چین کی عالمی منظرنامے میں بڑھتی ہوئی اہمیت

چین نے قومی احیاء کے چینی خواب کو پہلی مرتبہ ایک تصور کے طور پر پیش کرنے کے ایک دہائی بعد ، اس مقصد کی جانب بڑی پیش رفت کی ہے ، اور ایک عظیم جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے لئے مسلسل کوششیں کی ہیں۔دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی ترقی نہ صرف خود چین کے لیے ثمرات لا رہی ہے بلکہ عالمی معیشت میں ایک مضبوط تحریک بھی فراہم کر رہی ہے اور باقی دنیا کے لئے بے پناہ نئے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ کچھ اہم اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ دہائی میں چین کی قابل ذکر کامیابیاں بین الاقوامی اقتصادی منظر نامے میں کس طرح مثبت کردار ادا کرتی آ رہی ہیں۔

چینی معیشت نے 2013تا2021 کی مدت کے دوران 6.6 فیصد کی اوسط سالانہ شرح نمو سے ترقی کی ہے، جو 2.6 فیصد کی عالمی اوسط اور ترقی پذیر معیشت کی اوسط 3.7 فیصد سے کہیں زیادہ ہے.اس عرصے کے دوران عالمی اقتصادی نمو میں چین کی شراکت اوسطاً 38.6 فیصد رہی جو جی سیون ممالک کی مشترکہ شراکت سے زیادہ ہے۔چین کی معاشی لچک 2020 میں وبائی صورتحال کے دوران بھی دیکھی گئی تھی ، جب یہ مثبت نمو کی حامل دنیا کی واحد بڑی معیشت تھی۔آج چین کھلونے اور فرنیچر سے لے کر میکانی آلات اور آٹوموبائل تک ، دنیا کے لئے مختلف اقسام کی معیاری مصنوعات فراہم کر رہا ہے جبکہ دنیا میں دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے ۔چین کی درآمدات نے 2021 میں دنیا کی درآمدی نمو میں 13.4 فیصد کا حصہ ڈالا ، جس سے عالمی معاشی بحالی کو فروغ ملا ہے۔ ملک کے بڑھتے ہوئے متوسط آمدنی والے گروپ سے مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب کو فروغ ملا ہے۔درآمدات میں زبردست اضافے سے نہ صرف چینی عوام کے ذریعہ معاش کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے بلکہ برآمدات پر مبنی ممالک میں نمو اور روزگار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

دنیا کے مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس کے طور پر، چین دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے جامع صنعتی نظام کا حامل ملک ہے، جو اسے عالمی صنعتی چین میں ایک اہم شراکت دار بناتا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی معیشت کو اس وقت متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔اس صورتحال میں چین نے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لئے ٹھوس حمایت فراہم ہے ، جس میں خام مال ، پیداواری صلاحیت ، لاجسٹکس اور فروخت سے متعلق معاونت شامل ہے۔ اپنی صنعتی چین کو لچکدار رکھتے ہوئے ، چین نے عالمی سطح پر افراط زر کے دباؤ کو کم کرنے میں بھی مدد کی ہے۔یہ بات غور طلب ہے کہ چین کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی اضافی قدر نے 2010 میں پہلی مرتبہ امریکہ کو پیچھے چھوڑا، اور اس کے بعد سے عالمی سطح پر مسلسل پہلے نمبر پر ہے.ٹھوس انفراسٹرکچر چین کی صنعتی طاقت کے پیچھے اہم عوامل میں سے ایک ہے ، یہی وجہ ہے کہ چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا فائیو جی نیٹ ورک، تیز رفتار ریلوے سسٹم اور ایکسپریس وے نیٹ ورک موجود ہے۔صنعتی اپ گریڈ کو آسان بنانے کے لئے تکنیکی جدت طرازی کو آگے بڑھانے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں جس میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔

آج چین اپنی صنعتی طاقت، مضبوط بنیادی ڈھانچے اور 1.4 ارب صارفین کے ساتھ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے لئے تیزی سے اہم ترین منزل بن چکا ہے۔ملک میں ایف ڈی آئی ، 2012 میں 113.3 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2021 میں 173.5 بلین امریکی ڈالر ہوگئی ہے ، جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 4.8 فیصد ہے۔چین نے مسلسل پانچ سالوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے اپنی منفی فہرست کو مختصر کی ہے ، جس سے مالیاتی خدمات ، مینوفیکچرنگ اور الیکٹرانک انفارمیشن جیسے شعبوں میں غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔
چینی خواب کو عملی جامہ پہنانے کی راہ پر، چین نے اپنی بڑی گھریلو مارکیٹ کو مستقل طور پر کھولا ہے اور آزاد تجارت کو آسان بنانے والے ادارہ جاتی انتظامات کو فروغ دے کر باقی دنیا کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مسلسل آگے بڑھایا ہے۔ 2013 میں ، شنگھائی میں پہلا پائلٹ فری ٹریڈ زون (ایف ٹی زیڈ) قائم کیا گیا تھا ، جو نئی تجارتی پالیسیوں کے لئے آزمائشی میدان اور ادارہ جاتی کھلے پن کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ آج، چین ملک بھر میں 21 پائلٹ فری ٹریڈ زونز قائم کر چکا ہے، جس سے غیر ملکی کاروباری اداروں اور ان کی مصنوعات کو چینی مارکیٹ میں داخلے کا دروازہ ملا ہے۔ چین نے 26 ممالک اور خطوں کے ساتھ 19 آزاد تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ، جبکہ ایک دہائی قبل یہ تعداد 10 تھی۔ چین اور اس کے آزاد تجارتی شراکت داروں کے مابین تجارتی حجم 2021 میں ملک کے کل تجارتی حجم کا 35 فیصد تھا ، جو 2012 میں 17 فیصد سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔چین نے دنیا کے سب سے بڑے آزاد تجارتی معاہدے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کے نفاذ کو فعال طور پر فروغ دیا ہے، اور کثیر الجہتی اور آزاد تجارت کو مزید فروغ دینے کے لئے جامع اور ترقی پسند ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ اور ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ معاہدے میں شمولیت کی بھی کوشش کر رہا ہے.

چین کا ہدف ہے کہ اگلے 15 سالوں میں اپنی متوسط آمدنی والی آبادی کو 800 ملین سے زائد تک بڑھایا جائے جس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باقی دنیا کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے آزاد تجارتی تعلقات ، معیاری بین الاقوامی مصنوعات کی مضبوط گھریلو طلب ، غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے نئے مواقع پیدا کرے گی جس سے عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کو رواں رکھنے میں بھی نمایاں مدد ملے گی۔چین کی یہ کاوشیں عالمی معیشت کی بحالی کے لیے بھی ایک اہم شراکت اور ایک بڑے ذمہ دار ملک کی عمدہ عکاسی ہیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1117 Articles with 416973 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More