نا معلوم محبوب اور شاعر !

شاعر کے لفظی معنی ایسا شخص جو اپنے جذبات، احساسات و واقعات کو قلمبند کرتا ہو۔ہمارے معاشرے میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ شاعر بنتا نہیں بلکہ پیدا ہوتا ہے یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کیوں کہ رب نے ہر ایک کو کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔

جیسا کہ جذبات جیسے تحفے سے ہر ایک انسان بھرپور ہے۔ بس عام انسان اور شاعر میں اتنا فرق ہے کہ عام انسان اپنے جذبات، خیالات، احساسات و واقعات کو دل میں دبوچ کر رکھتا ہے یا تو زبانی اسکا خلاصہ اپنے قریبی پر کردیتا ہے مگر شاعر یہی خیالات سنبھال کر رکھتا ہے اور اسے الفاظ کی چاشنی میں ڈوبو کر ایسا قلمبند کرتا ہے کہ وہ عام انسان کی فہرست سے نکل کر ایک خاص کی نشست پر براجمان ہوجاتا ہے جسے ہم اور آپ شاعر کے القاب سے مخاطب کرتے ہیں۔

آج کا معاشرہ ہی نہیں بلکہ تب سے کہ جب سے دورِ شاعری نے جنم لیا ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ شاعر وہ ہے کہ جو اپنی ناکام محبتوں کا تذکرہ کر کر ادبی دنیا میں ایک نام بنا لیتا ہے۔ یہ بات واضح بھی ہے کہ عشق حقیقی یعنی ایسی شاعری جو رب تعالیٰ کی بڑائی میں کی جاۓ اور عشق مجازی وہ کہ جو اپنے محبوب کی یاد میں بیان کی جاۓ۔

یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ عشق مجازی میں معاملہ محبوب کا ہی ہوتا ہے۔ بعض اوقات شاعری جیتے جاگتے معلوم محبوب کے لیے ہوتی ہے اور کافی ایسے بھی شاعر گزرے ہیں اور کچھ اب بھی ہیں جن کا حقیقت میں محبت سے کوئی تعلق نہیں بس انکا معاملہ اس نامعلوم محبوب سے ہے جسکا انکو خود کچھ اتا پتہ نہیں۔

اس تحریر میں، میں ایک ایسے شاعر کی کہانی جوڑونگا کہ جسکا اصل محبت سے کوئی تعلق نہیں مگر وہ اپنے نامعلوم محبوب کی طلب میں کچھ نہ کچھ لکھ رہا ہے۔

شروعات ہوتی ہے اُس بچپن سے جو بہت خوشگوار تھا کہ جب نا کچھ اچھے کی سمجھ تھی نا کہ کچھ بُرے کا پتہ، نا کچھ پانے کا عزم تھا اور نا کچھ کھونےکا غم۔

مالک کا بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے نوعمری کے وقتوں سے ہی لکھنے، پڑھنے میں دلچسپی بخشی۔ اب دادی امّاں سے کہانی سننی ہو یا پھر نانا کے اخبارات جمع کر کر کہانیاں پڑھنا، سب معمول تھا بچپن کا۔

جیسے بچپن اپنا دورانیہ مکمل کر کر اگلی منزل پر آیا تو شاید بزرگوں کی وفات نے اخبارات کی زینت بھی اپنے سمت لئے روح پرواز کو روانہ ہوگئے۔مگر چیزیں معاشرے میں دیکھنا اور اس کے بارے میں سوچنا جاری رہا، مگر لکھنے کا سفر اب تک شروع نہ ہوسکا تھا۔

سوچنے کا دورانیہ جیسے تمام ہوا رب نے لکھنے کو چُن لیا۔ لکھنے کا آغاز کیا مگر کچھ خاص تیر نہ مار سکا۔ کہتے ہیں کہ محبت میں ہار آپکی لکھاوٹ میں ایک وزن پیدا کرتی ہے۔

لفظ محبت میرے لئے ایک رکاوٹ کے سامان کے مانند تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ محبت وغیرہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔مجھے آج بھی وہ لمحہ یاد ہے کہ ہماری جماعت کی ایک دوشیزہ نے میری کزن کے ذریعے سے میرے لیۓ اپنی پسندیدگی کا پیغام بھیجا تھا کہ جسے میں نے رکاوٹ سمجھ کر انکار کا جملہ سُنا دیا تھا۔

جب لکھنےکا سفر شروع کیا تو تمام لکھاریوں کی طرح میں عشق ،محبت پر لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر قدرت کو شاید یہی منظور تھا کہ آج میں لکھنا چاہتا ہوں۔

محبت میں ہار تو دور کی بات، محبت کی سمجھ تک نہیں تھی مجھے، مگر اب محبت ہوچکی ہے اس سے جو واقعی نامعلوم ہے اور جسکے بارے میں میرا اللّه جانتا ہے کہ کب اور کیسے وہ میرے ہوجائینگے، مگر کیا کروں انسان ہوں نا نفس پر کچھ زور شیطان نے بھی پکڑ رکھا ہے جو روز مجھے نا شکری كا سبق پڑھاتا ہے اور اپنے نامعلوم محبوب کو پانے کی طلب میں،میں کچھ نہ کچھ لکھ لیتا ہوں۔

حقیقت میں محبت سے میرا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ کوئی ایسا نہیں کہ جس کے لیے لگاؤ پیدا ہوئی ہوں، اب نامعلوم محبوب کا معاملہ اللّه کے سپرد کردیا ہے جو یقیناً کسی اچھے کی صورت میں ہی وصول ہوگا۔

Saim Ali Akber
About the Author: Saim Ali Akber Read More Articles by Saim Ali Akber: 10 Articles with 11416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.