امت مسلمہ کی خواتین کے مسائل کا حل سیرت فاطمہ کی روشنی میں

معاشرے کی تعمیر مرد اور عورت دونوں مل کر کرتے ہیں معاشرے کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ معاشرے کی تشکیل میں مرد و زن کے اشتراک سے ہوتی ہیں ایک انسانی معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کا اشتراک لازمی سمجھا جاتا ہے۔عورت معاشرے کا صرف ایک حصہ نہیں بلکہ ایسی ہستی بھی ہے جو معاشرے کو سنوارثی بھی ہے اور بگاڑتی بھی ہے ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی عورت کو وہ مقام نہیں ملا جس کی وہ حق دار تھی اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیے ہیں مگر پدرسری معاشرے میں عورت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ عورت کو بطور عورت لکھا اور سمجھا جانے لگا لیکن عورت اپنا وجود بطور انسان بھی رکھتی ہے۔ خواتین کے بہت سے مسائل ہیں موجودہ دور میں دیکھیں تو مسلم معاشرہ میں پردہ سے بے زاری کا رجحان بھی سامنے آتا ہے عام مشاہدہ یہ ہے کہ سماج کی مسلم خواتین بے پردہ نظر آتی ہیں اگر تعلیم حاصل کرنا خواتین کے لیے ضروری ہے تو پردے میں رہنا بھی ضروری ہے۔ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو عورت خود پردہ ہے عورتوں کی تعلیم حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے پردگی اور بے راہ روی اختیار کریں اس بے پردگی کی وجہ سے کتنے پیش آتے ہیں جنسی ہراسیت جیسے مسائل بھی ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں بے پردگی کا عنصر بھی کہیں نہ کہیں شامل ہے

بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے عورت خوف و ہراست کا شکار رہتی ہے ان تمام مسائل کا حل سیرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہ بہت پردہ دار خاتون تھی۔ آپ رضی اللہ کا ایک بال بھی آسمان نے نہیں دیکھا کہ آپ دنیا میں نہیں بلکہ بعد از وصال بھی پردے کا اہتمام ہوگا اور پردے کی اقسام ہیں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ جسم کا پردہ ہی پردہ ہے بلکہ اپنی نظر کا پردہ بھی کرنا ہے بہت سے مسائل درپیش آتے ہیں ان میں نصف مسائل کا حل تو پردہ داری ہےپردہ قید نہیں ہے۔ پردہ قلعہ ہے ۔یہ پابندی نہیں ہے بلکہ عفت و پاکدامنی ہے۔ حضرت فاطمہ کو پردےسے محبت تھی اس حوالے سے فاطمہ کی سیرت مبارکہ خواتین کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ سے پوچھا عورت کے لئے سب سے بہترین چیز کیا ہے تو آپ رضی اللہ نے فرمایا "عورت کے لئے سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ وہ کسی نامحرم مرد کو نہ دیکھے"۔پھر اس حوالے سے حضرت فاطمہ کا یہ بھی قول بھی بڑی رہنمائی کرتا ہے کہ
"عورت کا کمال یہ ہے کہ اس کی خوشبو بھی کوئی مرد محسوس نہ کر پائے"

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پردہ داری کے اتنے باکمال عناصر موجود ہیں کہ مسلمان خواتین ان کا اگر بغور مطالعہ کریں تو بہت سے فراڈ اور سیاسی دھوکوں سے بچ سکتی ہیں

خواتین کے مسائل میں دوسرا بڑا مسئلہ ان کی ازواجی زندگی کے متعلق ہے عورت جب اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ اپنا حق نہیں مانگتی ہے بلکہ وہ مرد کی کہیں نہ کہیں برابری کا دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے۔یہ بات حق بجا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے عورت کا استحصال تو کیا جاتا رہا ہے لیکن کہیں عورت اپنا استحصال خود کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتی ہے شادی آج کے معاشرے کا بڑا چیلنج ہے
بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی صرف اس وجہ سے نہیں کر پاتے کہ ان سے شادی کے اہتمامات نہیں ہو پاتے ہیں اس میں بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کو دیکھیں تو فاطمہ رضی اللہ اور حضرت علی رضی اللہ کی شادی کین بنیادوں اور کیسے ہوئی یہ جاننا آج کے معاشرے کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور انہیں کیسے نبھایا جاتا ہے اس مسئلہ کا حل بھی ہمیں حضرت فاطمہ کی زندگی میں سے ہی ملتا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ نے کہا کہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے باہر کی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داری میری ہے

پھر خواتین کے مسائل میں ایک خاندانی مسلہ بھی سامنے آ جاتا ہے ایک اچھے خاندان کی تشکیل کے لئے روشن رہنما حضرت فاطمہ کا خاندان ہے خواتین کی شادی کا معیار مال و دولت رکھا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہی معیار ہے آج بچیوں کے رشتے نہ ہونے کی وجہ رشتوں کا نہ ہونا نہیں بلکہ معیار دولت کو بنا دیا گیا ہے حضرت فاطمہ کا رشتہ عرب کے امیر گھرانوں کے لئے بھی مانگا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اور کہا کہ اللہ کے حکم کا منتظر ہوں جب حضرت علی سے رشتہ طے فرمایا تو حضرت علی مالدار نہیں تھے کیونکہ جو مال و دولت تھا اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے ۔ایمان کی بنیاد پر رشتہ داری کی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اس معاملے میں حضرت فاطمہ کی زندگی مشعل راہ ثابت ہوتی ہے۔ جہالت کے دور میں عورت کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن اب اسےزندہ دفن نہیں کیا جاتا لیکن خواہشات کو ضرور دفن کیا جاتا ہے ۔موجودہ معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ خاندانی نظام زندگی کو متاثر کرتا ہے وہ بیٹوں اور بیٹیوں کی مرضی کے بغیر شادی کرنے کا فیصلہ مسلط کرنا ہے زبردستی کی شادی کروانا یعنی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھنا ہے آج بھی قتل کے بدلےمیں بیٹی کو دے دیا جاتا ہے اور ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں کہ طلاق کے بعد بیٹی کو حق مہر کے طور پر ماں کے ساتھ رخصت کردیا جاتا ہے بیٹا اپنے باپ کے پاس ہی رہ جاتا ہے یا ایک ماں ا بیٹے کی خواہش میں بیٹی کے حوالے سے کہتی ہے کہ اگر خدا بیٹا عطا کرے تو میں اپنی ایک بیٹی کسی کو بلا معاوضہ دے دوں گی ۔مشرقی معاشرے میں بہت سی وجوہات کی بنا پر شادی کروائی جاتی ہے ۔اس مسئلہ کا حل بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی سے ہمیں ملتا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان کی بنیاد باہمی رضامندی اور خوشی پہ تھی حضرت علی سے جب آپ کا رشتہ طے کیا گیا تو نبی کریم صل وسلم سے آپ سے آپ کی مرضی پوچھی اور آپ کی مرضی کو ترجیح دی۔ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کے سلسلے میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جہیز ایک لعنت ہ میری رائے کے مطابق جہیز کو لعنت ہم نے خود بنایا ہے جہیز کی وجہ سے بہت سی بیٹیاں اپنے ماں باپ کے گھر میں ہی زندگی گزارتی ہیں یہ قرار دینا اس معاملے میں حضرت فاطمہ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت علی نے ایک زرہ حق مہر دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے بازار میں فروحت کرو تاکہ اس کی قیمت سے فاطمہ کا جہیز اور گھر کا سامان خرید سکوں جہیز میں چند چیزیں دی گئی یہ ہر گز نہیں سمجھا جائے کہ حضرت علی کے گھر چیزیں نہیں تھی بلکہ ایک باپ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کہ بیٹی خالی ہاتھ جائے جہیز دلہے کی طرف سے دیا جاتا تھا اب ہمارے معاشرے نے مشکل بنا دیا ہے ۔خواتین کی ازدواجی زندگی ہو یا کسی بھی حوالے سے مسائل ہوں خواہ گھریلو مسائل ہیں ان سب کا حل سیرت فاطمہ میں موجود ہے ۔ تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کی ایک ہی صورت ہے سیرت فاطمہ کو پڑھ کر عمل کیا جائے ۔
مل گئی ہے مجھکو جرات ہو گیا بیباک بھی​
مدحت زہرا نے بخشی قوت ادراک بھی​
 

Shafia Subas Abbasi
About the Author: Shafia Subas Abbasi Read More Articles by Shafia Subas Abbasi: 6 Articles with 7961 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.