قدامت پسندی یا حقیقت پسندی (انگریزی تعلیم کیوں اور کب؟)

پاکستان ایشیائی ممالک میں انگریزی بولنے والی تیسری بڑی قوم ہے .شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان عالمی رینکنگ میں پہلے سو ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں.

تعلیم کا زبان سے گہرا تعلق ہے. ایک پاکستانی طالب علم اپنی تعلیمی سال کے آغاز سے اختتام تک انگریزی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اوسط 10 سے 12 سال کی انگریزی تعلیم کے باوجود آخر ہمارے طلباء انگریزی بولنے اور لکھنے میں مہارت حاصل کیوں نہیں کر پاتے.اس کی بہت سی وجوہات ہیں نصاب تعلیم سے تدریس تعلیم تک کے سفر میں بہت سے محرکات اس پسماندگی کی وجہ ہیں۔ لیکن آج ہمارا موضوع یہ نہیں بلکہ انگریزی تعلیم کیوں اور کب سے شروع ہونی چاہیے؟ اس پر بات کریں گے۔

موجودہ دور میں انگریزی کی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا. ہم جانتے ہیں کہ انگریزی ایک غالب یا مشترکہ زبانLingua franca ہے۔ دنیا جو ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی علوم کا بیشتر ذخیرہ انگریزی زبان میں موجود ہے ۔ایسی صورتحال میں اس زبان کو سیکھنے سےنئے علوم سے واقفیت کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں ۔لیکن اس بات کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ انگریزی زبان بھی کسی ملک کی ترقی کی ضامن ہے ۔یاد رکھیے ترقی کسی زبان کے سیکھنے سے نہیں بلکہ علوم کے ماہر ہونے پر ہی منحصر ہے۔

مسلمانوں کے عروج کے دور میں کبھی بھی کسی یورپین ملک میں عربی زبان کو سرکاری زبان یا ذریعہ تعلیم بنانے کی پیشکش نہیں کی گئی۔ انگریزوں نے عربی زبان توضرورسیکھی تاکہ مسلمانوں کے علوم سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ عربی فارسی اور دیگر زبانوں کی کتب کے انگریزی ترجمے کیے گئے۔ یعنی مخصوص لوگوں نے عربی زبان میں مہارت حاصل کی تاکہ ان علوم کو باقی عوام تک منتقل کیا جا سکے۔ یعنی تمام قوم پر زبان سیکھنے کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ مگر بدقسمتی سے ہم اب تک یہی کرتےآرہے ہیں اور ہماری نسلیں بھی یہی سمجھتی ہیں۔ انفرادی طور پر ہمارا رویہ بھی یہی ہے کہ انگریزی پڑھے بغیر ہمارا بچہ ترقی نہیں کر سکتا ۔

اب ذرا ایک نظر دیگر ممالک کی طرف ڈالتے ہیں۔ ہر ملک میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں۔کینیڈا، جس میں سات زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگلینڈ میں اسی طرح 20 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن ذریعہ تعلیم صرف انگریزی ہے۔ چین میں چینی طلباء کے علاوہ غیر ملکی طلباء کو بھی چینی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے ۔کوریا کی 70 فیصد یونیورسٹیوں میں کوریائی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں کے طلباء بین الاقوامی سطح پر بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اسی طرح جاپان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں جاپانی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔فرانس میں سرکاری سطح پر تعلیمی پالیسی میں فرانسیسی زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے اور اس پر حکومت سختی سے عمل پیرا ہے جرمنی کی صورت حال بھی باقی ممالک سے مختلف نہیں۔ 50فیصد اعلی تعلیمی اداروں میں جرمن زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔پاکستان میں تقریبا 31 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اعلی تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے ۔ہمارے اسکولز اور کالجز میں انگریزی زبان پڑھانے والے اساتذہ کا معیار تعلیم بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جہاں تک سوال ہے انگریزی تعلیم کس سطح سے شروع ہونی چاہیے اس سلسلے میں دو طرح کے ماہرین کی آراء کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ماہر نفسیات اور دوسرا ماہرین لسانیات۔کوئی بھی زبان سیکھنے کے لئے مسلسل مشق کی ضرورت ہے اور ایسا ممکن نہیں کہ دو سے تین ماہ کے کسی ریفریشر کورس کرکے زبان پر مہارت حاصل کی جا سکے۔ کچھ مہینے مسلسل محنت اورصحیح نصاب کے ذریعے کسی بھی زبان پر عبور حاصل کیا جا سکتا ہے اور دوسری طرف یہ بات بھی مدد نظررہے کہ اگرکسی زبان کو سیکھنے کے بعد دو سال تک استعمال نہ کیا جائے تو آپ اس کو رفتہ رفتہ مکمل طور پر بھول جائیں گے۔ ماہرین لسانیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کو نئی زبان کی تعلیم چھوٹی عمر سے دی جاسکتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچہ اپنی مادری زبان کے ساتھ کوئی دوسری زبان بھی سیکھ سکتا ہے یعنی کیا اسے دونوں زبانیں بیک وقت سکھائی جاسکتی ہیں۔

ہماری مائیں بچوں کو انگریزی کے چند الفاظ اس طرح رٹوا دیتی ہیں جو کہ عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے مثلا جسم کے اعضاء کے نام، وغیرہ بچہ پوچھنے پر انگریزی میں فر فر بتادیتا ہے۔ لیکن جب بچہ اپنی زبان میں ان الفاظ کا تذکرہ کرتا ہے تو کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے ۔وہ بچہ جو ابھی الفاظ سے جملے بنانا بمشکل سیکھ رہا ہوتا ہے جس میں معصوم ذہان میں ابہام کا پیداہوجاتے ہیں۔اسی طرح بچوں میں دیر سے بولنے جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی بچوں کو جانتی ہوں جہاں ایسے بچوں کو جب معائنے یا مشورہ کے لیے speech therapistکے پاس لے جایا جاتا ہے تو انہیں مادری زبان میں بات کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ماہرین نفسیات بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک بچہ اپنی مادری زبان میں خیالات کے اظہار کے قابل نہ ہو جائے اس کو دوسری زبان سکھانے کی طرف توجہ نہ دی جائے.جہاں تک تعلق ہے تعلیم کا تو ابتدائی اور پرائمری درجے تک بچے کو مادری زبان میں تعلیم دینا ہی بچے کی ذہنی استعداد کو بڑھا سکتا ہے۔ علم کے بہتر ادراک اور موثر ترسیل کے لئے مادری زبان کا کردار کلیدی ہے۔اس سے سوچنے سمجھنے اور تخلیقی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔اسی لیے یونیسکو ہر سال 21 فروری کو یوم عالمی مادری زبان مناتا ہے ان کا کہنا ہے کہ
"برسوں کی تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کرتے ہیں شروع سے ہی ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے ان بچوں بنسنت جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔"

آخر میں اگر ہم ان تمام حقائق کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیں اور اپنے آپ کو قدامت پسندی کے خوف سے باہر نکالیں، تو یہ بات عیاں ہے کہ ابتدائی اور پرائمری تعلیم اپنی مادری زبان میں، بعد ازاں کثیر السانی تعلیم دی جائے ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب دو لسانی طلباء کو انگریزی کی تعلیم دی گئی تو نتائج واضح تھے۔ثانوی جماعت کے طلباء نے پرائمری جماعت کے طلباء کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور تیزی سے زبان کو سیکھا۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انگریزی کو سیکنڈ لینگویج کے طور پر پڑھائیں۔ کسی بھی زبان کو ایک مضمون کی طور پر پڑھانے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کو ذریعہ تعلیم بنانا جائے۔ جدید طریقہ ہائے تدریس اور نصاب سے اساتذہ کی تربیت کی جائے تاکہ وہ موثر تدریس سے کم وقت میں انگریزی زبان میں مہارت حاصل کر سکیں۔ دوسری اہم بات کہ اس بات کا تعین ہونا بھی ضروری ہے کہ قومی سطح پر کتنے فیصد انگریزی بولنے اور لکھنے والے طلباء کی ضرورت ہے تاکہ اس کے مطابق طلباءکو مواقع فراہم کیے جائیں اور زبان سیکھنے کا بوجھ پوری قوم پر نہ ڈالا جائے گا۔

سمیحہ شہباز
لیکچرار انگلش لینگویج سینٹر
جامعہ الملک فیصل، سعودی عرب

 

Sameeha Shahbaz
About the Author: Sameeha Shahbaz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.