بیٹی ہی باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مائیں بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو زیادہ چاہتی ہیں جبکہ بیٹیاں اپنی ماں کے مقابلے میں باپ کو زیادہ پیار کرتی ہیں تاہم پدرانہ شفقت کے معیار کا تعین کرنا مشکل ہے۔ باپ اپنی بیٹیوں کیلئے ایک تناور درخت کی طرح ہوتا ہے جس کے سائے میں وہ پرورش پاتی ہیں۔ باپ کا حوصلہ افزا ئرویہ بیٹیوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سماجی اقدار کی پاسداری‘ باہمی اعتماد‘ غیرمشروط اور باپ کی پرخلوص بے لوث محبت ایک بیٹی کو مستقبل میں کامیاب زندگی گزارنے کیلئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایک باپ کا اپنی بیٹی کے ساتھ مشفقانہ رویہ اور محبت ایک ایسا بہترین تحفہ ہے جس سے اس کی بچی کی شخصیت میں نہ صرف خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے بلکہ وہ مستقبل میں ایک کامیاب زندگی بھی بسر کرتی ہے۔ماں باپ سے بڑھ کر کوئی کسی سے پیار نہیں کرسکتا اگر ماں کی بات کریں تو اﷲ پاک نے خود فرمایا میں ستر ماؤں جتنا پیارکرتاہوں یعنی ماں میں رب کریم کی کئی صفات ہیں باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے اسی طرح ہر رشتہ ہی اپنے اندر پناہ محبت سمیٹے ہوئے ہے مگر اس سے کہیں بڑھ کرباپ اور بیٹی کے تعلق کو بھی اﷲ پاک نے ایک انوکھے احساس سے نوازا ہے۔جس میں نہ بیٹی باپ کا درد دیکھ سکتی ہے نہ باپ اپنی بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت کر سکتا ہے۔ راقم کے چار بھائی ہیں اور ایک بہن ہے بھائیوں کے ساتھ والدین کی بھی لاڈلی ہم پانچوں بھائی ابوجان کو کوئی بات کہیں تو بہت مشکل سے مانی جاتی مگر ہماری بہن اکیلی کوئی بات منوانی ہو توابوجان کبھی نہ ٹالتے اور کوشش کرتے کہ پہلی فرصت میں اپنی بیٹی کی خواہش پوری ہو گویا جیسے حکم کی تعمیل ہورہی ہو اس پر ہمیشہ ہم بھائیوں کو رشک رہتا اور کئی بار تو ہم بھی اپنی بات منوانے کیلئے آپی کا سہارا لیتے کیونکہ پتا تھا رزلٹ سو فیصد ہی آئے گا اور جب آپی ابو جی کے پاس بیٹھتی لاڈ کرتی ابو سے پیار کرتی تو ابو جی کہتے اچھا بولو کیا کام ہے توابو جان کہتے مجھے ہمیشہ پتا ہوتا ہے میری بیٹی مجھے کچھ کہنا چاہتی ہے اور امی جان بھی ہمیشہ آپی کا ساتھ دیتیں جس پر ابوجان چاہ کر بھی آپی کی بات کو نہ ٹال پاتے امی ابو کی بات کے دوران قرآن پاک کی یہ آیت یاد آئی کہرَبِّ الرحَمْھُماَ کَماَ رَبَّیٰنِیْ صَغِیْراًاے میرے رب:ان دونوں(میرے ماں باپ) پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا. باپ بیٹی کا رشتہ فطری محبت سے لبریز عقیدت واحترام کا پیکر ہوتا ہے۔کیوں کہ جہاں بیٹی باپ کی حیا اور عزت کے پاسداری کرتی ہے وہاں مشفق باپ بھی اپنے جگرِ گوشہ کو خود اعتمادی اور احترام سے نوازتا ہے۔اگر اس تعلق کو دیکھنا ہے تو اس کی خوب صورت مثال ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔جو اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمتہ الزھرہؓ کی آمد پرکھڑے ہو کر استقبال کرتے تھے یہاں تک کہ اپنی چادر بھی بیٹی کیلئے بچھادیتے اور بیٹی بھی وہ پاکیزہ اور جنتی جو اپنی روٹی کا آدھا حصہ خود کھاتی اور آدھااپنے بابا جان یعنی پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چھپا کر لے جاتیں۔باپ اور بیٹی کا یہ دوستانہ اور مشفقانہ رشتہ جو تمام تر رشتوں کا حسن اپنے اندر پنہاں کیے ہوئے ہے۔ایک باپ ہی ہوتاہیجس کی انگلی کا سہارا لے کر ہر لڑکی اس معاشرے سے آشنا ہوتی ہے۔ اچھے برے میں فرق اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کاہنر بھی بیٹی باپ سیسیکھتی ہے۔ جب باپ کا دست شفقت سر پر ہوتا تو بیٹی ہر فکر سے آزاد ہوتی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے اس کا مضبوط سہارا اس کے ہمراہ ہے۔
ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں

اکثر باپ کا رویہ اپنی بیٹی یا بیٹیوں کے ساتھ دلی طور پر مشفقانہ ہی رہتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ کو اپنے دل میں بیٹی کی محبت کو جگانا پڑتاہے۔بیٹیاں‘ باپ کواپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں‘ لہٰذا اگر باپ کا رویہ سخت ہو تو اس سے بچیوں کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ ماں کے مقابلے میں باپ سے زیادہ سہمی ہوئی رہنے لگتی ہیں۔ ہمارے مشرقی ماحول میں باپ کو گھر کے سربراہ کا رویہ ہی دوستانہ کے بجائے حاکمانہ ہو تو اس سے بچوں‘ خصوصاً بچیوں کی شخصیت پر دباو? کی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور پھر وہ پوری زندگی مرد کو سخت گیر ہی سمجھتی رہتی ہے اور اس طرح آگے چل کر ان کی ازدواجی زندگی بھی متعدد مسائل کا شکار ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں خصوصاً لڑکیوں کونظم و ضبط کا پابند بنانے کے سلسلے میں باپ کو مشفقانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ اس طرح بچیاں نہ صرف پابندیوں یا نظم وضبط کو خوشدلی سے قبول کرلیتی ہیں بلکہ ان پر دل سے عمل کرتی ہیں اور جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے وہ باپ کے اصول کی تعریف اور ان کے مثبت اثرات کا اعتراف بھی کرتی ہیں۔بیٹیاں بھی شہزادیاں ہوتی ہیں اس بادشاہ کی جسے دنیا والے باپ کہتے ہیں۔باپ وہ ہستی ہے جو اپنی محبت کا اظہار الفاظ سے نہیں کرتا بلکہ باپ کا ہر عمل محبت سے بھر پور ہوتا ہے۔کیوں کہ باپ بیٹی کی ایسی انوکھی محبت ہے جو الفاظ کا سہارا نہیں لیتی۔ اﷲ پاک ہمارے والدین کو صحت و سلامتی والی لمبی عمر عطا فرمائے جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے لیے دعائے مغفرت۔آمین

 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 198159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.