موجودہ نوجوان نسل میں اقبال شناسی کی ضرورت

علامہ اقبال ٩ نومبر ١٨٧٧ء میں سیالکوٹ میں پیدا ھوے۔علامہ اسلامی تاریخ میں ان چند شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں جن کو عالمی شہرت حاصل ہویی۔ان کے فکری اثرات پورے عالم پر چھاے ہوے ہیں۔علامہ اقبال ایک شاعر ،ادیب ،فلسفی اور مفکر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔علامہ اقبال کی فکر محض قران و سنت کی ترجمان اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی خواہشمند ہی نہیں بلکہ وہ امت مسلمہ کے ہر فرد کو اسلام اور مسلمانوں کی تابناک و روشن ماضی سے روشناس کراکے ان کو حوصلہ شکنی و پستی کی فضا سے آذاد دیکھنا چاہتی ہے اور ان میں اپنے اسلاف کی سنہری یادوں کو تازہ کرکے اسلامی انقلاب کی تڑپ پیدا کرنا چاہتی ہے۔

رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلادے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپادے مجھے

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پایی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

یہ فکر نوجوانوں کو'' شاہین ''سے مماثلت فرماکر ان میں شاہین جیسی راہبانہ,ذاہدانہ اور درویشانہ صفات کا حامل بنانا چاہتی ہے اور اپنے شعلہ نما الفاظ ادا کرکے ان میں بلند پروازی ,خوداری ,آذادی پسند اور سخت کوشی جیسی صفات کی خواہشمند ہے۔اسی کام کیلیے علامہ نے اپنی زندگی وقف کردی۔

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہوگا

مسلمانوں کو مایوسی جیسی مہلک مرض سے نجات اور چھٹکارا دلانے کیلیے اقبال ایک عظیم مسیحی ثابت ھوا اور امت مسلمہ کو ''انتم الاعلون ان کنتم مومنین '' کی صداقت پر ابھارا۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی ذرخیز ہے ساقی

سفینہ برگ گل بنالے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش ,مگر یہ دریا سے پار ہوگا

علامہ اقبال مغربی تہذیب اور نظام کیلیے ایک بہت بڑے اور کامیاب ناقد کی حیثیت سے ابھرے۔چونکہ انھوں نے مغربی تہذیب کو بہت ہی قریب سے دیکھا تھا اس نے اس تہذیب کی بنیادوں کو ہی شاخ نازک کہہ کر ناپائدار قرار دیا۔مغربی طرز زندگی سے متاثرین کیلیے وہ مثل آیینہ ہے جو ان کو اس نظام کی اصلیت و حقیقت دکھاتا ہے۔اس کے برعکس وہ دین اسلام کے دیے ہوے اصولوں اور طرز زندگی میں ہی انسانیت کی فلاح و بہبود کا دعوادار ہے۔چونکہ اس نظام کے بارے میں ایک جگہ کیا خوب فرمایا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہزیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا

علامہ اقبال انفرادیت و فرقہ فرستی کے بڑے مخالف تھے۔وہ اس کو مذموم ٹھہراکر قومی وملی اتحاد و مفاد کے داعی تھے۔چونکہ وہ مسلمانوں کو ایک امت بن کر فرقہ پرستی سے اپنا دامن بچانے اور اپنی ذاتی پہچان کو ایک دوسرے میں گم کرکے ایک قوم بن کر رہنے کے دعوت دیتے تھے۔چوںکہ اس وقت جس چیز کی وجہ سے یہ امت پستی و خواری میں ڈوبی ہویی ہے اس کی بڑی وجہ اتحاد کا فقدان ہے۔ہر فرقہ نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد الگ بنانے کو اپنا فرض منصبی سمجھ رکھا ہے۔موجودہ صورت حال اس چیز کی متقاضی ہے کہ قران کی ''اعتصموا بحبل اللہ'' والی مبارک صدا کو عام کرکے فرفہ پرستی پھیلانے والی ہر آواز سے اپنا دامن بچا کر اس کو خاموش کروایا جاے۔چوںکہ علامہ اقبال اسی آیت کی ترجمان بن کر فرماتے ہیں

وجود افراد کا مجازی ہے,ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ,یعنی آتش زن طلسم مجاذ ہوجا
یہ ہند کے فرقہ باز اقبال آزری کررہے گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہوجا

علامہ اقبال نے ہمیشہ اپنی شاعری میں نوجوانوں کو طاقتور اور صاحب قوت بننے کے ساتھ ساتھ بلند پرواز ہونے کی تلقین کی ھے کیونکہ بلند پروازی انسان کے پاس ایک ایسا ملکہ ہے جو اسکے عزائم کو نئے امکانات سے روشناس کراتی ہے۔چونکہ فطرت کا قانون بھی یہی ہے کہ کمزور اور ناتواں ہونے کا لازمی نتیجہ کسی طاقتور کے ہاتھوں شکار ہونا ہے۔بلکہ اس فطری قانون کی تصدیق سائنس کی تحقیق سے بھی ثابت ہے۔تھاومس مالتھس (thomas malthus) نے ایک تھیوری (struggle for existence ) میں یہی کچھ دریافت کیا تھا۔علامہ اقبال کے نذدیک جو قوم ضعیفی اور کمزوری کا شکار ھوتی ہر طرح کے منصب و اعزاز سے محروم ہوکر تنزلی و زوال کا شکار ہوتی ہے اور بالآخر اس دھرتی سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔یہی مضمون علامہ اقبال نے بانگ درا کی '' ابو لعلا معری'' نامی نظم میں قلمبند کیا ہے جو بھنے ہوے تیتر سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں

افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

دوسری جگہ علامہ اقبال نوجوانوں کو شاہین کی طرح بلند پرواز بننے کی تلقین کرتے ہوے فرماتے ہیں

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہے
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہے

علامہ اقبال نے قوم و ملت کو غیرت مندی اور خوداری کا سبق دیا اور دوسروں کے احسانوں تلے زندگی گزارنے کے بے حد منافی تھے۔چونکہ انسان جب دوسروں کے احسانوں تلے دب جاتا ہے تو حق بات کہنے سے کتراتا ہے۔ایک فرد یا قوم جب غیرت مندی جیسی اعلی صفت سے منہ موڑکر بے غیرتی کو اپنا سامان بنا لیتی ہے تو حقیقت شناسی اور ''ارنا الاشیاء کما ھی“ جیسی عظیم نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھ کر ضمیر فروشی جیسی لعنت میں گرفتار ہوکر سینکڑوں تفاسیروں کی ورق گردانی کے باوجود بھی قران کریم کے حقیقی مقصد سے بحرآور نہیں ہوسکتی۔اسی ضمیر فروشی کی وجہ سے بنی اسرائیل جیسی ''انی فضلتکم علی العالمین'' لقب ملنے والی قوم ''ضربت علیھم الضلة والمسکنة“ جیسی پستی و تنزلی میں گر کر خوار ہوگئی۔

تیرے ضمیر پے جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشاں نہ رازی نہ صاحب کشاف

بلند بال تھا لیکن نہ جسور و غیور
حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہین وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا

علامہ اقبال نوجوانوں میں خلوت پسندی کے بھی خواہاں تھے۔خلوت نشینی انسان کو فطرت کی آواز سمجھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔چونکہ ہمارے سامنے سب سے بڑی اور اہم مثال ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔خلوت نشینی ہی کی فضا میں اللہ تعالی نے پہلی وحی نازل فرمائی۔اپنی فکر و عمل کو صحیح سمت میں لے جانے کیلیےخلوت نشینی کا سہارا لینا کافی ضروری ہے کیونکہ موجودہ حالات میں کفر و شرک,بدات و رسومات, الحاد و ارتداد کی لہریں بڑی تیزی سے دوڑ رہی ہے اور یہ لہریں ہر رنگ میں رنگ جانے والے اور ہر اجنبی صدا پر آمنا صدقنا کہہ کر لبیک کہنے والے نوجوانوں کے ایمان کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔اسی لیے علامہ اقبال اس شاہین سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جو کرگسوں میں پل بڑھکر رسم شاہبازی سے بیگانہ ہوا ہو۔اس خلوت نشینی کی نصیحت اقبال صرف لوگوں کو ہی نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر مغربی تہزیب کے زیر اثر ماحول میں ذندگی گزارنے کے باوجود رسم شاہبازی سے بے گانہ نہ ہوے۔

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہین بچوں کو صحبت زاغ

وہ فریب خوردہ شاہین جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم شاہبازی

پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

فکر اقبال کے ابھی بہت سارے پہلو ہے جن پر بات کرنا اس وقت ناممکن ہے۔ان چند گوشوں پر بات کرنا صرف یہ دکھانے کیلیے کافی ہے کہ یہ شخص کس درجہ حکمت و دانشمندی پر فائز تھا اور خاص کر نوجوانوں کی تربیت کیلیے کس قدر سنجیدہ و فکرمند تھا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آجکل کا نوجوان ان حکمت بھری تعلیمات سے فراموش ہوکر سوشل میڈیا پروقت کا ضیاع ,بے حیائی اور عریانیت کو اپنا مقصد حیات طے کر چکی ہے۔اسی لیے ”عابی مکھنوی“ نامی شاعر نے اقبال سے مخاطب ہوکر کس درد بھرے انداز میں کیا خوب فرمایا تھا

خودی کو بیچ کر مستی میں ڈوبا ہے ترا مومن
جنوں کو تابع عشرت ممولہ کرگیا تیرا
اسیر زلف و رخسار و لب جاناں ہوا مسلم
کوئی اقبال سے کہہ دے کہ شاہین مر گیا تیرا

zahid ahmad lone
About the Author: zahid ahmad lone Read More Articles by zahid ahmad lone: 2 Articles with 1645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.