واہ کیا منظر ہے ، سب کچھ ہے چھپا ہوا اور سب ظاہر بھی ہے

اطہر مسعود وانی
ایک ہم پیشہ دوست دانش ارشاد نے اپنی ایک تصویر سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کی جو عمومی تصاویر سے ذرا ہٹ کے تھی۔ تصویر میں دانش کسی پہاڑ ی پہ ، اندھیرے میں کھڑا ہے۔اس کے ساتھ درخت، پہاڑی اور خود دانش بھی اندھیرے میں ڈوباہوا ہے، سامنے کی طرف انسانی آبادی کی روشنیاں سرگرم زندگی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ روشنیوں کے شہر کے اوپر دو رنگوں میں آسمان، پہلے سرخی مائل اور اس کے اوپر نیلا۔ نیلا رنگ تو آسمان کے لئے ہمیشہ سے ہی منسلک رہا ہے لیکن شام کے وقت افق سے ملتے آسمان میں چھائے سرخی مائل رنگ کو اکثر انسانی خون سے تشبیہ دی جاتی ہے۔کوئی اسے بے گناہ انسانوں کے قتل کے خون سے تعبیر کرتا ہے اور کوئی اس سرخ رنگ کو شہیدوں کا خون قرار دیتا ہے۔بے گناہ اور گناہگار کی تخصیص بھی خوب کہ ایک ہی فریق کو کوئی بے گناہ اور کوئی گناہگار سمجھتا ہے۔مارے جانے والے کے قریبی اسے بے گناہ سمجھتے ہیں اور مارنے والے کے حلقے میں اسے گناہگار قرار دیتے ہوئے اس کی موت کو انسانیت کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ۔آسمان کے اسی خونی رنگ کو اگر سرکاری تنخواہ دار کی ہلاکت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی موت کو شہید قرا ردیا جانا لازم ہوتا ہے ، البتہ اگر ہلاک ہونے والا سرکاری تنخواہ دار نہ ہو تو اس کی موت کو ہلاکت کے معنوں میں ہی محدود سمجھا جاتا ہے۔
تصویر میں دانش مکمل طور پر اندھیر ے میں ڈوبا ہوا ہے ، لیکن اندھیرے میں ہونے کے باوجود اپنے ہیولے سے ہی صاف پہچانا جاتا ہے کہ یہ دانش کھڑا ہے۔اندھیرے میں کھڑا یہ انسانی ہیولہ صرف دانش کی شخصیت کی ہی پہچان نہیں کراتا بلکہ اس ہیولے والے انسان کے خطے کا بھی تعارف پیش کر دیتا ہے۔ہیولے میں نظر آنے والی نمایاں ناک ظاہر کر دیتی ہے کہ اس کا تعلق خطہ کشمیر سے ہے کیونکہ وہ ناک کے لئے ہی لڑتے آئے ہیں اور ناک سے محروم چلے آ رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود خطہ کشمیر کے لوگ اپنی اس ناک کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کہ جو ناک ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ناک کے حق کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کا ہی اعجاز ہے کہ جس ناک کے حصول کے لئے کشمیری لڑتے، مزاحمت کرتے چلے آئے ہیں، وہی ناک خطہ کشمیر کے ہر شخص کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے، حالانکہ ابھی تو اس ناک کا حصول باقی ہے۔
اس منظر سے یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ وہ اندھیرے میں چھپا ہوا ہے، کوئی اس کو دیکھ نہیں رہا، لیکن وہ منظر میں موجود ہوتا ہے اور نگاہیں اس کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو مرضی کرتا جائے،اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا کہ وہ اندھیرے میں ہے، لیکن یہ اس کی خام خیالی ہوتی ہے۔انسان کتنا بھی چھپ چھپا کر کسی کام میں مشغول ہو، دیکھنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں۔اب لوگوں کی کیا بات کریں، ہر کوئی اپنے ذہن کے مطابق انسان کا، اس کے افعال کا احاطہ کرتا ہے۔ اب کوئی باذوق اس تصویر کو دیکھ کر کہے گا کہ قدرت کے منظر سے لطف اندوز ہونے کا ایک خوبصورت مقام۔کوئی کہے گا کہ پہاڑی پہ چڑھ کے نشے لے رہا ہے اور ایسے بھی بدذوق ہوں گے کہ جو کہیں گے کہ موٹر سائیکل پہ گزرتے ہوئے پیشاب کرنے رک گیا ہو گا اور اس کے دوست نے اس کی تصویر اتار لی کہ وقت پڑنے پہ اس تصویر کو بطور ثبوت استعمال کیا جا سکے۔لیکن بھلا ہو اندھیرے کا کہ اس نے بہت سی باتوں کو ظاہر کرنے کے باوجود بہت سی باتوں پر پردہ ڈال دیاہے۔اگر اندھیرے نے کئی باتوں پہ پردہ نہ ڈالا ہوتا تو ظالم دوست جسم کے کسی اعضاء کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈہ بھی کر سکتا تھا۔
تصویر میں دانش جہاں دیکھ رہا ہے، وہاں کی چمکتی روشنیاں ظاہر کرتی ہیں کہ وہاں ہنستی کھیلتی زندگی چمک رہی ہے، خوشحال لوگ ہیں جو اچھی سہولیات کے ساتھ زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔غالب امکان ہے کہ روشنیوںکا یہ شہر دارلحکومت اسلام آباد ہی ہو گا اور دانش کی کمین گاہ مارگلہ کی پہاڑی۔روشنیوں کے اس شہر میں کیا کچھ ہوتا ہے، اس کا اندازہ کوئی عام انسان لگانے سے قاصر ہے ،، حتی کہ دانش جو صحافی ہونے کے ناطے باخبر ہونے کا دعویدار ہو سکتا ہے، وہ بھی روشنیوں کے اس چمکتے شہر کے چمتکاروں سے بڑی حد تک بے خبر ہی ہو گا۔گناہ گار ، بے گنا، شہید اور غیر شہید کی طرح روشنیوں کے اس شہر سے متعلق بھی متصاد باتیں کہی جاتی ہیں۔ کوئی اسے سوروں کے شہر سے تعبیر کرتا ہے اور اس سے مستفید ہونے والے اس کا شمار دنیا کے حسین ترین دارلحکومتوں میں کرتے ہیں۔
زندگی کے کچھ اتفاق بہت ظالم،سفاک ہوتے ہیں اور کچھ اتفاقات بہت حسین، دلفریب اور دلکش۔ جو منظر اس تصویر میں اتر آیا ہے، اسے ایک اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ ایک اچھے کیمرے کا کمال بھی ہے۔دانش نے بھی اچھی جگہ ڈھونڈی، جو نہ زمین ہے نہ آسمان، بلکہ دونوں کے درمیان ایسی جگہ ہے کہ جہاں سے ہموار زمین بھی نظر آ رہی ہے اور مختلف روپ دکھاتا آسمان بھی۔تصویر میں چند مزید ایسی چیزیں شامل ہیں جن کا احاطہ کرنا رہ گیا ہے ، جیسے اندھیرے میں بھی درخت کی تین چار قسمیں ظاہر ہو رہی ہیں، دانش اندھیرے میںکھڑا ہے لیکن اس کے چند روپ ایسے ظاہر ہیں کہ جیسے تیز روشنی میں انسان برہنہ کھڑا ہو۔
مزید بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن بقول شاعر
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614594 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More