جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

 آسڑیلیا دنیا کا سب سے چھوٹا بر اعظم ہے اس کے باوجود اس کا رقبہ ہندوستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کے برعکس آبادی کے لحاظ سے دیکھیں تو وہاں صرف ڈھائی کروڈ بستے ہیں یعنی ہندوستان کے مقابلے دو فیصد سے بھی کم ۔ وہاں پر عیسائیوں کی اکثریت ہے یعنی وہ 44 فیصد ہیں ۔ ان کے بعد دوسرے اس کے باوجود آسٹریلیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم البانیز نے اپنی کابینہ کے 30؍ ارکان میں دو مسلمانوں کو شامل کیا ہے یعنی مسلمانوں کی نمائندگی آبادی سے دوگنا زیادہ ہے ۔ ٓسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز آزادی ، جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے اقدار پر طول طویل تقریر نہیں کرتے بلکہ باہمی احترام و اعتماد پر عمل کرکے دکھاتے ہیں کیونکہ بقول غالب ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وطن عزیزمیں خواتین کی بابت لمبے چوڑے دعویٰ کرتے ہیں مگر 78 وزراء میں صرف 11 خواتین ہیں یعنی صنف نازک کی نمائندگی 13فیصد ہے جبکہ آسٹریلیا کی 30 رکنی مجلسِ وزراء میں 13 خواتین شامل ہیں تقریباً 40 فیصد ، یہ بولنے اور کرنے کا فرق ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک خاتون عینی علی اور دوسرے ایڈم نورالدین ہوسک نے آسٹریلیا میں وزراء کے طور پر حلف لے کر ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان کی پندرہ فیصد مسلمان آبادی کو نمائندگی سے محروم کردینا شرمناک ہے آسٹریلیا میں پہلی بار وزیر بننے والے مسلمانوں نے قرآن کریم پر حلف لیا ۔ ایڈ ہوسک کو صنعت اور سائنس کے وزیر کا قلمدان ملا جبکہ عینی علی نے ابتدائی تعلیم اور نوجوانوں کے امور کی وزارت کا حلف لیا۔ نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے حوالے سے یہ دونوں شعبے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ۔ صنعت اور سائنس کے وزیرایڈم نورالدین ہوسک کی پیدائش 3 فروری 1970کو ہوئی ۔ وہ عرف عام میں ایڈ ہوسک کے نام سے مشہور ہیں ۔ آسٹریلوی سیاست میں وہ مغربی سڈنی کی چیفلے کی نشست سے منتخب ہوئے ہیں۔

گیارہ سال قبل 2010 میں آسٹریلوی ایوان پارلیمان کے لیے منتخب ہونے والے وہ نورالدین پہلے مسلمان تھے۔ ان کے والد بوسنیائی مسلمان تارکین وطن میں سےتھے جو 1960 کی دہائی کے آخر میں آسٹریلیا منتقل ہوگئے ۔ نورالدین کے والد، حسیب حسین، ایک ویلڈر اور والدہ حسیبہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ان کا بچپن مغربی سڈنی میں گزرا ۔ تعلیم بلیک ٹاؤن ساؤتھ پبلک اسکول، مچل ہائی اسکول اور یونیورسٹی آف ویسٹرن سڈنی میں ہوئی۔ انہوں نے اپلائیڈ کمیونیکیشنز میں بیچلر آف آرٹس کے ساتھ گریجویشن کیا۔ ابتدائی تعلیم اور نوجوانوں کے امور کی وزیر عینی علی 29 مارچ 1967 کو مصر میں پیدا ہوئیں۔ اس کی ماں نرس اور والد انجینئر تھے۔ جب علی دو سال کی تھی تو وہ اور اس کے والدین نے آسٹریلیا کے لیے ہجرت کی۔ علی کے والد کارخانوں اور بس ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھےمگر عینی نے ایڈتھ کوون یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔

سیاست میں آنے سےقبل عینی علی نے مغربی آسٹریلیا میں خدمت خلق کے کئی کام کیے اورمختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ر ہیں۔اس کے علاوہ وہ انسداد دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے والے ادارے کی اس علاقائی شاخ میں انہوں نے بطور مشیراپنی خدمات پیش کیں۔ عینی علی آسٹریلوی سیاست میں 2016 سے سرگرمِ عمل ہیں ۔ وہ مغربی آسٹریلیا میں کووان کے حلقہ انتخاب سے اپنی پہلی کا میابی کے بعد ،ایوان نمائندگان کی لیبررکن رہی ہے ۔ مسلم رہنماؤں نے آسٹریلیا کی تاریخ میں عینی علی اور ایڈ نورالدین کی حلف برداری کو حکومتی فیصلہ سازوں میں تنوع کی بہترین نمائندگی کا ایک اہم لمحہ قرار دیا ہے۔ حکومتِ ہند کو اس جملے پر عار محسوس کرنی چاہیے کیونکہ یہاں تنوع پر فخر تو جتایا جاتاہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ نہیں ہوتا۔ آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کونسلزکے صدر رطب جنید نےان دونوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ دو مسلمانوں کا حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر خدمات انجام دینا ایک طاقتور اشارہ ہے۔ انھوں نے اسے آسٹریلیا کے لیے ایک بہت مثبت قدم بتایا ۔
رطب جنید کے مطابق آسٹریلیا اب اپنے کثیر الثقافتی اور کثیر مذہبی حلقے کو صحیح معنوں میں قبول کر رہا ہے۔ آسٹریلین مسلم ایڈووکیسی نیٹ ورک کی ریتا جبری مارکویل نے ان دونوں سیاستدانوں کے وفاقی وزارت میں شمولیت کو آسٹریلیا کی جمہوریت کے لیے ایک عظیم لمحہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس دن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم یہ دیکھیں گے۔ جمہوریت کے لیے پارلیمنٹ میں اس تنوع کا ہونا بہت پرجوش اور اچھا ہے۔ یہ لوگوں کو سیاست اور جمہوریت کے قریب لائے گا، یہ لوگوں کو احساس دلائے گا کہ وہ توجہ کا مرکز ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزارت میں مسلم عقیدے کے لوگوں کی نمائندگی معاشرے میں اسلامو فوبیا کے جذبات کے خلاف پیش بندی میں مددگار ثابت ہوگا۔ کیا ہندوستانی سرکار ایک ننھے سے ملک آسٹریلیا سے سے کوئی سبق سیکھے گی ۔ ویسے مسلمانوں کی اس کامیابی پر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے

آسٹریلیا میں حالیہ الیکشن کے اندر ایک اور تاریخ کا رنامہ یہ ہوا کہ فاطمہ پیمان نے مغربی آسٹریلیا کی چھٹی نشست جیت کر پہلی افغان نژاد با حجاب مسلم خاتون بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ 27 سالہ فاطمہ پیمان سینیٹ کی تاریخ کی تیسری کم عمر سینیٹر ہیں۔ انھوں نےکامیابی کے بعد فیس بک پر لکھا کہ ہم جیت گئے، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر ہے کہ میں مغربی آسٹریلیا کے لیے باضابطہ طور پر سینیٹر منتخب ہو گئی ہوں، آپ کی محبت اور حمایت کے لیے آپ سب کا شکریہ!‘‘ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ان کے حجاب پہننے سے الیکشن کو معمول کے مطابق بنانے میں مدد ملے گی نیزکہا ’’یہ صرف اس لیے نہیں کہ میڈیا میں اسلام فوبیا پھیل رہا ہے بلکہ میں چاہتی ہوں کہ وہ نوجوان لڑکیاں جو حجاب پہننے کا فیصلہ کرتی ہیں، وہ حقیقت میں فخر کے ساتھ ایسا کریں، یہ جانتے ہوئے کہ انہیں حجاب پہننے کا پورا حق ہے‘‘۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہندوستان کی سپریم کورٹ میں حجاب زیر بحث ہے اور جسٹس ہیمنت گپتا فریق مخالف کو موقع ہی نہیں دیتے بلکہ خود ان کی وکالت پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے معاندانہ رویہ پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر

فاطمہ پیمان کومبارکباد دیتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون وزیر پیٹرک گورمن نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کی ریاست فاطمہ کو کینبرا کی نمائندگی کے لیے بھیج رہی ہے۔ سینیٹر پیمان ایک ایسی آسٹریلوی مسلمان ہے جس کی ثقافتیں افغانستان سے جڑی ہیں۔ فاطمہ پیمان ۸؍سال کی عمر میں( 2003 ) اپنی والدہ اور تین چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ آسٹریلیا پہنچی تھیں۔ فاطمہ کے والد 2018 میں 47 سال کی عمر میں کینسرکی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔ پارلیمنٹ کے اندراپنی پہلی تقریر میں انہوں نے جذباتی ہوکر کہا کہ کس نے سوچا ہوگا کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی ایک نوجوان عورت اور ایک مہاجر کی بیٹی آج اس پارلیمنٹ میں کھڑی ہوگی؟انہوں نے کہا کہ میرے والد نے اپنے خاندان اور اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر سیکیورٹی گارڈ تک کی ملازمت کی۔فاطمہ نے اپنے حجاب کے بارے میں خدشات کو بھی دور کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حجاب پہننا ان کی پسند ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ مجھے کیا پہننا چاہیے، وہ جان لیں کہ حجاب میرا انتخاب ہے، میں جوان ہوں، میں ترقی پسند ہوں، میں جدید آسٹریلیا کی نمائندہ ہوں۔

عزم وحوصلہ کی پیکرفاطمہ پیمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے والد نے گیارہ دنوں تک کشتی میں آسٹریلیا کا سفر کیا اور اس کی خبر اہل خانہ کو چار ماہ بعد ملی۔ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں بہت کم اجرت دی جاتی تھی اور روزگار کے کے معاملے میں عدم تحفظ کا شکار رہے۔ فاطمہ کاآٹھ برس کی عمر میں پرتھ اسلامی کالج کے اندر پانچویں جماعت میں داخلہ ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیامگر ڈاکٹر بننے کے بجائے سیاست میں آگئیں ۔ فاطمہ پیمان نے اپنے خطاب میں کہاکہ '' مجھے پہلی بار اپنے اجنبی ہونے یا اس معاشرے میں تسلیم شدہ نہ سمجھے جانے کا تجربہ یونیورسٹی میں خود میرے ایک ساتھی طالب علم کی طرف سے میرے حجاب کا مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے ہوا۔ یونیورسٹی تعلیم کے دوران آئے دن 'جہاں سے آئی ہو، وہاں واپس جاؤ‘ جیسے تبصروں یا انتہا پسندانہ رویوں نے یہ محسوس کرنے پر مجبور کر دیا کہ میرا تعلق اس معاشرے سے نہیں ہے۔‘‘
اس حوصلہ شکن رویہ سےوہ نہ دلبرداشتہ ہوئیں اور نہ اپنے اسلامی اقدار سے کنارہ کشی کی۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے تبدیلی کا حصہ بننے کی امید میں رضاکارانہ طور پر کام شروع کیا تاکہ مجھے معاشرے میں اچھائی پھیلاتے ہوئے دیکھا جائے تو شاید مجھے اس قوم میں ایک برابر کا فرد تسلیم کر لیا جائے۔‘‘ فاطمہ کے مطابق، ''ایک پناہ گزین کی بیٹی کے طور پر جو ایک محفوظ اور بہتر مستقبل کے خواب لے کر اس سرزمین پر آئی تھی، میں نے نظام کو چیلنج کرنے اور یہ دیکھنے کی ہمت کی کہ میں کس حد تک تبدیلی لا سکتی ہوں۔‘‘ ایوانِ پارلیمان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ آسٹریلوی سیاست حتیٰ کہ پارلیمانی ایوان بالا بھی اکثر 'اجنبیوں سے بیزاری‘ اور نسلی و مذہبی خوف سے متاثر نظرآتا ہے۔ اس لیےفاطمہ نے اپنے ساتھی ممبران پارلیمنٹ کو چیلنج کیا کہ وہ تعصب، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کو ختم کریں۔ ان امور پر صرف لب کشائی ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔ قابلِ رشک خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنے والی فاطمہ پیمان یقیناً مبارکباد کی مستحق ہیں ؎
یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیرِ مِلّت ہے
یہی قوّت ہے جو صورت گرِ تقدیر مِلّت ہے



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2055 Articles with 1246747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.