کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گستاخوں کی علامات بیان کی ہیں

 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔
:: بخاری شریف، کتاب : المغازی، باب : بعث علی بن أبی طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، مسلم شریف، کتاب : زکوة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064،

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص جو کہ بنی تمیم سے تھا، نے کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔
:: بخاری شریف، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، مسلم شریف، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064،

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیف قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔
:: بخاری شریف،کتاب : توحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج الملائکة و الروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ عزوجل : و أما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، و مسلم شریف، کتاب : زکوة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، ابو داودشریف، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764،

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘امام ابو عیسیٰ ترمذی نے حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے لوگ ہوں گے۔
:: بخاری شریف، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، مسلم شریف، کتاب : زکوة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، ترمذی کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فی صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188،

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا
:: بخاری شریف، کتاب : استابة المرتدين و المعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِءَلَّا ينْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771،کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ : ويلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811،مسلم شریف، کتاب : زکوة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064،

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
:: مسند امام احمد بن حنبل 3 / 354، الرقم : 1461

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔
:: بخاری شریف، کتاب : توحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، مسلم، کتاب : زکوة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068،

زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
:: مسلم شریف، کتاب : زکوة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، ابوداود شریف، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768،

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بد تر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔
:: مسلم شریف، کتاب : زکوة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065،

حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
:: بخاری شریف،کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم : 4771، مسلم شریف، کتاب : زکوة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064،

حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہو گی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔
:: ابو داود شریف، کتاب : السنة، باب : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، ابن ماجة شریف، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169،

حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے دریافت کیا : کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل نے اضافہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر تھا)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید ناراض ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔
:: نسائی شریف، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103،

ابو سلمہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ (یعنی خوارج) کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر فرمایا ہے جو خوب عبادت کرے گی (امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دین میں انتہائی پختہ نظر آئیں گے) اور (یہاں تک کہ) تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھوگے۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گی جیسے تیر شکار سے، کہ آدمی اپنے تیر کو اٹھا کر اس کے پھل کو دیکھے تو اس میں کوئی خون وغیرہ نظر نہ آئے پھر وہ تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں کوئی نشان نہ پائے پھر اس کی نوک کو دیکھے اور کوئی بھی نشان نظر نہ آئے پھر تیر کے پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نظر نہ آئے۔
:: ابن ماجة شریف، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169،

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : خبردار ہو جاؤ فتنہ ادھر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہو گا۔
:: بخاری شریف، کتاب : المناقب، باب : نسبة اليمن إلي إسماعيل، 3 / 1293، الرقم : 3320، کتاب : بدء الخلق، باب : صفة إبليس و جنوده، 3 / 1195، الرقم : 3105، مسلم شریف، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905،

حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرق کی جانب چہرہ مبارک کرکے فرما رہے تھے : خبردار ہو جاؤ کہ فتنہ اُدھر ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔
:: بخاری، کتاب : الفتن، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6680، مسلم شریف، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2228، الرقم : 2905،

حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اﷲ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پھر) دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (فتنہ وہابیت) وہیں سے نکلے گا۔
:: بخاری شریف، کتاب : الفتن، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6681، کتاب : الاستسقاء، باب : ما قيل في الزلازل و الآيات، 1 / 351، الرقم : 990، و الترمذی شریف،کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل الشام و اليمن، 5 / 733، الرقم : 3953،

بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : اﷲ تعالیٰ کا فرمان : ’’اور اﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرمادے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘ اور (عبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما ان (خوارج) کو اﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے۔ (کیونکہ) انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا۔‘‘

اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد اﷲ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ انہیں اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے بد ترین لوگ خیال کرتے تھے۔ جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا۔

میں (ابن حجر عسقلانی) کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں۔‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے۔

اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور ان کو میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے۔‘‘ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔
اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے۔‘‘

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘

اور امام مسلم نے عبیداﷲ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘

اور امام طبرانی کے ہاں عبد اﷲ بن خباب رضی اللہ عنہ والی حدیث، جو وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں میں ہے کہ ’’یہ بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابو برزہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں۔‘‘ ایسا تین دفعہ فرمایا۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے۔

’’ابوغالب نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے مسجدِ دمشق کی سیڑھیوں پر (خارجیوں کے) سر نصب کئے ہوئے دیکھے تو فرمایا : جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں۔ اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘ ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار تک گنا، سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی بارہا سنا ہے)
:: ترمذی، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة آل عمران، 5 / 226، الرقم : 3000،

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فتنہ وہاں سے ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔
:: بخاری شریف، کتاب : الخمس، باب : ماجاء في بيوت أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ما نسب من البيوت إليهن، 3 / 1130، الرقم : 2937،

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ اپنے دست اقدس سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فتنہ وہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ (کلمات) دو یا تین مرتبہ ادا فرمائے۔
:: مسلم شریف، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905.

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما اور ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا : تو ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اور ہمارے مشرق میں (بھی برکت ہو) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ نکلے گا اور وہاں دس میں سے نو حصوں (کے برابر) شر ہو گا۔
:: مسند امام احمد بن حنبل،2 / 90، الرقم : 5642،

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اور میں نے خود یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم میں ایسے لوگ ہوں گے جو عبادت کریں گے اور اپنی عبادت میں تندہی سے کام لیں گے یہاں تک کہ وہ لوگوں کو بھلے لگیں گے اور وہ خود بھی اپنے آپ پر اترائیں گے حالانکہ وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح کہ تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
:: مسند امام احمد بن حنبل، 3 / 183، الرقم : 12909،

’’حضرت عبداﷲ بن رباح انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ شہید کے لئے ایک نور ہو گا اور اس شخص کے لئے جو حروریہ (خوارج) کے ساتھ قتال کرے گا دس نور ہوں گے ’’اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : (دیگر) شہداء کے نور کے مقابلہ میں وہ نور آٹھ گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہو گا۔‘‘ اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ان میں سے تین حروریہ (خوارج) کے لئے (مختص) ہیں۔
::عبد الرزاق فی المصنف، 10 / 155، و ابن أبي شيبة فی المصنف، 7 / 557، الرقم : 37911،

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا۔
:: ابن حبان ، 1 / 282، الرقم : 81،

’’حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے قریب دعا کرتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : ’’اے اللہ! ہمارے مد اور ہمارے صاع (مد اور صاع غلہ ماپنے کے دو آلے ہیں) میں برکت ڈال اور ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرق رخ ہو گئے اور فرمایا : یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور (یہیں سے) زلزلے اور فتنے ظاہر ہوں گے اور یہیں سے سخت گفتار، تکبر کے ساتھ چلنے والے (لوگ ظاہر) ہوں گے۔
:: المعجم الأوسط، 7 / 252، الرقم : 7421، علامہ طبرانی،

’’حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی (صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں نکلے گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا فرمایا : ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں ظاہر ہو گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔
:: مسند امام آھمدبن حنبل، 2 / 198، الرقم : 6871،
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283965 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.