ظلم کرنے اور کرانے سے بچیں ……یہ گناہ عظیم ہے�

آجکل معاشرے میں لوگوں میں بے جا ظلم و زیا دتی عام ہو چکی ہے،ناجائز کیس،کسی کا مال غضب کر نا،پڑوسیوں کو پریشان کرنا،کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا،مارپیٹ کرنا،گالم گلوچ کرنا،کمزوروں پر زبا دازی اور ہاتھ درازکرنا، اس طرح کے کئی اور مظالم و گناہ ایسے ہیں جن کو ہم گناہ تصور ہی نہیں کرتے ،بلکہ اس پر ڈٹ جاتے ہیں کہ میں نے ٹھیک کیا ہے،جو اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے،جسکے بعد مصائب و مشکلات وہ انسان گھر جا تا ہے،معاشرے میں آجکل ظلم و زیا دتی غریب سے ہی کی جاتی ہے جو ناقابل معافی جرم ہے ، لوگوں میں ظلم عام ہے جب کہ قرآن کریم اور احادیث میں ظلم کی مذمت اور ظالموں کے برے انجام کو بڑے شدومد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ظلم کواﷲ نے لوگوں پرحرام کر رکھا ہے، حدیث قدسی ہے، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اورتم میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ظلم وزیادتی کو حرام کر رکھا ہے اس لئے دیکھوتم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرنا (صحیح مسلم)حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاظلم سے بچو! کیونکہ قیامت کے دن ظلم ظلمات وتاریکیوں کا باعث ہوگا، اور بخل،شہہ ، طمع ولالچ سے بچو! کیونکہ شہہ نے ان کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے گزرے، یہ وہی چیز تھی جس نے انہیں خون ریزی اور ہتک حرمت پر آمادہ کیا (صحیح مسلم) آئمہ لغت کا اس بات پراتفاق ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا ظلم ہے۔ظلم کی تین قسمیں ہیں انسان اپنے رب کے ساتھ ظلم کرے جس کی صورت یہ ہے کہ وہ اﷲ کے ساتھ کفر کرے، فرمان الٰہی ہے اورکافر لوگ ہی ظالم ہیں(البقرہ )اس کی عبادت میں شرک کرے جس کی شکل یہ ہے کہ اس کی بعض عبادتوں کو غیر اﷲ کے لئے پھیر دے اور شرک کے بارے میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے (سورہ لقمان آیت: 13)اس کائنات میں سب سے بڑا ظلم خالق کائنات کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ظلم کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر ظلم کرے وہ اس طرح کہ انسان خواہشوں کی پیروی کرنے لگ جائے، واجبات میں کوتاہی اورسستی کرے، اپنے آپ کو انواع واقسام کی جرائم، برائیوں اورگناہوں میں ملوث کرلے جوکہ اﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح نافرمانیاں ہیں، فرمان الٰہی ہے ان پراﷲ تعالیٰ نے کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پرظلم کرتے رہے(سورہ نحل آیت: 33)ظلم کی تیسری قسم یہ ہے کہ انسان اﷲ کے بندوں اورمخلوقات پر ظلم کرے جس کی صورت یہ ہے کہ لوگوں کامال ناحق کھایا جائے، انہیں ظلما مارا جائے، گالی گلوچ دیا جائے، زیادتی کی جائے، کمزوروں پر ہاتھ دراز کیا جائے،ظلم عموماً کمزورآدمی کے ساتھ ہوتا ہے جو انتقام لینے پرقادرنہیں ہوتاظلم کی کچھ اورشکلیں جو انسان اﷲ کے بندوں اورمخلوقات پرکرتا ہے،حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے ایک بالشت کے برابر بھی کسی کی زمین کو ظلما لے لیا تو (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا (صحیح بخاری ) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایانبی اکرمﷺ نے فرمایامال دارآدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے (صحیح بخاری ومسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایااﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پرعہد کیا اوروہ توڑ دیا، دوسراوہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اورتیسرا وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی (صحیح بخاری )حضرت سیدنا معاذ بن جبلؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرما یا مظلوم کی بددعا سے بچو! بلاشبہ اس کے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی(بخاری کتاب المظالم و الغصب)اس کے علا وہ عبداﷲ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ اما م الا نبیاء حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ سے (لوگوں کو برملا نصیحت کرتے) سنا،لوگو! مظلوم کی بددعا سے بچو! اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ اس کی آہ و بددُعا اور اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہوتی(مسند احمد)حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺنے حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو یمن بھیجا تو ان اسے ارشاد فرمایا مظلوم کی بد دعا سے بچے رہنا، کیونکہ اس کے اور اﷲ کے درمیان کوئی پردہ (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے،نبی کریم ﷺہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو ظلم کے ارتکاب سے سخت تنبیہ فرماتے رہتے تھے اور انہیں ظلم کے برے نتائج اور دردناک اثرات سے آگاہ فرماتے رہتے تھے، نیز دوسری طرف مختلف جائز طریقوں سے مظلوم کی نصرت وحمایت کرنے، دوسروں کی عزت و آبرو، ان کی واملاک وجائداد کی حفاظت کرنے اور ہر حال میں لوگوں کے درمیان عدل وانصاف قائم کرنے پر ابھارتے رہتے تھے، اور انہیں بتاتے کہ مظلوم کی دعا کے لیے آسمان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں لہٰذا اس کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ہے، کیونکہ جس طرح سے اﷲ تعالیٰ نے اپنی ذات کریمہ کے اوپر ظلم کو حرام فرما لیا ہے اسی طرح سے اس نے لوگوں کے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے، چنانچہ جو ظلم وستم کرتا ہے اسی کے اوپر اس کے ظلم وستم کا وبال آ گرتا ہے۔نبی کریم ﷺکے فرمان کیونکہ اس کے اور اﷲ کے درمیان کوئی پردہ (یعنی رکاوٹ) نہیں ہے کا مطلب ہے کہ اس کی دعا بنا کسی قید وشرط کے قبول ہوتی ہے اور اسے سیدھے اﷲ کی بارگاہ میں قبولیت کا پروانہ ملتا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ حق کا فیصلہ فرمائے، چنانچہ جب مظلوم اﷲ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے اور وہ قبولیت کا یقین رکھتا ہے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔پس معلوم ہوا کہ سب گناہوں میں سے ظلم ایسا بے رحم گناہ اور بدتر خطا ہے کہ چاہے کافر کے ساتھ بھی کیا جارہا ہو تو اﷲ کریم کو برداشت نہیں۔ لہٰذا ہر حال میں ظلم سے بچنے کی تاکیدی وصیت فرمائی گئی ہے اﷲ رب العزت ہم سب کو ظلم سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہمارے اندر فکر آخرت پیدا فرمائے


 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 159496 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.