الجھاؤ

طبعی سائنس کا عظیم ترین اسرار کن فیکون کی ایک جھلک

خدا جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے --البقرہ ۷۱۱

خدا کے کہنے اور اس کے نتیجے میں کسی چیز کے ہونے کی کیا کیفیت ہے یہ ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں-یہ بات متشابہات میں سے ہے جو ہماری (انسانی) محدود زبان اور تجربے کی بنیاد پہ تمثیلاً بتائی· گئی ہے-اس کیفیت کو سمجھنا انسانی ذہن اور تجربے سے ما وراء ہے - لیکن یہ بات واضح ہے کہ جو بھی چیز ”کن “کے کہنے سے ہوتی ہے یا وجود میں آتی ہے وہ فوری طور پر ہوتی ہے اور فاصلے اور وقت سے مستثنیٰ ہوتی ہے- یعنی فاصلہ اور وقت اس عمل میںبے معنی ہوتے ہیں ، انکا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہوتا-ا س سے قطع نظر کہ اس آیت کی تشریح کیا ہو ، اس آیت سے ایک نہایت عظیم الشّان قوت و طاقت والی ہستی کا تاثر ملتا ہے جو ” قادر مطلق“ ہے اور بس اس کے آگے سوچنا انسانی ذہن کے بس سے باہر ہے-مگر انسانی ذہن مسلسل جستجو اور کھوج میں لگا رہتا ہے جو اس کا ودیعت کردہ وصف ہے- کسی کل چین سے نہیں بیٹھتا-چاہے اسے اس کی کتنی بڑی قیمت جان ، مال اور خواہشات کی دینی پڑے- بڑے بڑے فلسفیوں اور سائنسدانوں کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں- اسی جستجو کے دوران انسان پر حیرت انگیز اور نہ نظر آنے والی قوتیں اور تعاملات منکشف ہوئے جنہوں نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا- مثلاً بجلی ، ریڈیو کی موج ، ایٹمی قوت ، ہوا ، پانی اور خلاء کی تسخیر وغیرہ وغیرہ --

پچھلی صدی سایئنس میں ترقی کے لحاظ سے اب تک کی تیز ترین صدی تھی-اس صدی میں بہت سے حیرت انگیز مظاہر قدرت مشاہدے میں آئے، بے شمار ایجادات ہوئیں، اور انگنت دریافتیں ہوئیں اور لگاتار ہوئےجا رہی ہیں- ان ہی حیران کن مشاہدات میں سے سب سے زیادہ حیرت انگیز مشاہدہ ، ا یک ایسا حیران کن مظہر قدرت جو پہلے ریاضی سے اور پھر تجربہ سے مشاہدہ میں آیا جس میں ’ کن فیکون ‘ کی ایک جھلک ملتی ہے! یعنی بغیر کسی واسطے ، بغیر کوئی وقت لیے ، کسی بھی فاصلے پر کسی تبدیلی کا فوری واقع ہونا!

جسے ” الجھاؤ “ کا نام دیا گیا ہے ، (انگریزی میں ’ انٹنگلمنٹ ‘)- یہ بہت چھوٹے پیمانے پر ہونے والے ایک ایسے عمل سے متعلّق ہے جس کی کوئی توجیح ابھی تک نہیں کی جاسکی ہے-- آئیے دیکھتے ہیں کہ کوانٹمی طبیعیات کا یہ مشاہدہ کیا ہے-

کوانٹم نظریہ کا میدان تمام سایئنس میں حیرت انگیز ترین میدان ہے-یہ ان قوانین سے متعلّق ہے جو بہت چھوٹی اور باریک ترین دنیا پہ حکمرانی کرتے ہیں- اس نئی دنیا میں داخل ہونا ایسا ہی عجیب و غریب اور تحیّر کن ہے جیسے ایلیس کا ونڈر لینڈ میں جانا-اس دنیا میں ہمارے روزانہ کے تجربات کوانٹم کی دنیا میں کوئی معنی نہیں رکھتے-وہاں ایک ”اصول غیر یقینی“ حکمران ہے- کوئی بھی چیز درستگی سے نہیں جانی جاسکتی-محض امکانات اور اتفاقات کا ا یک دھندلکا ہے-

لیکن سب سے زیادہ چکرا دینے والا مشاہدہ وہ ہے جسے ” الجھاؤ“ (اینٹنگلمنٹ) کا نام دیا گیا ہے-دو اجسام ایک دوسرے سے پراسرار طور پر مربوط ہوتے ہیں- جو کچھ بھی ایک کے ساتھ ہوتا ہے وہ فوری طور پہ اسی وقت دوسرے میں تغیر یا تبدیلی کا موجب بنتا ہے- چاہے وہ ۲ ملی میٹر دور ہو یا کایئنات کے دوسرے سرے پر! ---------یہ کیسے ممکن ہے؟ ------- کیا اشارات ہیں کایئنات کے بارے میں ہمارے فہم کے لیے اور ان پراسرا ر قوانین کے لیے جو اس کایئنات کی تاریک ترین خفیہ پہنائییوں میں حکمران ہیں-

مشہور نظری ریاضی داں (تھیوریٹیکل میتھ میٹیشین) ایمر ڈی ایکزل جو کئی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ’فرمیٹ لاسٹ تھیورم‘ اور ’ رڈل آف دی کمپاس‘ شامل ہیں اپنی کتاب ”اینٹنگلمنٹ“ میں صفحہ ۹۴۲ پہ لکھتے ہیں:- الجھاؤ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ہمیں دنیا ؛ وقت اور خلا ءکی اصلیت کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟ طبعی سائنس کے میدان میں غالباً یہ سخت ترین سوالات ہیں - ”الجھاؤ“ دنیا کے بارے میں ان سارے تصورات کا طلسم توڑ دیتا ہے جو ہمارے معمول کے حواس کے ذریعے تجربات نے ہمارے ذہن میں قائم کیے ہیں- حقائق کے بارے میں یہ تصّورات ہماری نفسیات میں اس طرح سے پیوست اور جمے ہوئے ہیں کہ بیسویں صدی کا عظیم ترین سا ئنسداں البرٹ آئین اسٹائن بھی ان روز مرہ کے تصورات سے دھوکا کھا کے یہ سمجھتا تھا کہ ” کوانٹم میکانیات“ ’نامکمل‘ ہے- کیونکہ اس میں وہ عناصر شامل نہیں ہیں جن کے بارے میں اس کو یقین تھا کہ وہ حقیقت ہیں- وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ جو کچھ بھی ایک جگہ وقوع پذیر ہوتا ہے اس کا کسی فاصلے پر ہونے والے واقعہ سے براہ راست اور فوری طور پر مربوط ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے- ” الجھاؤ “ اور اس سے متعلّق کوانٹمی مظاہر کے جوازکو سمجھنے کے لیے یا محض سادہ طور پہ تسلیم کرنے کے لیے ہمیں پہلے یہ ماننا پڑے گا کہ کا ئنات کی حقیقت کے بارے میں ہمارا تصور ناقص ہے-”الجھاؤ“ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے روزمرہ کے تجربات ہمیں ان بہت چھوٹے پیمانے (مائکرو اسکیل) پہ ہونے والے واقعات کو سمجھنے کی قابلیت سے لیس نہیں کرتے جنہیں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے- گرین اسٹائن اور جاژونک (مصنف ،دی کوانٹم چیلینج) اس تصور کو سمجھانے کے لیے ایک مثال پیش کرتے ہیں- ایک بیس بال کو اگر کسی دیوار پہ مارا جائے جس میں دو کھڑکیاں ہوں تووہ دونوں کھڑکیوں میں سے ایک ساتھ گزر کر باہر نہیں جاسکتی-یہ وہ بات ہے جو ہر بچہ تک اپنے وجدان سے جانتا ہے- لیکن ایک منفی برقیہ(الیکٹرون)، تعدیلی برقیہ(نیوٹرون)) یہاں تک کہ ایک ایٹم تک کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہو جس میں دو جھرِیاں (سلٹ) ہوں تو وہ ان دونوں میں سے ایک ساتھ گزر جائیں گے! تصورات علّت (اسباب و علل) اور ایک ساتھ کئی جگہ ہونے کے ناممکن خیال کو کوانٹم تھیوری نے چکناچور کر دیا- ” مافوق الوقوعیت“ (سپر پوزیشن) کا تصور ----یعنی دو جگہوں پر ایک ساتھ موجود ہونا-----”الجھاؤ“ کے مظہر سے پیوستہ ہے- لیکن ”الجھاؤ“ مزید اور ڈرامائی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہمارے اس تصور کو توڑ کے رکھ دیتا ہے کہ جس میں ہم سمجھتے ہیں کہ مکانی دوری کوئی معنی رکھتی ہے- ” الجھاؤ“ کو ”اصول ِ مافوق الوقوعیت “ کے طور پہ بیان کیا جا سکتا ہے جس میں دو یا دو سے زیادہ ذرات( یا اجسام) شامل ہوں- ”الجھاؤ“ دو یا دو سے زیادہ ذرّات کی حالتوں کی ”مافوق الوقوعیّت “ ہے جنہیں ایک نظام(سسٹم) کے طور پہ لیا گیا ہو- دوری یا فاصلہ کا تصور ، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں ، ا یسے نظام کی رو سے ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے-دو ذرّات جو لاکھوں میل یا نوری سال دور ہوں ایک کنسرٹ کی طرح کام کرتے ہیں-جو کچھ ایک کے ساتھ ہوتا ہے وہی دوسرے کے ساتھ بھی ہوتا ہے، فوری طور پہ ، ان کے درمیان فاصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے، ا نکے درمیان دوری سے علی الرّغم-

الجھاؤ اور غیر مقامیت کو ثابت کرنے والے تجربات:-
غیر مقامیت (نان لوکلٹی) یا مافوق الوقوعیت (سپر پوزیشن ) کو ثابت کرنے والا پہلا تجربہ فرانس کے سایئنسدان الایئن ایسپیکٹ نے کیا- اس تجربہ کا سب سے اہم حصہ یہ تھا کہ ایسپیکٹ کو ایک بہت سریع الرفتار یعنی ۳۴ نینو سیکنڈ سے بھی کم دورانیے کے سویئچ کی ضرورت تھی- تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ فوٹان کی حالت میں تبدیلی روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے - اس نے پانی میں الٹرا ساؤنڈ( انتہائی مافوق الصّوت موج) کی مدد سے روشنی کو نہایت تیزی سے منعکس کر کے ایک ایسا سویئچ بنایا جو اس تجربے کے لیے لامحالہ درکار تھا- اس عظیم سریع الرفتار سویئچ کا سوئی چنگ کا دورانیہ صرف تقریباً ۳۱ نینو سیکنڈ تھا-(ایک نینو سیکنڈ ایک سیکنڈ کا دس کروڑواں حصہ ہوتا ہے!) اس تجربہ سے یہ ثابت ہوا کہ بغیر کسی رابطے یا سگنل کے روشنی کے الجھے ہوئے فوٹون فوری طور پر ایک دوسرے کی حالت میں تبدیلی پر رد عمل کرتے ہیں-اس تجربہ کی تفصیلات ”اینٹنگلمنٹ“ صفحہ ۸۸۱ پہ دیکھی جاسکتی ہیں-

بعد میں شیھ نے اسی مظہر کو استعمال کرتے ہوئے ”گھوسٹ امیج“ تجربہ میں ایک عکس کو تجربہ گاہ میں ایک فاصلے(چند میٹر) پر تخلیق کرنے کا مظاہرہ کیا ، الجھے ہوئے فوٹونوں کی مدد سے- اس تجربہ کی تفصیلات صفحہ ۰۰۲ پر موجود ہیں-

پھر گیزن نے ۰۱ کلومیٹر کا تجربہ کیا اور الجھاؤ کو ثابت کیا-

الجھاؤ کیا ہے؟ اس کے لیے مختلف ساینسدانوں کے مختلف نظریات ہیں- ایلبن شیمونی نے نظریہ اضافیت کے تصوّر کو بچانے کے لیے اس کو فاصلے پر قربت کہا ہے- وہ سمجھتا ہے کہ ” الجھاؤ“ کا مشاہدہ ابھی بھی کوانٹم اور اضافیت کو ایک ساتھ الگ الگ نظریہ کے طور پر موجود رہنے کی اجازت دیتا ہے-

دوسرے طبیعیات دانوں نے سمجھا ہے کہ بحرحال ”نظریہءاضافیت“ کی روح (یعنی کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہو سکتی) ”الجھاؤ “ کے مشاہدے سے ختم ہوجاتی ہے- کیونکہ ” کچھ “ تو ہے اور وہ جو کچھ بھی ہے جو ”الجھے ہوئے “ ذرات کے درمیان روشنی سے زیادہ رفتار سے ، بلکہ درحقیقت لامتناہی رفتار سے سفر کر رہا ہے! آنجہانی جان بیل کا یہی خیال تھا-

ایک اور دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ الجھے ہوئے ذرات خلاء یا فاصلے سے ماوراء ہیں -الجھی ہوئی اشیاء دراصل ایک ہی نظام(سسٹم) کا حصہ ہیں اور یہ نظام ان کے درمیان طبعی فاصلے سے متاثّر نہیں ہوتا ہے- نظام ایک اکائی کے طور پہ عمل کرتا ہے- لہٰذہ ”نظریہءاضافیت “بلکہ ”اصول غیر یقینی“ تک کی خلاف ورزی نہیں ہوتی-”کوانٹمی الجھاؤ “( کوانٹم اینٹنگلمنٹ) کے عنوان سے لکھے گئے تحقیقی مقالے میں ینہئا شیھ نے یہی دلیل قایم کی ہے-

اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسداں اس مشاہدے کی اصل وجہ بتانے سے فی الحال قاصر ہیں اور ان میںمختلف آراء پائی جاتی ہیں-کوئی ٹھوس ثبوت کسی نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ابھی تک نہیں ملا ہے- دوسرے یہ کہ یہ مشاہدہ ثابت شدہ ” نظریہءاضافیت“ اور ” اصول غیر یقینی“ سے متضاد نظر آتا ہے جن کے تجرباتی ثبوت بھی مل چکے ہیں بلکہ ٹکنالوجی میں ان کا اطلاق بھی کیا جا رہا ہے - اس لیے بہت سے سایئنسداں اس تضاد کو قبول کرنے میں ابھی ہچکچا رہے ہیں-

اصل حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ معلوم حقیقت ہے کہ ” الجھاؤ“ موجود ہے ، یعنی دو اجسام ، فوری طور پربغیر کسی رابطے کے ایک دوسرے کی حالتوں میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں خواہ ان کے درمیان فاصلہ کچھ بھی ہو- یہ عمل ابھی پوری طرح قابو میں نہیں آسکا ہے یعنی سائنسدان ابھی اسے کوئی پیغام یا جسم لا متناہی رفتار سے کسی اور جگہ ”بھیجنے“ یا ”دوبارہ تخلیق “ کرنے کے لیے استعمال کرنے کے قابل نہیں ہیں، مگر اس بات کی امید ہے کہ مستقبل میں شاید یہ ممکن ہو سکے-

اس عالم کون و مکاں کہ جس کو عالم اسباب بھی کہا جاتا تھا اور خدا کو مسبب الاسباب، لیکن روز افزوں بڑھتا ہا علم ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ اس کایئنات کا نظام اسباب کی وجہ سے نہیں بلکہ ’امر ‘سے چل رہا ہے- خدائی حکم سے ہر آن اور ہر پل- خدا کسی کام کو کرنے کے لیے سبب کا پابند نہیں ہے- ”اصول غیر یقینی “ ہمیں بتاتا ہے کہ جن ذرات سے مل کر یہ کایئنات اور زندہ اشیاءبنی ہیں وہ ہمہ وقت ، شاید ایک سیکنڈ میں کروڑوں یا اربوں بار اس حکم کے محتاج ہیں جو انہیں یہ بتائے کہ وہ ان بے شمار قابل اختیار حالتوں میں سے کونسی حالت اختیار کریں جو ان کو باقی اور زندہ رکھ سکے-یہ کام محض اتفاقات سے نہیں ہو سکتا----ہر پل کروڑوں اوراربوں حسن اتفاقات!---کایئنات اور اسکی زندگی کو باقی رکھنے کے لیے؟ ------ناممکن!-----صرف اور صرف اللہ کا حکم اس کایئنات کو قایئم رکھے ہوئے ہے-مادّہ پرست اس بات کو نہیں سمجھتے-
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 43628 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More