کتا

یہ لفظ پڑھ کر آپ کی طبیعت میں کچھ بے چینی ، نفرت اور ناراضگی کے ملے جلے احساسات آئے ہوں گے اوراگر اس کی بیگم یعنی " کتیا" کی بات کی جائے اور خاص کر جو کچھ اسے " پنجابی" میں کیا جاتا ہے تو ممکن ہے کچھ لوگ مجھ سے ناراض ہو جائیں۔ اور " کتیا کے بچے" ۔۔۔۔۔۔۔

دیکھئے جناب! اس میں میرے ساتھ ناراضگی کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یا لکھ رہا ہوں یہ ایسا ہی ہے اور اگر نہیں تو آپ اس کی تردید کردیں یا پھر اس کے مترادف کچھ اور کہیں۔ بھلا" کتیاکے بچوں" کو آپ اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ اور ہمارے اردو ادب میں تو اس جانور کی دُم تک کو نہیں چھوڑا گیا اور ایک معروف مصنف نے تو اس کے لڑنے کو لے کر جو لکھا تو لکھتے ہی چلے گئے اور ایسا لکھا کہ پڑھنے والے تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔ مگر تعریف کی بھی تو کس کی؟ ایک " کتے" کی یا ایک سے زائد " کتوں" کی۔ لیکن لکھنے اور تعریف کرنے والوں کا بھی کیا قصور جبکہ انسان ڈھونڈنے سے نہیں ملتے اور کتے تو جابجا پڑے ہیں۔ کئی خاندان تو اس جانور پر ایسے فریفتے ہیں کہ انہیں ملکی کتے پسند ہی آتے اور وہ دوسرے ممالک سے مہنگے داموں منگواتے ہیں۔

جس معاشرے میں انسان کو کھانے کے لالے پڑے ہیں وہاں کتوں کی خوراک باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ گرم لحاف میں لپیٹا جاتا ہے۔ گرمیوں میں اے۔سی کی ٹھنڈی ہوائیں میسر آتی ہیں۔ صبح کی سیر سے لے کر رات تک کے تمام اوقات میں نہ کھانے پینے میں کوئی چونک ہے اور نہ آرام کے معاملات میں اور الگ سے انسان ملازم رکھے جاتے ہیں کتوں کی دیکھ بھال کے لئے۔ یہ تو کتوں کو سر پر بٹھانے کے مترادف ہوا نہ؟
ہر جاندار کا اپنا مقام اور اپنی اوقات ہے جب ان کو یہ دونوں میسر آ جائیں تو سمجھ لیں کہ اب آپ کی خیر نہیں۔ آپ خود دیکھ لیں ہر گلی کوچے میں آپ کو یہ کتے رنگ رلیاں مناتے نظر آئیں گے۔ بھلا ہے انہیں کوئی ذرا شرم۔۔۔۔۔! اور جس پر چاہا بھونک دیا نہ چھوٹے کی تمیز نہ کوئی بڑے کی۔ کچھ کہنے لگو تو کہتے ہیں چھوڑیے جناب ـ" کتا" ہے۔ آپ بھی کس کے منہ لگ رہے ہیں کہاں آپ کہاں یہ ۔۔۔۔۔! اور کاٹ لے تو کہتے ہیں وہ تو آپ کے پاؤں چوم رہا تھا۔ یہ واحد جانور ہے جس کے کاٹنے سے چودہ ٹیکے لگتے ہیں۔ ویسے کہتے ہیں بڑا وفادار جانور ہے مگر مجھے اس کا تجربہ نہیں میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ اسے اس کی اوقات میں رکھا جائے اور اوقات یاد بھی کروائی جائے۔

جہاں کتے وفادار ہوتے ہیں وہیں یہ خونخوار بھی ہوتے ہیں اور کچھ بہت معصوم۔ مگر تمام کتے بڑی " کتی" طبیعت کے ہوتے ہیں اور ان کی موت بھی " ایک کتے کی موت" ہوتی ہے۔

میں تو سب کو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ کتا ملکی ہو یا غیر ملکی مہنگا ہو یا سستا وہ ہوتا کتا ہے اور اگر بچہ ہو تو۔۔۔۔۔!

تمام کتوں کی اپنے مخصوص زبان ہوتی ہے وہ صرف کتے ہی سمجھتے ہیں۔ اور باقی تمام جانوروں سے ہٹ کے ان کی زبان ہر وقت باہر نکلی ہوتی ہے اور ہر وقت منہ میں پانی آیا ہوتا ہے۔ ان دونوں حرکتوں پر انہیں بالکل شرم نہیں آتی۔ شاید یہ فطرتاً ایسے ہی ہوتے ہیں۔

اسلام میں کتوں سے دوری بنائے رکھنے کا کہا گیا ہے اور گھروں میں کتے رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان سے دوستی نہ رکھی جائے۔ کیونکہ اسلام ضابطہ حیات بھی ہے اور دین فطرت بھی ۔

آسٹرولوجسٹس کے مطابق کتوں کو مغرب کے بعد روٹی کھلانا رزق بڑھاتا ہے مگر یہ خالصتاً ان کے علم کے مطابق ہے اس میں میری ذاتی رائے شامل نہیں۔

یہ ضرور ہے کہ یہ ایک جانور ہے اور بھوکے کو کھانا کھلانا ثواب کا کام۔ بھوکے کے لئے صرف انسان ہونا شرط نہیں ۔ جہاں رہیے خوش رہیے اور کتوں سے دور رہیے۔
 

Rana Mubasher
About the Author: Rana Mubasher Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.