مسلمانوں کو نیا سال کیسے منانا چاہیئے؟

نئے سال کی آمد پر دنیا بھر میں جشن منایا جاتا ہے۔ہر سال 31دسمبر کو رات 12بجے مختلف طریقوں سے اس خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے نیوزی لینڈ میں آتش بازی کا مظاہرہ سکائی ٹاور سے کیا جاتا ہے، نیو یارک میں ٹائمزسکوائر پر سال نو کی آمد پر 12بجنے سے کچھ دیر پہلے اُلٹی گنتی شروع کی جاتی ہے اور ہر ایک کی نظریں ایک ٹاور پر ہوتی ہیں جس سے ایک چمکتی ہوئی گیند گرائی جاتی ہے اور لوگ اس گیند کے آس پاس جمع ہوتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کسی ملک میں گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں کہیں پلیٹیں توڑی جاتی ہیں اور اسے برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں نئے سال کی آمد پرمختلف مقامات پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں آتش بازی کے ساتھ ساتھ میوزک فیسٹیول بھی رکھے جاتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ آخر سال نو کی اتنی خوشیاں منانے کا مقصد کیا ہے؟

تو کہا جاتا ہے کہ سال نو نئی امیدیں، امنگیں جگاتا ہے نئے سپنے سجانے ،اچھے مستقبل کی خواہش اور کامیابیوں کی اُمید کا ذریعہ ہےاس لیے اس پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس سال غم خوشیوں میں بدل جائیں، غربت میں امیری کی کوئی شمع روشن ہو جائے۔اس موقع پر لوگ مختلف خواب آنکھوں میں سجائے سال نو کی محافل کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کے خواب دنیا سے جڑے ہوتے ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جنہیں ضمیر سال گزرنے پر اس کی کوتاہیوں پر ملامت کرتا ہو گا۔

سال نو کا جشن منانے کی ابتدا عیسائیوں نے کی اور یہ روایت انہی سے چلی آ رہی ہے اب بھلے دنیا اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی سوچ اپنے دین کے مطابق منفرد رکھنی چاہیے جیسا کہ شریعت میں ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ ایک مسلمان کو ضرور کرنا چاہیے اور اعمال کا محاسبہ یہ ہے کہ وہ سوچے کہ آخر اُس نے کون سے برے کام کیے کون سی غلطیاں کیں اور اپنے رب کو کتنا ناراض کیا، ہم نے خوشی کیسے منائی اور غم میں کتنا صبر کیا اور کتنا شکر ادا کیا۔

آج مسلمان کو یہی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے اور اپنے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے نقشے قدم پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت کو بہتر بنا سکے۔ صحابہ کرام ؓ تو ایک دن گزرنے پر بھی محاسبہ کرتے اور اس پر نادم ہوتے کہ زندگی سے ایک دن کم ہو گیا اور عمل میں اضافہ نہ ہو سکا۔ جب دن گزرنے پر یہ حال ہے تو سال گزرنے پر کیا ہوتا ہو گا! لہٰذا ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ ہمیں عمر اور زندگی اس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کریں اور اس کے حکم کے مطابق دنیا میں چلیں اور آخرت کو بہتر بنائیں۔
نئے سال کی آمد پر خرافات کی بجائے سنت طریقہ اپنانا چاہیے جیساکہ روایت میں ہے کہ جب نیا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول ﷺ ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے تھے
’’ اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ .‘‘
(المعجم الاوسط للطبرانی ۲۲۱/۶)
ترجمہ:’’اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن و ایمان ، سلامتی اور اسلام اور اپنی رضا مندی نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔‘‘
لہٰذا ہمیں یہ دعا پڑھنی چاہیے اور اس کے علاوہ ماضی کا احتساب اور آنے والے وقت میں خود کو با عمل مسلمان بنانے کا تحیہ کریں اور اس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا:
’’تم اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب لیا جائے‘‘(ترمزی۴/۲۴۷)
شرعی کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو نیا سال جنوری نہیں بلکہ محرم الحرام ہے جو کہ گزر چکا ہے اور مسلمانوں میں سے اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہوتا مسلمانوں کو چاہیے کہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اس کا علم رکھیں کیونکہ بہت سے احکام شرعی اسی سے وابستہ ہیں رمضان کے روزے رکھنا اور حج قمری تاریخ پر ہی کیا جاتا ہے چاند دیکھ کر مہینوں کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے اس کے لیے پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں ہے اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے اللہ پاک نے فرمایا۔
’’ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سال ، مہینہ اور دن کا اندازہ لگاتا ہے۔ یہ دونوں ہی اللہ کی نعمتیں ہیں لیکن چاند سے احکام شرعی وابستہ ہیں اس لیے اس کا حساب رکھنا زیادہ ضروری ہے اور شمسی حساب رکھنا بھی مباح ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم غیروں کی مشابہت سے دور رہیں اور اپنے دین کی پیروی کریں اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنتوں کو اجاگر کریں۔ اسی طرح ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔
 

اقصٰی امل علی
About the Author: اقصٰی امل علی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.