جمعہ نامہ :دعوتِ دین اور قرآنِ حکیم

امت کے اندر دعوت دین کا رحجان بڑھا ہے ۔ عید ملن یا میلادالنبی ﷺ وغیرہ کی تقریبات میں غیر مسلمین کو شریک کرکے ان کی خدمت میں قرآن مجید کے تراجم پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ اسے نہایت احترام سے لیتے تو ہیں مگران میں سے بیشتر افراد اس محفوظ ترین آسمانی صحیفہ کو بھی دیگر مذہبی کتابوں کی مانند انسانی تصنیف سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ اس لیے کہ مختلف مذہبی کتابیں اول تو بزعمِ خود انسانی تصنیفات ہیں یا ان کے اندر انسانی تحریف اس قدر زیادہ ہے کہ الہامی پہلواوجھل ہو گیا ہے۔ قرآن حکیم کی زبان، اسلوب بیان ،موضوعات ، تمثیلات ، انکشافات اور تعلیمات وغیرہ اس کے کلام الٰہی ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ ان کے باوجود اگرکوئی معروضی فکر کا حامل شخص بغرضِ اطمینان قرآن کے اللہ کی کتاب ہونے کی دلیل مانگے تو اس کا اہتمام بھی کتاب اللہ میں موجود ہے۔

قرآن حکیم کی عظمت کا اعتراف کرنے کے باو جود جو لوگ اسے(نعوذباللہ) محمد ﷺ کی تصنیف سمجھتے ہیں ان کے لیے اس کتاب میں ایسی آیات موجود ہیں کہ جو کوئی بھی مصنف اپنے متعلق نہیں لکھے گا مثلاً ارشادِ حق ہے:’’یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہےاور اگر اس (نبی) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتےاور ان کی شہ رگ کاٹ ڈالتےپھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا‘‘۔کسی مصنف کو اپنے خلاف اس طرح کا سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی مطلق ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور رسولؐ نےتو اس کو من وعن پہنچا یا ہےاس لیے یہ آیت اسی طرح موجود ہے۔ قرآن کریم میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں جیسے:’’ اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان بناکر نازل کیا ہے اور اگر آپ علم کے آجانے کے بعد ان کی خواہشات کا اتباع کرلیں گے تو اللہ کے مقابلے میں کوئی کسی کا سرپرست اور بچانے والا نہ ہوگا‘‘۔اپنے برگزیدہ پیغمبر کے تئیں یہ انداز تو صرف رب ذوالجلال کاہی ہوسکتا ہے۔

نبی کریم ﷺ جس وقت اللہ کی کتاب پیش فرما رہے تھے تو ان پر دشمنانِ اسلام کی جانب سے تحریف قرآن کے حوالے زبردست دباو تھا۔ یہ آیت اس کی طرف اشارہ کرتی ہے:’’(اے رسولؐ) یہ (کافر) اس بات میں کوشاں تھے (اور اس کا ارادہ کر لیا تھا کہ) آپ کو اس (کتاب) سے پھیر دیں جو ہم نے آپ کی طرف بذریعۂ وحی بھیجی ہے تاکہ آپ اس کے خلاف کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں اور اس صورت میں وہ ضرور آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے‘‘۔ یعنی ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے کے نتیجے میں دشمنی دوستی میں بدل جاتی لیکن بفضل تعالیٰ آپﷺ ان کی جانب قطعی راغب نہیں ہوئے ۔ اس بابت فرمانِ قرآنی ہے:’’اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ضرور ان کی طرف جھک جاتے‘‘۔ ایسا ہوا تو نہیں مگر ہوجاتا تو اس کی یہ وعید سنائی گئی کہ :’’اور اگر آپ ایسا کرتے تو ہم آپ کو دنیا میں عذاب کا مزہ چکھاتے اور مرنے پر بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے۔ پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی یار و مددگار نہ پاتے‘‘۔ یہ آیت جہاں قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کی برہان ہے وہیں ان مداہنت پسند اہل ایمان کے لیے بھی تازیانۂ عبرت ہے جن کے متعلق علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں
ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

قرآن حکیم کا یہ پہلو بھی برادرانِ وطن کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ آپﷺ نےبنی نوع انسانی کو اپنی بندگی کی دعوت نہیں دی بلکہ فرمانِ خداوندی ہے:’’اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے‘‘، توحید و رسالت کی معرفت کرانے کے بعد یہ دعوت دی گئی ہے کہ :’’ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور اُس کی پیروی اختیار کرو‘‘۔یعنی جس راہِ حق کی دعوت دی جارہی ہے اس پر خود رسول اکرم ﷺ نہایت شرح ِ صدر اور یکسوئی کے ساتھ گامزن ہیں اورعالمِ انسانیت کےنجات کی یہی واحد سبیل ہے ۔ آیت کا ختتام اس بشارت پر ہوتا ہے کہ :’’ امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے‘‘۔قرآن حکیم عالمِ انسانیت کو سیدھے راستے پر گامزن ہوکراپنے رب کی رضا حاصل کرنے کا نادر موقع عطا کرتا ہے۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2069 Articles with 1259887 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.