عاشق رسول حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ

(تاریخِ وصال کی مناسبت سے خصوصی تحریر)

منزل عشق کا مینار اویس قرنی
عاشق سید ابرار اویس قرنی
ظاہری آنکھوں کو دیدار محمد نہ ہوا
پھر بھی کرتے تھے بہت پیار اویس قرنی
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کوغیروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھتاہے اورمحب محبت کوبتقاضۂ غیرت عوام پرظاہرنہیں ہونے دیتاکیونکہ غیرت محبت کی صفت ہے۔اولیاء کرام کاایک گروہ ایسابھی ہے جس نے خودکوعوام کی نظروں سے مستورومخفی رکھا۔یہی وہ اولیاء کرام ہیں جن کو’’اولیاء تحت قبا‘‘کہاگیاہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنے (محبوب)بندوں میں سے برگزیدہ بندوں کودوست رکھتاہے جومخلوق کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں‘‘۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا’’یارسول اللہ ﷺفرمائیے وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ اویس قرنی ہے‘‘۔

حضرت اویس قرنی ظاہری نام ونموداوراہل دنیاسے اختلاط سے بھاگتے تھے۔ایک عالم مستی تھاجوہروقت چھایارہتاتھا۔ہمہ وقت ذکروفکر،استغراق ومحویت اورجذب وسکرکی کیفیت کاعالم ہوتا۔آپ دنیاسے مخفی اورمستورالحال رہے یہی وجہ ہے کہ اپنے اوربیگانے آپ کونہیں جانتے تھے۔مستورالحالی کے باعث آپ کے حالات زندگی سے لوگ کم واقف ہیں۔

تذکرۃ الاولیاء میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ حدیث مبارکہ تحریرہے کہ:’’رسول اللہ ﷺ ارشادفرماتے ہیں :کہ محشرکے روزسترہزارفرشتوں کے ساتھ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ جنت میں داخل ہوں گے اوروہ سترہزارفرشتے آپ رضی اللہ عنہ کے ہم شکل ہوں گے تاکہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی شناخت نہ ہوسکے۔صرف اُس شخص کوشناخت ہوگی جس کواللہ تعالیٰ ان کے دیدارسے مشرف کرناچاہے گا۔اوریہ اس وجہ سے ہوگاکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی خلوت نشیں ہوکراورمخلوق سے پردہ پوشی اختیارکرکے محض اللہ تعالیٰ کی عبادت وریاضت میں مستغرق رہے۔مسلم شریف اورمشکوٰۃ شریف میں یہ حدیث درج ہے۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ایک شخص یمن سے آئے گاجس کانام اویس ہوگا۔وہ یمن میں اپنی بوڑھی ماں کے سواکسی کونہیں چھوڑے گا۔اس کے بدن میں سفیدی تھی۔اس نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی اوراللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کوختم کردیا۔ہاں ! ایک درہم یاایک دینارکے برابرسفیدی رہ گئی ۔پس تم میں سے جوشخص اس سے ملے اس کوچاہیے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعاکرائے‘‘۔

حلیہ مبارک:مفتی فیض احمداویسی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کاحلیہ مبارک اس طرح سے ہے کہ آپ کارنگ گندمی ،قدمیانہ اورجسم فربہ تھا۔ناک شریف پرگوشت زیادہ تھاآپ کی داڑھی مبارک گھنی اوربال پراگندہ ،الجھے ہوئے اوررگردآلودرہتے تھے۔آنکھیں سیاہ نیلگوں تھی۔ٹھوڑی پیشانی کی طرف اٹھی ہوئی تھی دونوں کاندھوں میں فاصلہ زیادہ تھااورآپ کے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی پرسفیدبرص کانشان تھا۔آپ کی شکل مبارک پرمہیب افسردہ حالی اورپریشانی اوروارفتگی ظاہرکرتی تھی گویاآپ کاحلیہ مبارک آپ کی حقیقت حال کی صحیح تصویرتھی۔آپ کاشہودمیں کمال استغراق درگاہِ بے نیازمیں خشوع ونیازخودرفتہ ہونااورفنافی اللہ ہوجانا اس سے صاف صاف ظاہرہوتاہے کہ یہی ایک رتبہ عظیم ہے جوکسی دنیادارکومیسرنہیں۔

تعلیم وتربیت:حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی تعلیم وتربیت کاجہاں تک سوال ہے یہ ایک سربستہ رازہے جومنشاء خداوندکریم کے تحت پوشیدہ ومخفی رکھاگیاہے۔اگرچہ آپ نے ظاہری تعلیم حاصل نہ کی لیکن سرورکائنات ﷺ کی عقیدت ومحبت کے روحانی توسل سے نہ صرف آپ رضی اللہ عنہ آقائے کریم ﷺ سے تربیت یافتہ تھے بلکہ بارگاہِ رسالت میں آپ کومرتبہ محبوبیت بھی حاصل تھا۔رسول کریمﷺ کی نبوت کی غائبانہ تصدیق قلبی اورحرارت ایمانی نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے قلب وروح میں والہانہ عشق کی آگ بھڑکادی۔اسی عشق نے آپ کوفنافی اللہ اورفنافی الرسول کردیاتھا۔عشق کی یہ آگ دونوں طرف محب ّاورمحبوب کوماہی بے آپ کی طرح ہروقت بے چین اوربے قرارکئے رکھتی تھی۔ایک طرف حضرت اویس قرنی یادمحبوب میں نبی کریمﷺ کے احوال کی جستجومیں رہتے اورہروقت سنت مصطفوی پرچلنے کی کوشش کرتے ۔عشق ومحبت میں ایسے جذب کہ غلبۂ استغراق کی کیفیت ہروقت طاری رہتی۔دوسری طرف سرورکائنات ﷺکی یہ حالت کہ وفورِ شوق میں اپنے پیراہن کے بندکھول کرسینۂ مبارک یمن کی جانب کرکے فرماتے :’’میں یمن کی جانب سے نسیم رحمت پاتاہوں‘‘۔(یعنی اپنے عاشق اویس قرنی کی خوشبو پاتا ہوں)
قصص الاولیامیں ہے کہ :’’حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ طلوع اسلام سے پہلے اس دنیامیں تشریف لاچکے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ عہدطفولیت ہی میں والدکی شفقت سے محروم ہوگئے۔اس لئے پچپن ہی میں محنت ومزدوری کرناشروع کردیا۔آپ لوگوں کے اونٹ اجرت پرچرایاکرتے تھے اوراس اجرت سے اپنااوراپنی ضعیفہ اورنابیناماں کاپیٹ پالاکرتےتھے۔ اس کے علاوہ جوتھوڑی سی رقم بچ جایاکرتی اس کولوگوں میں تقسیم کردیاکرتے تھے ۔آپ زندگی کے شب وروزاسی طرح گزاررہے تھے کہ یمن تک اسلام کے نام لیواپیداہوگئے ۔جب آپ کواسلام اورنبی کریم ﷺکے متعلق خبرملی توآپ فوراًمشرف باسلام ہوگئے۔آپ کے اندرنورہدایت کی شمع ہدایت کوجِلاملی۔آپ رسول اللہ ﷺ کے دیوانے اورشیدائی بن گئے‘‘۔

دیدارِمصطفیٰﷺ:علماومشائخ کااجماع ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے غوث اورمستورالحال تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکارِ دوعالم ،نورِمجسم کے ہم زمان ہونے کے باوجودآپ کی زیارت سے محروم رہے۔اس سلسلے میں جمہورعلماومشائخ کی یہی رائے ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے خدمت ِ نبوی میں حاضرنہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی والدہ اپنے سے دورنہ ہونے دیتی تھیں اورآپ دن رات ان کی خدمت واطاعت میں رہتے تھے ان کی نافرمانی سے بہت ڈرتے تھے اوریہ استطاعت بھی نہ رکھتے تھے کہ والدہ ماجدہ کوبھی ہمراہ سرکارﷺکی خدمت ِاقدس میں لے جائیں اورنہ ان کوایک لمحہ کے لئے تنہاچھوڑسکتے تھے۔حضرت داتاگنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف کشف المحجوب میں اورحضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے تذکرۃ الاولیامیں تحریرفرمایاہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے جورسول اللہ ﷺ کی زیارت نہ کی ،اس کے دوسبب تھے:(۱)غلبۂ حق(۲)والدہ کی خدمت گزاری(جوکہ ضعیف اورنابیناتھیں)۔

عبادت وریاضت:حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے راہ سلوک میں بڑے بڑے مجاہدات کیے ۔آپ کواصلاح نفس ،تزکیہ روح اورمجاہدات وریاضت سے فرصت نہ ملتی تھی۔ساری ساری رات پلک سے پلک نہ ملتی تھی۔سیرالصحابہ میں ہے کہ آپ رات قیام میں گزارتے دوسری شب رکوع میں اورتیسری شب سجدہ میں گزاردیتے ۔لوگوں نے عرض کیاکہ آپ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ درازراتیں ایک حالت میں گزاردیں۔فرمایادرازراتیں کہاں ہیں؟ کاش ازل سے ابدتک ایک رات ہوتی جس سے ایک سجدہ کرکے گریہ بسیارکرنے کاموقع نصیب ہوتا۔افسوس کہ راتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ صرف ایک دفعہ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے پاتاہوں کہ دن ہوجاتاہے۔اکثررات کے ساتھ دن بھی عبادت میں ہی گزرجاتاتھا۔حضرت ربی بن خثیم تابعی کابیان ہے کہ ایک دن میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا۔دیکھاکہ وہ فجرکی نمازمیں مشغول ہیں۔میں اس خیال سے کہ ان کی تسبیح وتہلیل میں حارج نہ ہوں اس سے فارغ ہونے کاانتظارکرنے لگا۔وہ ظہرکی نمازتک برابرمشغول رہے۔پھرظہرسے عصرتک اورعصرسے مغرب تک یہی حال رہا۔میں نے سوچاکہ مغرب کے بعدشایدافطارکے لئے جائیں لیکن وہ برابرعشاء تک مشغول رہے۔پھرعشاء سے صبح تک یہی کیفیت رہی۔دوسرے دن نمازفجرکے بعدنیندکاکچھ غلبہ ہوالیکن پھرمستعدہوگئے۔

قارئین ! خیرالتابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ بے شمارفضائل ومراتب کے حامل ہیں ۔اس مختصر سے مضمون میں اتنی وسعت نہیں کہ کما حقہ آپ کے فضائل و مناقب کو اپنے دامن میں سمیٹ سکے، تبرکااختصارسے کام لیا جاتا ہے ۔نبی کائنات ﷺ کاظاہری دیدارتوآپ کونصیب نہ ہوسکامگرآقائے کریم ﷺنے وصال ظاہری کے وقت اپناجبہ مبارک حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کوپہنچانے اوران سے امت کی بخشش کی دعاکے لئے فرمایاتھا۔جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام تھے تب عاشق رسول حضرت اویس قرنی کاپتہ چلاتوفرمان رسول ﷺ کی تعمیل میں حضرت عمرفاروق اورحضرت علی، ایک روایت کے مطابق حضرت بلال حبشی رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ساتھ یمن پہنچ کرحضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ کوآقائے کریم ﷺ کافرمان سنایااورجبہ پہنایا۔آپ رضی اللہ عنہ نےاپنے آقاﷺ کی گنہگارامت کی بخشش کے لئے دعافرمائی ۔آپ کی دعاکی برکت سے اللہ تعالیٰ قبیلہ مضرکی بھیڑبکریوں کے بالوں کے برابرگنہگاروں کی مغفرت فرمائےگا۔

وفات: حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات کے سلسلے میں اختلاف پایاجاتاہے۔امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ نے روضۃ الریاحین میں دوروایتیں لکھی ہیں۔ایک روایت کے مطابق ۳/رجب المرجب ۲۲ھ ہے اورایک دوسری روایت میں ۱۳/رجب المرجب ۳۷ھ درج ہے۔

 

Shams Tabrez Alimi
About the Author: Shams Tabrez Alimi Read More Articles by Shams Tabrez Alimi: 14 Articles with 7074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.