قُرآن کا علمی و قلمی اور عملی و قلبی انقلاب !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُزمل ، اٰیت 20 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
ان
ربک یعلم
ان تقوم ادنٰی
من ثلث الیل و
نصفہ و ثلثہ و طائفة
من الذین معک و اللہ یقدر
الیل و النھار علم ان لن تحصوہ
فتاب علیکم فاقرءوا ما تیسر من القراٰن
علم ان سیکون منکم مرضٰی و اٰخرون یضربون
فی الارض یبتغون من فضل اللہ و اٰخرون یقاتلون فی
سبیل اللہ فاقرءوا ما تیسر منہ و اقیموا الصلٰوة و اٰتوا الزکٰوة
و اقرض اللہ قرضا حسنا و ما تقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عند
اللہ ھو خیرا و اعظم اجرا و استغفروا اللہ ان اللہ غفوررحیم 20
اے ہمارے رسول ! آپ اپنے اٙصحاب و اٙحباب کے ہم راہ قُرآن کی تلاوت و سماعت اور کتابت کا جو علمی و قلمی کام کبھی ایک تہائی رات تک اور کبھی آدھی رات تک جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اللہ کے علم میں ہے لیکن اللہ نے دن کے کام اور شب کے آرام کا جو ایک فطری نظام قائم کیا ہوا ہے اُس فطری نظام میں شب کا آرام بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ جتنا دن کا کام ضروری ہے اور اٙب جب کہ قُرآن کی تلاوت و سماعت اور کتابت کا علمی و قلمی کام مُکمل ہو چکا ہے تو اٙب آپ شب کا زیادہ کام دن میں کیا کریں اور رات کو خود بھی زیادہ آرام کیا کریں اور اپنے اٙصحاب کو بھی زیادہ آرام کا موقع دیا کریں کیونکہ اِن میں سے کُچھ اٙصحاب جسمانی طور پر ضعیف اور کم زور ہیں تو کُچھ تلاشِ معاش کے لئے عموما شہر سے دُور جاتے ہیں اور تٙھک ہار کر واپس آتے ہیں اور اِن ہی میں کُچھ وہ جوان اور نوجوان بھی ہیں جو کسی متوقع حملے کے دفاع کی حربی تربیت حاصل کر رہے ہیں اِس لئے اٙب آپ قُرآن کے اتنے ہی حصے کی سماعت و تلاوت اور کتابت کا اتنا ہی کام کریں اور کرائیں جتنا کہ اِس جماعت میں شامل ہونے والے سارے اٙفراد سہولت کے ساتھ کر سکیں لیکن اتباعِ قُرآن کے اُس بُنیادی مقصد کو سب ہمہ وقت پیش نظر رکھیں جو مقصد انسان کو تزکیہِ رُوح و نفس سے گزار کر اُس کے اعلٰی اعمال کو اللہ کے پاس قابلِ واپسی نتائج کے لئے جمع کراتا ہے کیونکہ انسان جو اعمالِ خیر موت کے بعد کی حیات کے لیئے جمع کراتاہے وہ موت کے بعد کی حیات میں اُس کو اضافے کے ساتھ دیئے جاتے ہیں اور اگر تُم اپنے اِن علمی و عملی اعمال کے ساتھ اللہ سے اپنی حفاظت کا سامان طلب کرو گے تو تُم کو حفاظت کا وہ سامان بھی ضرور دیا جائے گا کیونکہ عالٙم کے سارے اٙسباب اُسی ایک مُسبب کی قُدرت میں ہیں !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن جو تٙکمیلِ قُرآن ہے اُس کا مُبتدائے کلام اِس سُورت کی پہلی 19 اٰیات میں بیان ہو چکا ہے اور اُس کا مُنتہائے کلام اِس سُورت کی اِس آخری اٰیت میں بیان ہو رہا ہے اور اِس سُورت کے اِن دونوں مُشترکہ مضامین سے اِس سُورت کا جو ایک حتمی پیغام سامنے آتا ہے اُس حتمی پیغام کی رُو سے قُرآنی تعلیم کا پہلا پہلو اِس کی علمی و قلمی تعلیم کا وہ انقلابی پہلو ہے جس پہلو میں رہ کر انسان پہلے قُرآن کی سماعت و تلاوت اور کتابت کا کام خود سیکھتا ہے اور پھر خود سیکھنے کے بعد دُوسروں کو بھی سکھاتا ہے اور اِس طرح قُرآن کا یہ علمی و قلمی عمل ماضی سے حال کے ساتھ اور حال سے مُستقبل کے ساتھ مربوط ہوتا چلا جاتا ہے اور قُرآنی تعلیم کا دُوسرا پہلو اِس کا وہ عملی و قلبی پہلو ہے جو اُس علمی و قلمی گوشہ نشینی کے بعد انسان سے اِس کتاب کی اُس عملی و قلبی جد و جُہد کا متقاضی ہوتا ہے جو عملی و قلبی جد و جُہد اُس کے علمی و قلمی اٙشجار کو اُس کے اُن عملی و قلبی ثمرات سے مالا مال کرتی ہے جو عملی و قلبی ثمرات اُس عظیم عالمی معاشرے کی وہ مضبوط عالمی بُنیاد قائم کرتے ہیں جس مضبوط عالمی بُنیاد پر سارے عالٙم کی علمی و اٙخلاقی اور نفسیاتی و رُوحانی اٙقدار اُستوار ہوتی ہیں ، جہاں تک قُرآنی تعلیم کے اُس پہلے پہلو کا تعلق ہے تو اُس کی تمہید و تکمیل کا ایک ایک مرحلہ مکے میں ہی مُکمل ہو گیا تھا اِس لیئے نبی علیہ السلام کو اِس سُورت کی اٰیت 2 کے الفاظ { قم الیل الا قلیلا } میں یہ حُکم دیا گیا تھا کہ آپ نے اور آپ کے اٙصحاب و اٙحباب نے قُرآن کا یہ بنیادی علمی و قلمی کام مُکمل کر لیا ہے اِس لئے اِس کام کی تکمیل کے بعد اٙب آپ اُس طویل شب بیداری کو کم سے کم کردیں جو ایک طویل عرصے سے مُتواتر جاری ہے کیونکہ اِس علمی و قلمی کام کے بعد آپ پر اور آپ کے اصحاب پر اِس کتابِ عظیم کی وہ عملی و قلبی ذمہ داری ڈالی جارہی ہے جس سے آپ کی اور آپ کے اٙصحاب و احباب کی قیادت میں وہ عالم گیر معاشرتی انقلاب رُونما ہونا ہے جو انقلاب برپا کرنے کا اللہ تعالٰی نے اِس سُورت کی اٰیت 5 کے الفاظ { انا سنلقی علیک قولا ثقیلا } میں حُکم جاری کیا ہے اِس لیئے اِس عالم گیر انقلاب کا آپ کے اور آپ کے اٙصحاب کے ذریعے بر پا ہونا اٙمرِ لازم ہو چکا ہے اور اِس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک دو ماہ یا ایک دو برس کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طویل وقت طلب اور ایک طویل دقت طلب کام ہے جس میں ایک طویل تدریجی عمل کی ضرورت ہے اور یہ وہی تدریجی عمل ہے جس تدریجی عمل کو اِس سُورت کی اٰیت 4 میں قُرآن کی ترتیل کے پُر حکمت عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے لیکن اہلِ روایت نے اِس پُر حکمت کلام و عنوانِ کلام سے بھی یہ اٙحمقانہ مفہوم کشید کر لیا ہے کہ آپ چونکہ قُرآن کے الفاظ پڑھتے ہوئے قُرآن کے الفاظ جلدی جلدی ادا کیا کرتے تھے اِس لئے اللہ نے اِس اٰیت میں آپ کو قُرآن کے الفاظ و اٰیات کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حُکم دیا ہے لیکن یہ ایک خرافاتی خیال ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ایک سات آٹھ برس کا بچہ جو ایک اٙچھے اُستاد سے قُرآن کے حروفِ تہجی کا پہلا قاعدہ سمجھ کر پڑھ لیتا ہے تو وہ قُرآن کو قُرآن کے لازمی رموزُالاٙوقاف کے ساتھ لازمی طور پر پڑھنے کے قابل ہو جاتا ہے تو پھر یہ کس طرح باور کر لیا جائے کہ اہلِ روایت کی روایات کے مطابق رسول اللہ جو ہر سال جبریل سے خود قُرآن سُنتے تھے اور جبریل کو خود بھی قُرآن سناتے تھے تو اِس کے باوجُود بھی آپ کو قُرآن کی تکمیل تک یہ تک معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ قُرآن کے الفاظ کو کس طرح ادا کرنا ہے ، اسی طرح اہلِ روایت نے اِس سُورت کی اٰیت 2 میں دیئے گئے { قم الیل الا قلیلا } کے مُجمل اور اِس سُورت کی آخری اٰیت کے مُفصل حُکم سے بھی قُرآن کی سماعت و تلاوت اور قُرآن کی کتابت کا عقلی و فطری مفہوم اخذ کرنے کے بجائے یہ غیر عقلی و غیر منطقی مفہوم اخذ کیا ہے کہ اِس اٰیت میں اللہ نے آپ کی اور آپ کے اٙصحاب کی با جماعت نماز تہجد اٙدا کرنے کا ذکر کیا ہے اور چونکہ اِس سارے سلسلہِ کلام میں تہجد کا کہیں پر کوئی ذکر نہیں ہے اِس لِئے اِس سُورت کے اِس بیانُ مُفصل و مُفسر کو اُنہوں نے سُورٙةُالاٙسرا کی اُس اٰیت 79 کے ساتھ جوڑ دیا ہے جس میں لفظ تہجد آیا ہے حالانکہ لفظِ تہجد کا معنٰی بھی انسان کا جاگنا نہیں ہے بلکہ انسان کا سونا ہے لیکن انہوں نے چونکہ قُرآن کے ہر حُکم کا خود پر انکار لازم کیا ہوا ہے اِس لیئے اِس لفظِ تہجد کی بھی اُنہوں نے یہ مردُود تاویل کی ہے کہ لفظِ تہجد کا معنٰی تو اگرچہ انسان کا سونا ہی ہے لیکن جب اِس لفظِ تہجد کا مادہ "ہجُود" بابِ تفعل میں آتا ہے تو انسان کو سونے سے اجتناب کا معنٰی دیتا ہے لہٰذا تہجد کا معنٰی سونا نہیں ہے بلکہ جاگنا ہے ، ہمیں اُن کے اِس قاعدے کی صحت پر کوئی شُبہ نہیں ہے لیکن جس جگہ پر انہوں نے یہ قاعدہ جاری کیا ہے اُس جگہ پر اگر اِس قاعدے کا اجرا درست مان لیا جائے تو پھر غیُوب و شہُود اور اِن کے سجُود و قعُود کے برج بھی زمیں بوس ہو جائیں گے لہٰذا حقیقت بہر حال یہی ہے کہ اِس سُورت کی ابتدا سے لے کر انتہا تک جو کُچھ بیان ہوا ہے اُس کا مُدعا یہ ہے کہ کُچھ ہی عرصے بعد رسول و اٙصحابِ رسول نے شہرِ مکہ سے ہجرت کر کے شہرِ مدینہ میں جانا ہے اور اُس شہر میں جا کر اُس شہر میں قُرآن کا وہ عملی و قلبی ، معاشرتی و تمدنی اور اٙخلاقی و رُوحانی انقلاب برپا کرنا ہے جس انقلاب کے لیئے محمد علیہ السلام پر قُرآن نازل ہوا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463087 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More