روبہ زوال نظام تعلیم اور اسناد کی فروخت کا عروج پاتا کاروبار

قوموں کی ترقی میں تعلیم کتنی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اس بات کا جن قوموں کو ادراک ہوتا ہے وہ اپنے نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر جدید سے جدید اور مضبوط سے مضبوط بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک پڑھی لکھی تعلیمیافتہ قوم ہر آزمائش پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو قومیں تعلیم و تربیت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیںیا نظر انداز کرتی ہیں وہ ایسے حکمراں پیدا کرتی ہیں جو خود آقا بن کر قوم کو محکوم بنا کر ان سے غلاموں والے کام لیتے ہیں اور ان کو ذہنی طور پر اس قابل نہیں ہونے دیتے کہ ان کو اپنے حقوق کا علم ہو یا وہ حق مانگ سکیں اور ان کی زندگی اپنی ہی قوم کی اشرافیہ کی خدمت کرتے گزر جاتی ہے اور یہ سلسلہ نسلوں تک چلتا ہے بدقسمتی سے ہمارا ملک اسی فہرست میں آتا ہے جو تعلیم کو بہت کم بلکہ اہمیت ہی نہیں دیتے اس کا سب سے واضح ثبوت سالانہ بجٹ ہوتا ہے۔جو ہماری ترجیحات بتاتا ہے کہ باقی شعبوں کے مقابلے میں ہم شعبہ تعلیم کے لیۓ کتنی رقم مختص کرتے ہیں۔ اسی کی ابتدائی دھائی تک ہم سرکاری اسکولوں کا ایک مربوط نظام رکھتے تھے غریب اور اوسط طبقہ یہاں کی تعلیم سے کافی حد تک مطمئین تھا اچھے اور معیاری اساتزہ فائز ہوتے تھے کوچنگ سینٹر بہت زیادہ نہیں تھے پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد کم نہیں تھی مگر صرف اچھے کھاتے پیتے گھرانے والے ادھر رخ کرتے کیونکہ اسوقت سرکاری اسکولوں کو احساس کمتری نہیں تھا اور ٹاپ کرنے والے زیادہ تر انہی سرکاری اسکولوں سے ہوتے تھے یہی حال کالجوں کا تھایونیورسٹیز بہت کم تھیں ریڈیو سے طلبہ کے لیۓ پروگرام نشر ہوتے جن میں زیادہ تر معلوماتی کوئز ہوتے تھے ٹی وی بھی مختلف کوئز مقابلے منعقد کرواتا تھا غرض ایک بہترین تعلیمی ماحول ہوتا تھا۔ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام کو ہم تین حصوں میںیا تین اسٹیجز میں پروان چڑھاتے ہیں پہلا جسکو ہم پرائمری کہتے ہیں دوسرا سیکنڈری اور تیسرا کالج و یونیورسٹی پرائمری میں کم از کم شہروں میں تو آپ کو سرکار کہیں نظں نہیں آۓ گی اس پر نجی مالکان کا راج ہے اور ایک غریب میں تو اس کی ہمت نہیں ہو پاتی کہ ادھر کا رخ کرے البتہ اوسط طبقہ والا اپنے آپ کو مقروض بنا کر بھی بچوں کو یہاں سے تعلیم دلانے پر مجبور ہے۔ ان پرائیویٹ اسکولوں کو کھولنے کا بنیادی مقصد ہی ایک منافع بخش کاروبار ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سو فیصدیہی معاملہ ہے مگر اکثریت کا معاملہ یہی ہے ویسے بہت سے لوگ ذاتی حیثیت میں اور مختلف تنظیمیںیہ کار خیر انجام دی رہی ہیں مگر سرکاری اسکولوں کی کمییا غیر موجودگی ایک اچھے خاصے بڑے طبقہ کو تعلیم سے محروم کر رہی ہے پرائیویٹ اسکولوں کی بہت زیادہ فیسیں مہنگی کتابیں آۓ دن مختلف غیر تعلیمی سرگرمیاں بہت مشکل کر دیتیں ہیں والدین کے لیۓ مگر مجبور ہیں کوئی اور راستہ ہی نہیں دوسرا مرحلہ سیکینڈری اسکول کا ہوتا ہے جہاں کچھ اسکول تو نظر آتے ہیں مگر معیاری تعلیم کا مسئلہ اساتذہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ہے جیسے تیسے آٹھویں پاس کرادی جاتی ہے اب بورڈ کے امتحانات کا سامنا کرنے کے لیۓ بچے کالجیٹ کے نام پر نۓکاروبار کو منافع بخش بناتے ہوۓیہاں شام کی کلاسیں لینے پر مجبور ہیں اور مزے کی بات ان کے اسکولوں کے اساتذہ ہییہاں انہیں مضامین کو پڑھارھے ہوتے ہیں بلکہ بچوں کو وہی مشورہ دیتے ہیں ان کوچنگ سینٹرز میں جانے کا کیونکہیا تو وہ سینٹر ان کی ہوتے ہیںیا وہ حصہ دار ہوتے ہیں۔ اب والدین کے پاس یہاں بھی کوئی اور راستہ نہیں ہوتا سواۓ ان مہنگے کالیجیٹ کا رخ کرنے کے بلکہ ایک بچے نے بتایا کہ جب تک میں نے داخلہ نہیں لے لیا میرے ٹیچر مجھ سے ناراض رہے۔ یہ اساتذہ بھی انتہائی کم تنخواہوں کی وجہ سے یہی سب کچھ کرنے پر مجبور ہیں ادھر طلبہ کو خوف ہوتا ہے کہ اگر کالیجیٹ نہ جوائن کیا تو بورڈ کے امتحان میں اچھے نمبر نہیں آسکیںگے۔ اب تیسرا مرحلہ کالجز اور یونیورسٹیز کا ہے اس میں بھی کہیں کہیں سرکار اور زیادہ تر پرائویٹ کالجز ہیں جو مختلف ادارے اپنی سرپرستی میں چلارھے ہیں مگر بہت زیادہ فیسوں کے ساتھ ۔ غریب کا تو یہاں تک پہنچنا ہی اب مشکل ہو چکا ہے درمیانے طبقہ کے بچے جو خود کما لیتے ہیں چاھے ٹیوشن کرکے یا چھوٹی موٹی نوکری کر کے وہ پھر کالج اور یونیورسٹیز کی فیسیں بھر تے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر ان کا مستقبل نہیں بن سکتا یعنی ڈگری پہلی شرط ہوتی ہے ان کالجز اور یونورسٹیز نے حکومتوں کی عدم توجہی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوۓ معیار سے زیادہ حصول زر کو اپنا مقصد بنایا ہوا ہے اور بہت ہی چند ادارے ہیں جو پرخلوص انداز سے تعلیم کے فروغ کے لیۓ کوشاں ہیں۔ حکومتوں سے یہی درخواست ہے کہ توجہ دیں کم از کم اسکول کی سطح پر تو ذمہ داریوں کو نبھائیں خواندگی بڑھائیں اور حصول علم عام آدمی کے لیۓ آسان بنائیں پرائیویٹ انتظامیہ کیساتھ مشترکہ منصوبے بنائیں چائلڈ لیبر کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہوۓ انکو راغب کریں ایک عرصہ ہو گیا ہم نے ہنرمندی سکھانے کے اداروں کی سرپرستی بند کردی ہے ہم مختلف چھوٹے بڑے محلوں میں دستکاری اور ہنر مندی سکھانے والے اسکول بنا سکتے ہیں وھاں بچوں کی تربیت بھی ہوتی رھے گی اور وہاں سے تیار ہونے والی اشیاء کو مارکیٹ میں لانے سے جو آمدنی ہو اس سے یہی بچے مستفید ہوں یہ چھوٹے چھوٹے سے تربیتی ادارے وقت کے ساتھ کارخانے بن سکتے ہیں ایک سیکھ جانے والا بچہ نۓ آنے والے طالب علم کا سینئر ہونے کے ناطے استاد بن سکتا ہے اور اسی طرح یہ ہنر سکھانے کا عمل بھی بڑھے گا یہی بچے اپنا کام خود بھی شروع کر سکیں گے کیونکہ وہ خود اعتماد ہو چکے ہونگے۔ سرکار کمپیوٹر کے استعمال سکھانے کے لیۓ محلوں میں ایک ایک کمرے پر مشتمل انسٹیٹیوٹ بنا سکتی ہے یا ایسا کرنے کے لیۓ لوگوں کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے اس طرح ہم آئی ٹی کے شعبہ کی طرف لوگوں کو لاکر روزگار کا نہ صرف انتظام کر سکتے ہیں بلکہ ذرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں اگر مناسب انداز سے توجہ دی جاۓ پاکستانی بچے دنیابھر میں اپنا ٹیلنٹ ظاہر کرسکتے ہیں شہرت حاصل کرسکتے ہیں تو ہم اپنے ملک میں ان کو سہولیات دیکر ان کو اپنے پیروں پر کیوں کھڑا ھونے میں مدد نہیں دے سکتے زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی . . . صرف زرا سی آبیاری کی ضرورت ہے
 
Tariq Asif Siddiqui
About the Author: Tariq Asif Siddiqui Read More Articles by Tariq Asif Siddiqui: 7 Articles with 3330 views I am a 63 years old retired banker, who has a passion to write what he percieves about social and political issues of this country, also tries his bes.. View More