میرا چینل


میں نے آج کل Youtube پر اپنا ایک چینل شروع کیا ہوا ہے۔یہ چینل تعلیمی اور معلوماتی چینل ہے۔شروع میں، میں لمبے لمبے لیکچر اس پر اپلوڈ کرتا رہامگر وقت ،جو ہر انسان کا بہترین استاد ہے ، نے یہ بتایا کہ جتنی چھوٹی وڈیو ہو اتنی ہی لوگوں کے لئے قابل قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ اب میں کوشش کرتا ہوں کہ ہر موضوع کو جس قدر مختصر بیان کر سکوں ، کروں تاکہ لوگ پڑھیں بھی لیں اور بات سمجھیں بھی۔ لمبی عبارت لوگ پڑھتے ہی نہیں اور پڑھ بھی لیں تو غور نہیں کرتے۔پروفیسر قاضی اکرام بشیر ایک معروف استاد ہیں میرے پرانے ساتھی، پیار اور محبت ان کا وصف ہے۔میں ان کا مشکور ہوں کہ اس چینل کو شروع کرنے کا مشورہ ان کا تھا اور آج بھی وہ روز مجھ سے بات کرتے ، اپنے مشوروں سے نوازتے اور ہر قدم پر میری رہنمائی کرتے ہیں۔ مشہور صحافی اور بے پناہ صحافیوں کے استاد جناب حافظ شفیق الرحمان عمر اور تعلقات کے لحاظ سے میرے چھوٹے بھائی ہیں مگر صحافت میں ایک بڑا نام، صحافی ہونے کے ناطے مجھ جیسے ناتجربہ کار لکھاڑی سے بدرجہا بہتراور استاد صحافی ۔ میرے ان کے سٹو ڈنٹ لائف سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ جب میں دن میں کالم لکھتا تھا اس وقت وہ وہاں ایڈیٹر تھے۔وہ میری ہر وڈیو پر مجھے داد دیتے اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں،جو میرے لئے ایک بڑی قوت کا باعث ہے۔میں ان کے اس پیار کا ہمیشہ ممنون رہوں گا ۔بہت سے اور دوسرے لوگ بھی میری حوصلہ افزائی میں ، میری عملی مدد میں اور اپنی دعاؤں میں میرے ہم رکاب ہیں۔ ہر ایک کا نام لینا مشکل ہے مگر میں ان کی محبتوں اور مہربانیوں کے بار تلے خود کو محسوس کرتا اور خوش ہوتا ہوں۔

بہت سے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں لوگوں میں تحریک پیدا کرنے والی باتیں کروں ایسی باتیں جن کے کرنے والے موٹیویشنل سپیکر (Motivational Speaker) کہلاتے ہیں۔ اچھا مشورہ ہے مگر ایسے زیادہ تر مقرر لوگوں کو کچھ دیتے نہیں صرف لچھے دار باتیں کرکے لوگوں کا دل بہلاتے ہیں۔ یہ کام امریکہ سے شروع ہوا تھا اور امریکی سپیکرز سے متاثر ہو کر یہاں بھی لوگوں نے اس کی ابتدا کی ۔ پچھلے پندرہ سا ل میں نے مینجمنٹ کے طلبا کو پڑھایا ہے ۔ اس وقت ان میں سے کم از کم تین سو بچے یہی کام کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ بہت اچھے ہیں مگر یہاں کوئی مواد کو نہیں دیکھتا، بس جس کا چورن بہتر بکنا شروع ہو جائے وہی مقدر کا سکندر ہے۔ میں ایک استاد ہوں، اور کسی بھی بچے کو موٹیویٹ کرنا استاد کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ یہ کام استاد کی ایک عادت بن جاتا ہے۔ میں سبمجھتا ہوں کہ جس استاد میں ایسی خوبیاں نہیں ہوتیں وہ مکمل استاد نہیں ہو سکتا۔

میں آج کے دور کے حوالے بہت پڑھا لکھا نہیں ہوں ۔ میرے پاس موقع تھے مگر میں نے جان بوجھ کر پی ایچ ڈی نہیں کی تھی۔مگر آج پی ایچ ڈی والوں کا طوطی بولتا ہے۔لیکن وقت بدلتا رہتا ہے۔ کبھی پروفیسر ہونا علمیت کی نشانی تھی ۔ پروفیسر سے بات کریں تو تسلی ہوتی تھی کہ کچھ علم میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ و ہ پروفیسر پی ایچ ڈی نہیں ہوتا تھا۔ بہت سے نان پی ایچ ڈی حضرات نے دس دس پی ایچ ڈی پروڈیوس کئے۔ آج علمیت پس منظر میں چلی گئی ہے۔پروفیسرہونے کے لئے پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے ۔ یہ کاغذ کا ٹکڑا آپ کو گریڈوں کی انتہا پر لے جاتا ہے۔ علمیت، تو اس کی بات مت کریں، علم کا پی ایچ ڈی سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ پڑھانے کی بات کریں تو زیادہ لوگ کبھی بھی گنے چنے مخصوص موضوعات کے علاوہ بات کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے بات کرکے یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی رب العزت ہمارا رازق ہے۔پی ایچ ڈی حضرات جس انداز میں اپنی ڈگریوں کے ساتھ سلوک کر رہے ہیں لگتا ہے کہ تعلیم کا ستیاناس شاید دنوں کی بات ہے۔تعلیم کا سفینہ انہی پی ایچ ڈی حضرات کی لیاقت کے سبب انہی کے ہاتھوں ڈوبنا ہے بس کچھ انتظار۔

ہمارے محلے میں ایک موچی نے جوتے مرمت کرنے کی دکان کھولی ۔ عجیب دکان تھی ۔ سج دھج ، چمک دمک اور صفائی ستھرائی میں وہ دکان ہمارے پلازوں میں بنی بڑی بڑی دکانوں کو مات کر رہی تھی۔ دکان کے اندر زبردست قسم کی جدید مشینیں نظر آ رہی تھیں۔ایک صاحب انگریزی سوٹ پہنے ، ٹائی لگا ئے زبردست کرسی میز رکھے اور میز پر مشینیں سجائے ، شیشے کے پار بیٹھے ،گاہکوں کے انتظار میں تھے۔ جوتا مرمت کرانے کوئی غریب آدمی ان کی دکان میں گھسنے لگتا تو اسے باہر نکال دیتے کہ دیکھو باہر لکھا ہے کہ میں کون ہوں۔ میرے پاس اچھے اور نسلی جوتے مرمت کے لئے لے کر آؤ۔ ان کی شہرت سن کر میں بھی ان سے ملنے گیا۔ دکان کے باہر ان کا نام اور پی ایچ ڈی لکھا ہوا تھا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے دکا ن میں قدم رکھا تو بڑے تپاک سے انہیں نے میرا استقبال کیا۔غور سے میرے ٍبوٹوں کو دیکھا اور کہنے لگے فقط چار سو روپے لونگا اور آپ کے جوتے بالکل نئے ہو جائیں گے۔میں نے کہا، بھائی یہ پاکستان ہے جہاں چار سو روپے میں نیا جوتا مل جاتا ہے۔کہنے لگے مل جاتا ہے مگر میں آپ کے جوتے کی بات کر رہا ہوں ۔یہ امپورٹڈ اور قیمتی جوتا ہے مگر آپ نے اس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ چار سو روپے میں نیا ہوجائے کوئی برا سودہ نہیں۔میں نے وعدہ کیا کہ ایک آدھ دن میں مرمت کے لئے آؤں گا۔
میں نے پوچھا آپ پی ایچ ڈی ہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولے سو فیصد۔ میں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیاں تو اس کاغذ کی محتاج ہیں ۔ آپ کوئی یونیورسٹی جائن کریں اور اگر کوئی اچھا حوالہ حکومت میں ہو تو وائس چانسلری آپ کو ڈھونڈھ رہی ہو گی۔ کہنے لگے آپ صحیح کہتے ہیں مگر میں نے پی ایچ ڈی ’’جوتے ٍبنانے اور انہیں سنوارنے‘‘ پر کی ہے۔ ہر مضمون جو آپ سیکھیں وہ عملی تجربہ مانگتا ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں باتیں کرنے اور زبانی جمع خرچ کرنے پر ڈگری کو مان لیا جاتا ہے۔دوسراپاکستان کی یونیورسٹیوں میں یہ میرا مضمون ابھی متعارف نہیں ہوا۔ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ انڈسٹری آپ کی مکمل بند ہے۔اس لئے مجبوری ہے ۔ میں نے یہ تجربہ کیا ہے ۔ مگر کچھ اچھا رزلٹ نہیں۔ آپ دیکھیں میں دستانے پہن کر کام کرتا ہوں۔ یہاں لوگ وہ جوتی مرمت کے لئے لاتے ہیں کہ چاہے چار دستانے پہن کر اسے چیک کرو۔ اس جوتی میں اس قدر بدبو ہوتی ہے کہ دستانوں کے اندر بھی گھس جاتی ہے۔ دستانے اور میں دونوں جذباتی ہو جاتے ہیں،اسی لئے کسی گندی جوتی والے کو میں دکان میں گھسنے نہیں دیتا۔ میں نے کہا ابھی تک کتنے گاہک آئے۔ کہنے لگا ایک مہینے میں آپ جیسے چار آئے مگر آئندہ آنے کا وعدہ کرکے دوبارہ نہیں آئے۔ پندرہ دن بعد میں نے دیکھا اس کی دکان بند تھی اور باہر بورڈ لگا تھا ۔کرایے کے لئے خالی ہے۔ سوچتا ہوں پڑھائی کا معیار اگر ہماری یونیورسٹیوں میں اگر ایسا ہی رہا ، پی ایچ ڈی حضرات سوٹ اور بوٹ چمکا کر بغیر علم کے یونیورسٹیوں کا معیار بلند کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہے تو یونیورسٹیوں کا زبوں حالی کے سبب بند ہونا لازمی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس صورت میں یونیورسٹیوں کے باہر کیسا بورڈ لگانا مناسب رہے گا۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445040 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More