پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید۔میرے استاد (

(39 برسی کے موقع پر جنہوں نے 13 جنوری 1984ء کو داعی اجل کو لبیک کہا)
(یہ مضمون1982ء میں تحریر کیاگی تھا)
پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید۔میرے استاد
(39 برسی کے موقع پر جنہوں نے 13 جنوری 1984ء کو داعی اجل کو لبیک کہا)
(یہ مضمون1982ء میں تحریر کیاگی تھا)
پروفیسرڈاکٹر عبد المعید سے میرا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہے۔ آپ میرے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کی شخصیت، علمیت اور قابلیت نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، میں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا۔معید صاحب کو پہلی بار دیکھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایک عام انسان نہیں بلکہ علمیت اور قابلیت کے اعلیٰ مرتبہ پرفائزان چند انسانوں میں سے ہیں جوصدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
آپ کا حافظہ زبر دست تھا، کتب خانوں کی تاریخ کے حوالے سے آپ کو تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ تاریخیں بھی یاد تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک کہنہ مشق اور قابل استاد اور ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ تقریر کے فن سے خوب واقف تھے البتہ آپ کا تحریری سرمایہ مختصر ہے۔ ڈاکٹر عبدالمعیدنے بنگال لائبریری ایسو سی ایشن، کلکتہ سے لائبریری سائنس میں سر ٹیفیکیٹ کورس، مشیگن یونیورسٹی، امریکہ سے لائبریری سائنس
میں ایم ایل ایس، یونیورسٹی آف ایلونائے، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی۔
1971ء کا کوئی دن جامعہ کراچی میں میرا پہلا دن تھا، شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی کی لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا۔تمام کمروں کے چارو ں اطراف کھلی ہوئی فضا نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کردیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔کلاس روم طلبہ اور طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلبہ نے جامعہ کے شو ق میں کالے رنگ کے گاؤن زیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا۔ پہلی کلا س تعارفی کلا س تھی شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید اور دیگر اساتذہ کلا س میں موجود تھے۔ صدر شعبہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب نے تمہیدی کلمات کہے، شعبہ کا تعارف کرایا، اسا تذہ کے بارے میں بتا یا، ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ کو ئی عالم فاضل شخص گفتگو کر رہا ہے۔گندمی رنگ، چھوٹا قد،گٹھاہوا جسم، روشن آنکھیں، ہنستا ہوا چہرہ، سیاہ بال، کلین شیو، کالے رنگ کے چشمہ نے ان کی شخصیت کو حسین بنا دیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالمعید ہندوستان کے ایک معزز اور مسلمان گھرانے میں 20 جنوری 1920ء کوبازید پور(Bazidpur)، ضلع مظفرپور، صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد اور دادا سید احمد شہید اور اسمعیل شہید کی تحریک مجاہدین کے سرگرم کارکن رہ چکے تھے جنہوں نے سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا تھا۔معید صاحب نے خاندانی روایات کے بر خلاف تعلیم کے حصول کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول کا امتحان اور انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد1941ء میں گریجویشن کیا، آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز لائبریرین کی حیثیت سے کیا، پروفیشن کا انتخاب بھی آپ نے از خود کیا، جو آپ کا علم اور کتاب سے محبت اور عقیدت کی غمازی کرتا ہے۔آپ نے 1942ء میں اینگلو عربک کالج میں لائبریرین کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، اس دوران آپ لائبریرین شپ کی عملی تربیت کی جانب مائل ہوئے اور1943ء میں کلکتہ تشریف لے گئے جہاں پر آپ بنگال لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت منعقد ہونے والے لائبریری سائنس کے سر ٹیفیکیٹ کورس میں شریک ہوئے جو کلکتہ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر نہار رنجن رائے کی سر پرستی میں منعقد ہورہا تھا۔ کلکتہ کے قیام کے دوران معید صاحب لائبریرین شپ کے زیادہ نزدیک آگئے آپ نے برطانوی ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری ”اپمیریل لائبریری آف انڈیا“ کا مطالعہ انتہائی باریک بینی سے کیا اس کے علاوہ شمالی ہندوستان کے کئی بڑے کتب خانوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ کو برطا نوی ہندوستان کے نامور لائبریرینز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا، خاص طور پر امپیریل لائبریری کے لائبریرین خان بہادر اسد اللہ خان کی صحبت حاصل ہوئی، معید صاحب خان بہادر سے بہت زیادہ متاثر تھے عام گفتگو کے علاوہ کلاس میں بھی خان بہادر صاحب کا تذکرہ بہت احترام سے کیا کرتے تھے۔ خان بہادر صاحب امپیر لائبریری کے لائبریرین ہونے کے علاوہ لائبریری ٹریننگ کلاس کے بانی بھی تھے اور آپ کو انڈین لائبریری ایسو سی ایشن کے بانی سیکریٹری جنرل ہونے کا اعزاز بھی حا صل ہے۔
کلکتہ سے واپس دہلی آکر آپ نے عرابک کالج، نئی دہلی کے لائبریرین کی حیثیت سے خدمات شروع کیں۔اب آپ پہلے سے زیادہ پروفیشنل ہوچکے تھے۔ آپ نے تین سال(1942ء۔1945ء) لائبریری کی ترقی اور ترتیب کے امور انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دئے۔اس کے بعد آپ کو دہلی یونیورسٹی لائبریری میں لائبریری اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا آپ نے دو سال (1946ء۔1947ء) یہاں خدمات انجام دیں۔قیام پاکستان کے فوری بعد آپ نے دیگر مسلمانوں کی طرح ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا اولین مسکن بنا یا۔ پنجاب پبلک لائبریری کے خواجہ نو ر الہٰی جو اس وقت لائبریرین تھے کے ماتحت آپ نے چیف کیٹلاگر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔خواجہ صاحب آپ کو دہلی کے زمانے سے جانتے تھے۔ لاہور میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا قیام پا کستان (1947ء) کے وقت پنجاب لا ئبریری اسکول بند ہو گیاتھا، ایسو سی ایشن کی سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں اور ماڈرن لا ئبریرین بھی بند ہوگیا تھا، لائبریری پروفیشن کے تقریباًتمام ہی سر گرم کارکن ہندوتھے جنہوں نے بھارت چلے جا نے کا فیصلہ کیاجس کے باعث لائبریری پروفیشن میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔اب تما م تر دارومدار لائبریرین شپ کے پیشے سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات پر تھا جنہوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ 1948 ء کے ابتدائی ایام میں فضل الٰہی مرحوم، عبدالمعید اور خواجہ نورالٰہی کی کوششوں سے پہلی انجمن”پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن“ 6 جون 1948ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں کام کر نے والے عملے کے تعاون سے معرض وجود میں آئی۔ جس کے صدر خلیفہ شجاع الدین اور ناصر احمدسیکریٹری مقرر ہو ئے۔اسی ایسوسی ایشن نے ایک ڈپلومہ کورس بھی شروع کیا جس کے ڈائریکٹر فضل الٰہی مقرر ہو ئے۔ سہ ماہی رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ فضل الٰہی اور عبدالمعید کی ادارت میں جاری کیا۔جس کے صرف تین شمارے شائع ہوسکے۔
کراچی میں سندھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آچکاتھا، ڈاکٹر عبدالمعید نے لاہور سے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، آپ سندھ یونیورسٹی کے اولین لائبریرین مقرر ہوئے اور چار سال (1948ء۔1952ء) تک لائبریری کے قیام اور ترقی کے اقدامات کیے، کراچی یونیورسٹی کے قیام اور سندھ یونیورسٹی کے حیدر آباد منتقل ہونے کے بعد آپ کراچی یونیورسٹی کے(1952ء) اولین اسسٹنٹ لائبریرین (انچارج) مقرر ہوئے۔اب معیدصاحب کی بھر پور لائبریری سرگرمیوں کا آغازہوا۔1954ء میں ڈاکٹر صاحب مشیگن یونیورسٹی، امریکہ سے لائبریری سائنس میں ایم ایل ایس کرنے تشریف لے گئے،۵۵۹۱ء میں واپس تشریف لائے اور جامعہ میں شعبہ لائبریری سائنس کے قیام میں کامیابی حاصل کی۔ آپ یہ محسوس کررہے تھے کہ لائبریری سائنس کی اعلیٰ تعلیم(پی ایچ ڈی) بھی پروفیشن کے لیے ضروری ہے چنانچہ 1961ء میں آپ یونیورسٹی آف ایلونائے، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے تشریف لے گئے،1964ء میں واپسی ہوئی۔1973ء میں آپ لائبریری سائنس کی تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں نائیجیریا تشریف لے گئے۔ بعد از اں آپ نے 1976ء میں جامعہ کراچی سے استعفیٰ دیدیا، 1982ء میں آپ مستقل وطن تشریف لے آئے لیکن آپ کی صحت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی۔ آپ 13 جنوری1984ء کو کراچی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا ئے فانی سے رحلت کر گئے۔آپ جامعہ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں،راقم کو تجہیز و تدفین میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کو کئی انجمنوں کی سر پرستی اور سربراہی کا اعزاز حاصل ہے، متعدد انجمنوں کے آپ بانی رکن یا عہدیدار ہیں ان میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن (1947ء)، پا کستان لائبریری ایسو سی ایشن (60ء۔1957ء) پہلے جنرل سیکریٹری،پاکستان ببلو گرافیکل ور کنگ گروپ (60ء۔ 1949ء) پہلے نائب صدر، کراچی لائبریری ایسو سی ایشن (60ء۔1949ء)پہلے نائب صدر، کراچی یونیورسٹی لائبریری ایسو سی ایشن سائنس المنائی ایسوسی ایشن (84۔ 1956ء) سر پرست، لائبریری پروموشن بیورو (84ء۔1966ء)،، ایسین فیڈریشن آف لائبریری ایسو سی ایشن (۷۵۹۱ء)نائب صدر، انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات (1960ء) شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبد المعید نے ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، جامعہ کراچی کی بنیاد ڈالی اور اسے بلندی پر پہنچایا ساتھ ہی شعبہ لائبریری سائنس کے قیام کو بھی ممکن بنایا آپ کی کوششوں سے یہ شعبہ ۰۱ اگست 1956ء کو معرض وجود میں آیااور آپ اس کے اولین صدر شعبہ مقرر ہوئے جس کی تقلید ملک کی دیگر جامعات نے کی۔ شعبہ لائبریری سائنس ڈاکٹر عبد المعید کے زندہ جاوید کارناموں میں سے ایک ہے یہاں پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر تعلیم کا آغاز ہوا بعد ازاں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کا آغاز بھی ڈاکٹر صاحب ہی کے دور میں ہوا۔ 1980ء میں شعبہ لائبریری سائنس سے جناب عبدالحلیم چشتی نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ان کے نگراں ڈاکٹر عبد المعید ہی تھے۔1956ء سے آج تک سینکڑوں افراد نے لائبریری سائنس میں تعلیم حاصل کی اور وہ اندرون و بیرون ملک لائبریری خدمات انجام دے رہے ہیں یہ معید صاحب ہی کا لگا یا ہوا درخت ہے جس کی شاخیں اب ملک سے نکل کر بیرون ملک تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں۔آپ نے ماہرین علم کتب خانہ کی ایک بہت بڑی تعدا د شاگردوں کی صورت میں تیار کی ہے شخصیت گری کا یہ اعجاز بھی آپ ہی کا مرہون منت ہے۔
1981ء میں شعبہ کی سلور جوبلی کا انعقاد ہوا جس میں ڈکٹر صاحب نے بنفس نفیس شرکت کی۔اس موقع پر لائبریری پروموشن بیورو نے ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک کتاب بعنوان ”پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ“ شائع کی۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور کتب خانوی خدمات کی خوبصورت تصویر پیش کرتی ہے۔اس مجموعہ مضامین کو مرتب کرنے کا اعزاز مشترک مولف کی حیثیت سے راقم الحروف کو حاحل ہے کتاب کی تعارفی تقریب 29 اگست 1981ء کو لیاقت میموریل لائبریری آڈیٹوریم میں میں منعقد ہوئی، صوبائی وزیر تعلیم جسٹس سید غوث علی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ حضرات نے میری جس قدر قدرانی کی ہے معلوم نہیں میں اس کا مستحق ہوں یا نہیں۔مقررین نے جو کچھ میرے متعلق کہا میں ان کا بے حد مشکورہوں۔کتاب کے بارے میں کئی مقررین نے اظہار خیال کیا۔
آج پاکستان میں کتب خانوں اور لائبریری سائنس کی تعلیم کو جو مقام حاصل ہے وہ ڈاکٹر صاحب کی جدوجہد اور کاوشوں کا رہین منت ہے۔ 2006ء میں پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم کی تحریک کو پچاس سال مکمل ہوگئے۔ شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی نے پچاس سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی کا انعقاد18۔19 ستمبر 2006ء کو کیا، افتتاح جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قاسم پیرزادہ صدیقی نے کیا۔ تقریبات دو دن جاری رہیں۔اس دوران متعدد اجلاس مختلف موضوعات پر منعقد ہوئے جس میں کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے بھی ماہرین لائبریری سائنس نے شرکت کی۔ راقم الحروف کو ان تقریبات کے ایک اجلاس کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا جس کا موضوع ”پاکستان میں لائبریریز اورپاکستان لائبریرین شپ“ تھا، اس کے علاوہ ایک اور اجلاس جس کا موضوع ”پاکستان میں لائبریری ایسوسی ایشنز کا کردار“ تھا راقم نے ایک مقرر کی حیثیت سے متعلقہ موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ یہ دونوں اجلاس ۹۱ ستمبر ۶۰۰۲ء کو ہوئے۔تقریبات میں دیگر ماہرین نے بھی اظہار خیال کیا۔گولڈن جوبلی تقریب میں شعبہ کے بانی ڈاکٹر عبد المعید کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جب تک لائبریری سائنس کی تعلیم جاری ہے ڈاکٹر عبد المعید کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔ المختصر ڈاکٹر عبد المعید کو پاکستان میں لائبریری تعلیم کی تحریک میں جو اولیت حاصل ہے وہ ہمیشہ رہے گی اور ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔وا صلؔ عثمانی کے بقول۔
جو بجھ گیا تو ہوا اور بھی درخشندہ
چراغ ایسے لہو کے جلا گیا اک شخص
(مطبوعہ ماہنامہ کتاب، لاہور۔ جلد 16، شمارہ3، جنوری1982ء)
(مصنف کی تصنیف ”یادوں کی مالا“ میں شامل)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281672 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More