شیر نیپال ہمہ جہت شخصيت

حضور شیرنیپال ملک نیپال کی عظیم و مشہور شخصیات میں سے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا،جو خدمات آپ نے انجام دئے ہیں وہ رہتی دنیا تک ستاروں کی مانند چمکتی رہیں گی۔

شیر نیپال ہمہ جہت شخصيت
تحریر : نبیره اعلیٰ حضرت حضور جمال ملت دامت بركاتہم القدسیہ( بریلی شریف)
�پیشکش:
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی

بسم الله الرحمن الرحيم
ہزاروں سال سے یہ دنیا آباد ہے وقت کے ساتھ اس کی رنگینی اور خوشحالی بڑھتی ہی جارہی ہے ، دنیا کے چہل پہل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے مانو یہ دنیا ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی، نہ معلوم کتنے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور نہ معلوم کتنے لوگ اس دنیا میں زندگی گزار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جاتے ہیں ، کچھ کم نصیب تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پیچھے کوئی جشن منانے والا بھی نہیں ہوتا اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی موت پر کوئی دو آنسو بہانے والا بھی نہیں ہوتا۔ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن دنیا سے جانا ہی ہے ، ان جانے والوں میں چند اللہ کے ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جن کی حیات کے لئے دعا چرندے ،درندے، پرندے، دریا کے جانور بھی کیا کرتے ہیں اور ان کی موت پر زمین اور آسمان اشک بار ہوجاتے ہیں ۔ اور جب ان کی روح آسمانوں کی طرف پرواز کرتی ہے تو زمین چینخ مار کر روتی رہتی ہے ، اور آسمان والے اس پاکیزہ انسان کی روح کو پاکر مسرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے ہی اللہ کے برگزیدہ بندوں کی دنیا سے رخصتی کی منظر کشی کرتے ہوئے اعلی حضرت امام اہلسنت نے ارشاد فرمایا ؎
عرش پر دُھومیں مچیں وہ مومنِ صالح ملِا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب و طاہِر گیا
میں سوچتا ہوں اللہ کے ایسے ہی مومن اور صالح بندوں کی صف میں نمایا ںنظر آنے والی ذات شیر نیپال حضرت مولانا مفتی جیش صاحب علیہ الرحمہ کی ہے ۔ اللہ ان کی روح اور قبر پر اپنی خاص رحمت نازل فرمائے۔ میں ان دنوں مغربی بنگال کے سفر پر تھا اور مدرسہ غوثیہ رضویہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے گاری گھاٹ مرشد آباد میں موجود تھا ، صبح کے قریب گیارہ بجے کا وقت تھا، میرے پاس اس وقت سینکڑوں افراد کا اژدہام اور کافی علماء کی بھیڑ تھی ،اس وقت میرے فون پر ایک Massage آیا ، شیر نیپال ممبئ کی سرزمین پر دوران علان انتقال فرما گئے۔ ایک کپکپی طاری ہوئی اور برجستہ میرے منہ سے نکلا اللہ یہ کیا ہوا ، اور میں نے پڑھا انا للہ وانا الیہ راجعون۔
موجود علماء نے میری جانب سوالیہ نگاہ سے دیکھا میں نے جواب دیا "شیر نیپال نہ رہے" محفل پر ایک سناٹا چھا گیا اور اس وقت بیک وقت سب کے ہاتھ دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کے لئے اٹھ گئے ، اس وقت محفل میں سیکڑوں لوگ موجود تھے مگر سب کی خاموشی یہ بتارہی تھی کہ شیر نیپال کا اس دنیا سے جانا ہر ایک کا ذاتی نقصان ہے اور میں اس وقت سیکڑوں کے بیچ خود کو تنہا محسوس کررہا تھا اور میری آنکھوں کے سامنے شیر نیپال کا وہ مسکراتا ہوا چہرہ ٹھہر گیا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا ؎
میرے جنازے پہ رونے والو! فریب میں ہو بغور دیکھو!
مرا نہیں ہوں غم نبی میں لباس ہستی بدل گیا ہوں
نیپال کی سرزمین پر مسلک اعلیٰ حضرت کا وہ علم بردار اپنے پیچھے ایک دنیا چھوڑ گیا جو شاید کبھی پر نہ ہوسکے ۔شیر نیپال ایک ایسی ذات ہے جو اہل علم میں بیٹھتے تو ان کی گفتگو کا معیار احساس کرا دیتا کہ اس وقت محفل میں اہل علم موجود ہیں ، اور اس وقت انکی گفتگو اہل علم کے لئے نفع بخش ہوتی ، موجود علمائے کرام انکی گفتگو کو بغور سماعت فرماتے اور اپنی اصلاح بھی فرماتے ، علمائے کرام کے سوالات کے جواب مسکرا کر دیتے اور پیچیدہ اور جدید مسائل کا جواب اور تشفی بخش دلائل سے بھرپور ہوتا ۔ اعلی حضرت کی فتاوی رضویہ کو حوالہ میں پیش فرماتے کسی بھی مسئلہ کے جواب میں قرآن اور حدیث پاک کو ضرور پیش فرماتے ،ان کی گفتگو محفل میں موجود اشخاص کی فراست کے مطابق ہوتی تھی ، جب مشائخ طریقت کے بیچ جلوہ بار ہوتے تو تصوف روحانیت بھرا پر کلام فرماتے ، اگر کوئی ان کی محفل میں یا ممبر پر تقریر کرتا تو بغور سماعت فرماتے اور بولنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے ، مشائخ طریقت کی محفل میں ان کی کمال گفتگو سے ظاہر ہوتا تھا کہ سلوک کی راہ میں یہ عالم دین اپنے قدموں کو غبار آلود کر چکا ہے .وہ برکاتی تھے تو اللہ نے ان کے علم اور عمل میں خود برکت عطا فرمائی تھی جس کا احساس ان کی نوازشوں سے ہوتا تھا ۔ شیر نیپال جب اپنے تلامذہ اور مریدین کے درمیان ہوتے تو ان کے عقیدت مندوں کا عمل ایسا ہوتا مانو شیر نیپال ایک روشن چراغ اور ان کے عقیدت مند چراغ پر منڈراتے پروانے ہوں ۔شیر نیپال ان کے پاس آنے والے ہر شخص سے خیریت پوچھتے اور اگر آنے والا کلام کرتا تو پوری توجہ سے سنا کرتے اور بہت محبت سے جواب عطا فرماتے ۔ شیر نیپال کی خصوصیات میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ان کی محفل میں اگر کوئی کسان آتا تو کھیتی کسانی پر ہی گفتگو فرماتے اور کھیتی کسانی سے متعلق مسائل بیان فرماتے ، اگر کوئی کاروباری حاضر ہوتا تو کاروبار پر گفتگو فرماتے اور کاروبار سے متعلق مسائل بیان فرماتے ، اگر کوئی سیاسی شخص حاضر ہوتا تو سیاست پر کلام فرماتے اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے ان اشخاص کو آگاہ فرماتے ، اور سیاست سے متعلق مسائل اور ایمان کی حفاظت پر زور دیتے ،اگر طالب علم ملاقات کے لئے آتے تو حصول علم کے لئے انکی حوصلہ افزائی فرماتے۔
بہار اور نیپال میں اکثر حضرت شیر نیپال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا وہ خاص و عام سے بڑی خندہ پیشانی سے ملاقات فرماتے اور اپنے وقار اور منصب کا پورا خیال رکھتے ہوئے آنے والے اور موجودہ لوگوں کے منصب اور مقام کا خیال رکھتے ہوئے ملاقات کرتے تھے ،( مولانا ممتاز عرف روحانی میاں نے بتایا کہ کبھی فضول گفتگو یا ہنسی مزاح کرتے حضرت کو کسی نے نہیں پایا )ان کی علمی جلالت ، فقہی بصیرت ,مسلک اہلسنت پر استقامت ، تقوی ، پرہیزگاري اور صبر و ایثار ، خلوص اور محبت سے شرابور صوفیانہ زندگی کو اہلسنت و جماعت کا ہر وہ شخص جس نے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا اپنی تمام زندگی یاد رکھے گا ۔
نیپال کی سرزمین پر اللہ کے دین کی خدمت کرنے والا ،یہ رسول اللہ کی شریعت کا عالم اہل علم اور سلوک کی راہ پر چلنے والوں کے بیچ سیکڑوں سال یاد کیا جاتا رہے گا ۔ نیپال کے علماء اور مشائخ کی تاریخ اگر کبھی لکھی گئی تو شیر نیپال کا ذکر سر فہرست ہوگا اور ان کے ذکر کے بغیر یہ تاریخ مکمل نہ ہوگی ،بس ان کے بارے میں یہ کہہ دینا مناسب ہوگا ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(معارف شیرنیپال ۔مولفہ:مفتی محمد عبدالسلام امجدی برکاتی)

 

ABDUSSALAM AMJADI
About the Author: ABDUSSALAM AMJADI Read More Articles by ABDUSSALAM AMJADI: 9 Articles with 9653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.