رسول اللہﷺ سے نسبت و تعلق کے تقاضے اور تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ

 عہدِ رواں میں ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی و توہین روز مرّہ کا معمول بن چکی ہے، مقتضائے وقت ہے کہ سیرتِ نبوی ﷺ سے مسلمانوں کو قریب کیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی مستشرقین کی جانب سے توہینِ رسالت کی جاتی ہے، کبھی پادریوں اور آریوں کی طرف سے یہی حرکت ہوتی ہے، تو کبھی فن اور آرٹ کے نام پر کارٹونسٹ تشدد بھرا اعلان دیتے ہیں۔ کبھی آزادیِ اظہار کے نام پر جرأت کی جاتی ہے۔ کیا آزادی اِسی کا نام ہے کہ جھوٹی باتیں روشن سیرتوں سے منسوب کی جائیں؟ غلط بیانی؛ منوّر ذات سے متعلق گڑھی جائے؟ کچھ یہی معاملہ برصغیر کا ہے جہاں شاتم و گستاخِ رسول کو بھرپور آزادی ہے۔ آریاؤں کے فتنے، پنڈتوں کے منفی ری مارک، سیاسی بازی گروں کی جسارت، ہند میں فرقہ پرست عناصر کے ذریعے شاتمانہ بیان بازی، دوسری سمت ایک مملکت میں تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ کے لیے وضع قانون سے مسلسل انحراف؛ ایسے پہلو ہیں کہ اگر ہم نے اپنی نسلوں کے اندر محبت رسول ﷺ کا جذبہ راسخ نہیں کیا تو کل اِس سے زیادہ ناگفتہ بہ حالات کا خدشہ ہے اور ایمان کی بربادی کا اندیشہ۔

سیرت سے متعلق ذمہ داری: سیرتِ طیبہ سے نسبت و تعلق کے تقاضوں کی بجا آوری میں کمی بھاری غلطی ہے؛ جس کا خمیازہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ نظامِ تعلیم میں بھی دین سے دوری کا بہت کچھ مواد شامل ہے۔ دہریت، لا اَدریت، آزاد روی کی لہر نے دین بیزار فکر رواج دی ہے۔ ایسے میں گھروں میں دینی ماحول کی پرورش، بچوں کی دینی تربیت، سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کا لازمی مطالعہ، سیرت سے متعلق مستند لٹریچرز کا انتخاب، عظمتِ رسالت کے پہلوؤں کا خصوصی مطالعہ تا کہ دل میں محبت و تعظیم رسول ﷺ کا نقش جمے، یوں ہی ایسے معمولات بھی رواج دیے جائیں جن کی بنیاد پر رسول کریم ﷺ سے تعلق میں پختگی آئے۔ تا کہ نسبتوں کی بہاریں خزاں کے جھونکوں سے متاثر نہ ہو سکیں۔

جذبات کی سمت: قوم بڑی جذباتی ہے۔ کبھی شورش کے وقت بیدار ہو کر مناسب کبھی غیر مناسب اقدام کرتی ہے۔ پھر خوابِ غفلت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں عقل و عشقِ رسول میں باہم ربط ضروری ہے۔ مثال سامنے ہے گستاخوں کے خلافِ اسلام بیانات، سیرت مخالف ری مارک سے متعلق وقتی احتجاج درج کروائے گئے۔ نہ ہی ہم نے کوئی ٹھوس اقدام کیا، نہ ہی قانونی معاملات میں سنجیدہ پیش رفت کی، اس بابت کمیاں یہ رہیں:

[۱] قانونی معاملات سے پہلو تہی اِس لیے ہوئی کہ وہ صبر آزما مرحلہ ہے، ہم سے مستقل پیش رفت نہیں ہوتی۔
[۲] بلکہ شاتمین کی توہین پر ملک کے درجنوں مقامات پر درج ایف آئی آر سے متعلق بے اعتنائی رہی۔ اس درمیان شاتمین عالمی صہیونی طاقتوں کے زیر اثر اپنے لیے ماحول سازی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بعد کو معاملہ تعطل کا شکار رہتا ہے-
[۳] جدوجہد بھی صبح تا شام، اگر ان میں صبر، دوام، استقرار ہوتا، اسلاف کی طرح ہم مستقل و منظم و پُر امن جدوجہد جاری رکھتے تو شاید اقتدار جھکنے پر مجبور ہوتا، لیکن لمحاتی کوشش کا اختتام جھوٹے اعلانات پر ہوتا ہے، تسلی و تشفی کے دوبول پر قوم پھسل جاتی ہے۔ دوسری سمت ایسا بھی ہوا کہ جمہوری و پُر امن جدوجہد کو آمریت سے کچل دیا گیا اور درجنوں افراد زنداں کی تاریک وادیوں میں ڈھکیل دیے گئے-

میلاد مصطفیٰ ﷺ اعادۂ عہد کا لمحہ: الحمدللہ! ہمیں پھر اللہ کے پیارے محبوب ﷺ کا یومِ ولادت منانے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ وہ مقدس دن جسے ہم یومِ انسانیت، عیدوں کی عید سے تعبیر کرتے ہیں، جس دن ساری انسانیت کو آزادی ملی، کفرو شرک کی موت کا دن ہے میلادِ مصطفیٰﷺ۔ جتنے باطل مذاہب و ازم تھے سب پر اوس پڑ گئی- اعلیٰ حضرت پیارا مضمون رقم فرما گئے؎

جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

ہاں! یوم میلادالنبی ﷺ پر عہد کیجیے، اعمالِ صالحہ کی انجام دہی کا، اسلامی تعلیمات پر عمل آوری کا، اپنے دین کی حفاظت کے لیے قربانی و ایثار کیا اور اس دن ان ذمہ داریوں کا احساس بھی کیجیے کہ:

[۱] باطل قوتوں کے مقابل اسلام کی روایت و شعار کی بقا کے لیے ہم ناقابلِ تسخیر قوت بن کر اُبھریں گے۔
[۲] اپنی زندگی کو احکام خداوندی کے مطابق اور رسول کریم ﷺ کے طریقوں پر گزاریں گے۔
[۳] گستاخانِ بارگاہِ رسالت کے عزائم کے مقابل محبت رسول ﷺ کی عظیم قوت سے جہاں میں اُجالا برپا کریں گے۔
[۴] غلامیِ رسول میں ہر دُکھ گوارا کریں گے؛ لیکن ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی کا معاملہ قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ (یعنی قانونی اقدامات سے گستاخوں کی گرفت کریں گے-)
[۵] رسول پاک ﷺ کے طریقوں پر زندگی گزاریں گے تا کہ تمام خلافِ اسلام راہوں کی عملی مذمت ہو۔
[٦] شریعت پر عمل کریں گے؛ تا کہ شریعت مصطفیٰ ﷺ کے خلاف قوانین دَم توڑ جائیں۔
[۷] رسول اللہ ﷺ کے مبارک اخلاق کی سمت گامزن ہوں گے تا کہ مخالفینِ بارگاہِ رسالت کے غیراخلاقی مشن کو سبوتاژ کر سکیں۔
[۸]تعظیم مصطفیٰ ﷺ والے معاملات کو فروغ دیں، کہ دُشمنانِ اسلام کی سازش تعظیم نبی سے مسلمانوں کو دور کرنا ہے، مثلاً جب نام محبوب ﷺ آئے تو مکمل بیدار ہو کر ادب کی پوزیشن سنبھال لیں۔ باوضو نامِ اقدس لیں، جہاں تعظیم نبی ﷺ میں قیام ہو وہاں بھی ادب کو فوقیت دیں، والہانہ نغماتِ سلام کا احترام کریں، جیسے ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے دُنیا دار بھی جب "مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ پہ لاکھوں سلام" پڑھا جاتا ہے تو حالتِ ادب میں آجاتے ہیں، اس لیے اعلیٰ حضرت کے سلام و نعت کو اردو طبقے میں ضرور عام کریں تاکہ رسول پاک ﷺ کی نعتوں سے بزمِ ایماں میں خوش بو پھیل جائے اور وجودِ مومن مہک مہک اُٹھے۔
[۹] معاشرے میں غریبوں کی دل جوئی کی جائے تا کہ میلاد النبی ﷺ کی بہاروں میں غریب بھی سنّت نبوی ﷺ کے تصدق خصوصی برکات سے محروم نہ رہیں اور انھیں یہ احساس رہے کہ میلادالنبی ﷺ کی ساعتوں میں ہماری داد رَسی ہوتی ہے۔ جیسے نوری مشن ہر سال مالیگاؤں میں مساکین کی دل جوئی کے لیے راشن کٹ مع کتبِ سیرت تقسیم کرتا ہے۔
[۱۰] بے روزگاروں کو برسرِ روزگار بنایا جائے۔
[۱۱] قوم کی یتیم بچیوں کے مسائل کا تصفیہ کیا جائے۔ تا کہ ان کی عقیدتوں کا قبلہ کوئی منحرف نہ کر سکے اور یتیموں کے ماوا و ملجا کے احسانات انھیں ایمان کی تازگی پہنچائیں۔
[۱۲] بیماروں کی مزاج پُرسی کریں، صاحبِ مال علاج کے مصارف برداشت کریں۔ میلادالنبی ﷺ کی ساعتوں میں مریضوں کی عیادت کریں تا کہ مقدس دن کی دل جوئی انھیں بارگاہِ رسالت ﷺ کے احسانات کی یاد دہانی کے لیے مہمیز دے۔
اللہ تعالیٰ! ہمیں مفید و صالح اُمور کی انجام دہی کی توفیق دے۔ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے فکرِ مغرب و اسیرانِ ہوا و ہوس کے مقابل دین پر استقامت دے۔ ہمیں چاہیے کہ فتنۂ ارتداد کے مقابل مذہبی ذمہ داریوں کا احساس کریں تا کہ ارتداد کی لہریں دَم توڑ جائیں اور اسلام کا حقیقی حسن عملی زندگی سے ظہور پذیر ہو۔ اس جانب بیداری رہی تو فکرِ خام کی مدھم کرنیں نگاہوں کو خیرہ نہ کر سکیں گی اور سرمۂ حبِ رسول ﷺ نگاہوں کو نور نور بنا دے گا؎

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.