سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

تباہ کن سیلابی ریلوں نے پاکستان کے بہت سے علاقوں کو متاثر کیا ہے۔ سینکڑوں لوگ اس زمینی آفت کے دوران موت کے منہ میں چلے گئے۔ کروڑوں لوگ اس سے متاثر ہوئے جن میں سے لاکھوں ابھی تک بے بسی کے عالم میں کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ سندھ کے دیہاتوں میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ کے پی کے کے زیریں علاقوں میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔ پنجاب میں گھروں،بستیوں اور دیہاتوں کو اجاڑ کر تباہی مچانے کے بعد سیلابی ریلے نے اب سندھ میں زور پکڑ لیا ہے۔ گڈو بیراج پر پانی کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے۔ گھوٹکی اور پنو عاقل میں کچے کے درجنوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں، مکانات گر گئے ہیں اور مکین جان بچا کر علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔پانی کی لپیٹ میں آنے والے علاقوں کا زمینی رابطہ کٹ کر رہ گیا ہے۔یہ پریشان کن صورت حال ان کیلئے تو آزمائش ہے ہی جو براہ راست ان خوفناک سیلابی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے البتہ بحیثیت قوم ہم سب کیلئے بھی یہ قدرت کی طرف سے ایک ٹیسٹ ہے۔ اس ساری صورت حال کو ’’اللہ کی مرضی“ کہہ کے اپنی بد انتظامی اور فرائض منصبی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ بارشیں دنیا کے ہر ملک اور زمین کے ہر خطہ میں ہوتی ہیں۔بارشوں کو باران رحمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی پانی کو محفوظ کرکے کئی ممالک نے پن بجلی بنا کر توانائی میں اپنے آپ کو خود کفیل کیا۔ اسی پانی کو زرعی ترقی کیلئے استعمال کر کے خوراک کی ضرورتوں کو پورا کیا۔ ان ممالک کے حکمرانوں اور ارباب اختیار نے ڈیمز کے ذریعے پانی کو محفوظ کیا اور بوقت ضرورت استعمال میں لائے۔ ڈیموں میں محفوظ پانی سیلاب کی تباہی سے بچانے کے ساتھ ساتھ خشک سالی بھی نہیں ہونے دیتا۔ "Pakistan Council of Research in Water Resources " نے 2016میں رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان میں 1990 میں ہی پانی خاصا کم ہوگیا تھا، جب کہ 2005 میں یہ قلت بہت بڑھ گئی تھی۔انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق، پاکستان کو 14کروڑ50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہر سال موصول ہوتا ہے لیکن وہ صرف 1کروڑ37لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی ہی محفوظ کرتا ہے۔ پاکستان کو 4کروڑ ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے لیکن وہ 2کروڑ 90لاکھ ایکڑ فٹ سیلاب کا پانی ضائع کردیتا ہے کیوں کہ اس کے پاس ڈیموں کی کمی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماریGDP کا 24 فیصد زراعت سے آتا ہے۔ 52 فیصد افراد کا روزگار براہِ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت سے منسلک ہے۔ ہماری برآمدات کا نصف حصہ زراعت پر منحصرہے۔ اچھی زراعت کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ زرخیز زمین، اچھا موسم اور وافر پانی۔ قدرت نے پاکستان کو بہت اچھی زمین فراہم کی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں وسیع زرعی علاقے موجود ہیں۔ بلوچستان کی زمین پھلوں کے لئے بہت موزوں ہے۔خیبرپختونخوا میں گنا، مالٹا اور تمباکو کاشت ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں چاروں موسم ہیں جن کی وجہ سے تین فصلیں سال میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ تیسری اہم چیز پانی ہے۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا اوراہم آبپاشی کانظام موجود ہے۔ پانی کا 75فیصد صرف مون سون کے مہینوں یعنی جون، جولائی اور اگست میں آتا ہے جب شدید گرمی سے برف پگھلتی ہے اور شدید بارشیں ہوتی ہیں۔ پانی کی حفاظت کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے حالیہ دنوں کی طرح سیلابی ریلوں کے ذریعے یہ پانی بہت کچھ ڈبو دیتا ہے۔ اس طرح قدرت کا یہ عطیہ بعض اوقات تباہی کی علامت بن جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پانی کو روکا جائے اور جب ضرورت ہو تو اسے فصلوں کو مہیا کیا جائے۔ سیلابی پانی کو روک کر محفوظ کرنے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ملک میں ڈیم بنائے جائیں۔ پاکستان میں ڈیم بنانا یا ان کی جگہ کا انتخاب ہمیشہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ خاص طور پر سیاسی اور علاقائی وجوہات کی بنا پر کافی متنازع رہا اور اسی وجہ سے کچھ ادوار میں تھوڑی بہت پیش رفت کے باوجود یہ ڈرائنگ بورڈز اور پلاننگ بورڈز تک ہی محدود رہا۔ عموما بڑے ڈیم بنانے کے تین مقاصد ہوتے ہیں۔ اول بجلی پیدا کرنا، دوم آبپاشی کے لیے پانی مہیا کرنا اور سوم سیلابوں سے بچاؤ کے کام آنا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں سیاستدانوں کے علاوہ عدلیہ نے بھی ڈیموں کی متنازعہ سیاست میں قدم رکھا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ایک ڈیم بنانے کا بیڑہ اٹھایا حالانکہ یہ کام کسی طرح بھی ان کی منصبی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا۔ علاوہ ازیں ہمارے ہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے صوبائی سطح پر Provincial Disaster Management Authority جیسے ادارے موجود ہیں لیکن معلوم نہیں کہ کیوں پھر بھی ہر چند سالوں کے بعد سیلابی پانی سے تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیلاب ہر سال ملک میں آتا ہے‘ اس پر اربوں روپے کے فنڈ صَرف کیے جاتے ہیں اور اس کے نقصانات کا باریک بینی سے تخمینہ لگایا جائے تو اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ ریلیف آپریشن پر آنے والے اخراجات سے کم بجٹ میں ڈیم کی تعمیر ممکن ہے‘ ہم سیلاب اور اْس کی تباہ کاریوں کو تاریخ کا حصہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔ اگر چہ قدرتی آفات سے بچا تو نہیں جا سکتا‘ لیکن بروقت منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے انسانی جانوں کا ضیاع کم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرنا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔ ان کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری کے منصوبوں میں تعاون کرنا ہمارافرض منصبی ہے۔ ہمیں علماے کرام کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ نفلی حج اور عمرہ سے سیلاب زدگان کی امداد مقدم ہے اور اس کا اجر وثواب زیادہ ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں سیلاب زدہ بھائیوں کی آباد کاری اور بحالی کے کاموں کو اولیت دینا ہوگی، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی کوتاہیوں، اجتماعی گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب کے حوالے سے اپنے انفرادی او راجتماعی معاملات پر نظر ثانی کریں۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219327 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More