بھی نہ کرتے ہوں ۔ جب ملک پر کو ئی آزمائش آتی ہے تو وہ اپنا پیٹ کاٹ کر وطن عزیز کت لئے سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کا دل دل بہت دکھی ہوتا ہے جب انہیں غیر ملکی قرار دے کر غیر کردیا جاتا ہے۔ دوہری شہریت رکھنے کی کڑی سزا دی جاتی ہے۔ ایسا تو ان کے ساتھ وہاں نہیں ہوتا ، جن ملکوں میں رہتے ہیں، وہاں بھی تو دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی برابر کا پاکستانی سمجھا جائے اور اس کے امتیازی قوانین ختم کئے جائیں۔ کالم کا اختتام احمد ندیم قاسمی کی دعا کے ساتھ کرتے ہیں کہ
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 275 Articles with 235239 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More