وجودِ زن

عورت نام ہے عزت کا، وقار کا اور حیا کا ۔

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں

عورت نام ہے عزت و وقار کا، عورت نام ہے محبت کا۔۔عورت معاشرہ بناتی ہے، خاندان کی زندگی بناتی ہے،خالی گھر کو گھر بناتی ہے، اس کا کام ایک مثالی خاندان،مثالی معاشرہ اور ایک مثالی ریاست بنانا ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے خواتین کی ابتر حالت سے سب واقف ہیں کہ ان کی حیثیت پیر کی جوتی کے برابر بھی نہیں تھی۔ پھر ایک روشن دور آیا۔ اسلام نے کہا کہ اس پاکیزہ اور پاکیزہ مخلوق 'عورت' کو خرید و فروخت کا سامان نہ بناؤ اور اسے مرنے کے بعد اس طرح تقسیم نہ کرو جس طرح وراثت کی دوسری چیزیں تقسیم کرتے ہو۔قرآن کریم میں عورتوں کے حقوق سے متعلق بہت سی آیات نازل ہوئیں۔ سورہ مائدہ، سورہ النساء عورتوں کے حقوق واضح کرتی ہیں۔ عورت ہر زمانے کا ایک دلچسپ اور دلکش موضوع رہی ہے۔عورت کا ہمیشہ سے ایک مطالبہ ہے اور وہ فقط عزت ہے اگر یہ مطالبہ نہیں ہے تو ہونا چاہیے۔ عورت وہ جو اپنے شوہر کے ساتھ تنگ دستی کے وقت میں بھی گزارا کر لے۔ بنت حوا وہ جو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرے۔ عورت جو مہر و وفا کا مرکز ہے ، عورت عالم اسلام کی علمبردار ، معاشرے کی پہچان ہوتی ہے، جب وہ بیٹی کی صورت میں دنیا میں تشریف لاتی ہے تو والدین کے لیے جنت کی دلیل ، بیوی کی صورت میں ہو تو اطاعت و فرمانبرداری کے باعث جنتی ٹھہرتی ہے لیکن جب ماں کے مقام کو پہنچتی ہے تو جنت اسکے قدموں تلے ہوتی ہے ۔ لیکن یہی عورت ہے جسے رشتہ سے انکار کرنے کے باعث تیزاب سے جُھلسا دیا جاتا ہے ، تو کبھی اِسی عورت کو دیوار میں چُنوایا جاتا ہے، کبھی والدین کی عزت کی خاطر خاموشی سے سب سہہ جاتی ہے، ساری زندگی شوہر کی اطاعت کے باوجود تین الفاظ کہہ کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔۔

جب کچرے کے ڈھیروں پر پڑی لاشیں بدبو چھوڑتی ہیں تو کیا اس وقت لڑکیوں کی لاشیں دیکھ کر دل رنجیدہ اور روح کانپتی نہیں ہے؟ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیاں معاشرے کو آئینہ نہیں دکھاتیں؟ آج ہمارا معاشرہ مکمل طور پر بے حس اور جاہل کیوں ہے؟ عورت کی صلاحیت صرف گول روٹی بنانے تک محدود نہیں ہے، وہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اور وہ اپنے خاندان کا سر فخر سے بلند کر سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے نے" صنف نازک " اور " کمزور عورت "کے لقب سے عورتوں کو سرفراز کیا ہے اور خواتین نے ان القاب کو فراخ دلی سے قبول کیا ہے یہ سچ ہے کہ عورت کمزور ہوتی ہے ۔ وہ مرد کے ایک تھپڑ سے گر جاتی ہے کیونکہ وہ جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے ۔ وہ اپنوں کی جھوٹی محبت کی خاطر اپنا آپ لٹا دیتی ہے ۔ والدین کی عزت کی خاطر اپنے حقوق بھلا دیتی ہے ۔ سسرال کی ناانصافیاں صرف اس رشتے کو بچانے کے لیے سہتی ہے کیونکہ والدین نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہوتا ہے کہ "بیٹا۔۔ یہ تمہارا نصیب ہے ، اسی کے ساتھ گزارا کرو "۔ وہ اپنا منہ سی لیتی ہے، کسی سے کچھ نہیں کہتی۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہی عورت پہاڑ جیسی مضبوط بھی ہوتی ہے۔ تب ہی تو وہ سب چپ چاپ سہہ لیتی ہے اور اندر سے مر جاتی ہے، اسکی خواہشات دم توڑ جاتی ہیں بھائی کی غیرت کی خاطر اپنی خواہشات کا گلہ گھوٹنے والی یہ عورت جب اس بھائی سے اپنا حصہ مانگتی ہے تو اسے دھتکار دیا جاتا ہے۔ اسکے نصیب میں شاید دھتکارنا ہی لکھا ہوتا ہے۔۔۔عورت ایک چلتی پھرتی ہستی ہے اور تمام خوبیاں اور پاکیزگی اس سے پھوٹتی ہے جو وہ شعوری طور پر نئی نسل کو منتقل کرتی ہے۔ اگر ایک نیک اور پرہیزگار عورت اپنے بچوں کو اخلاق کے بہترین اصولوں کی تعلیم دے تو گویا وہ پورے معاشرے کی اصلاح کا کام کر رہی ہے۔ درحقیقت نیکی اور بدی کی راہیں متوازی چلتی ہیں۔ بعض شعراء نے یوں بھی کہا ہے کہ عورت کے بغیر بزم ہستی کا تصور بھی ناممکن سا ہے یعنی کہ اگر بزمِ ہستی میں عورت نہ ہوتی۔ خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی۔ خدائی کا انصاف خاموش رہتا، سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی۔۔۔ میرا اس موضوع پر لکھنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ عورت کے ساتھ ہمیشہ ازل سے سے برا ہوتا آیا ہے اور ابد تک رہے گا نہیں۔۔ جہاں اسے اذیت دی جاتی ہے وہاں بہت سے شہزادے باپ کے شہزادے بیٹے انھیں بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھتے ہیں ہمیشہ عورت ظالم نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمیشہ مظلوم ہوتی ہے ۔ ۔

Zainab Nisar Bhatti
About the Author: Zainab Nisar Bhatti Read More Articles by Zainab Nisar Bhatti: 25 Articles with 10456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.