انتظامی نہیں انتقامی

پنجاب کی باگ ڈور بظاہر"نگران "حکومت کے پاس ہے لیکن اس کو ایک سیاسی خاندان کے مفادات کی" نگہبان "حکومت کہنا بیجا نہیں ہوگاکیونکہ اس عارضی یعنی مہمان" سیٹ اپ" نے ابھی تک اہلیان پنجاب کو" اپ سیٹ" جبکہ صوبہ میں انتظامی بحران اور ہیجان پیدا کرنے کے سو ا کچھ نہیں کیا۔انتخابات کی تاریخ مقرر کئے بغیر پنجاب بھرمیں دھڑا دھڑ ٹرانسفر ناقابل فہم بلکہ پری پول رگنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ حکمران طبقہ اوربالخصوص شریف خاندان انتخابات سے راہ فرار کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کررہاہے لیکن عدالت عالیہ لاہور کے مسٹر جسٹس جواد حسن کی حالیہ ججمنٹ کے بعد ایسا کرنا آسان نہیں رہا ، آنیوالے دنوں میں انتخابات کے انعقاد کیلئے سیاسی اورعوامی دباؤ بڑھتا جائے گا۔اس وقت مسلم لیگ (ن) کے آگے کنواں اورپیچھے کھائی ہے، جوامیدوارشیر کے ٹکٹ پرانتخابی میدان میں اتریں گے انہیں شہبازشریف کی شعبدہ بازی اور ہوشربا مہنگائی کی قیمت چکانا پڑے گی ۔دوسری طرف عمران خان بھی دوصوبوں کی منتخب اسمبلیاں توڑنے کے بعد ملک میں عام انتخابات کامطالبہ اور اپنے سیاسی دباؤ کے زورپر اس کیلئے راستہ ہموار کررہاہے تاہم اس کی " توپوں" کارخ حکمران اتحاد کی بجائے جنرل (ر)قمرجاویدباجوہ کی طرف ہے ۔ کپتان اپنے طرزسیاست اوراپنی سابقہ حکومت کیخلاف شہبازشریف سمیت وفاقی وزراء کی طرف سے ہونیوالی تنقید کوکاؤنٹر کرنے اور تسلی بخش جواب دینے کی بجائے خاموش ہے، کپتان کی کابینہ کے متعدد وزراء کا دوردور تک کوئی نام ونشان نہیں ہے ۔عمران خان آئندہ عام انتخابات میں بھرپورکامیابی کیلئے پرامید بلکہ پرجوش ہے لیکن موصوف اقتدارمیں آنے کے بعد ڈیلیورکرنے کیلئے ٹیم بنانے کیلئے تیار نہیں ،وہ ابھی تک اسد عمر اورشہبازگل سمیت اپنے ان معتمدرفقاء کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا ہے جو اس کی پچھلی حکومت کے دوران اطمینان بخش کارکردگی کامظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ عمران خان اپنے آس پاس موجود سیاسی بونوں کے کندھوں پرکھڑے ہوکرقدآورنہیں ہوسکتا،اسے "بزداروں" کی بجائے "بردباروں ـ" کی ٹیم بنانا اورممتازقانون دان حامد خان سے داناؤں کے ساتھ مشاورت کرناہوگی۔اگرمقروض پاکستان کوبندگلی سے باہرنکالنا ہے تواس کیلئے عمران خان یانوازشریف کا "مقبول "ہونا اہمیت نہیں رکھتا،میں سمجھتا ہوں وزارت عظمیٰ کیلئے "معقول" ہونا از بس ضروری ہے۔کپتان کے تمام تریوٹرن اوراس کی بدترین سیاسی وانتظامی حماقتوں کے باوجودپاکستان کے عوام اسے بہت پسندکرتے ہیں کیونکہ انہیں دومخصوص سیاسی خاندانوں کے ساتھ شدید نفرت ہے اسلئے کپتان کیخلاف حکمران اتحاد اور مریم نواز کے بیانیہ کوعوام مسلسل مسترد کررہے ہیں ۔معلوم نہیں کس طرح ہمارے سیاستدانوں کامائنڈسیٹ اورہماراسیاسی کلچر تبدیل ہوگا، میں سمجھتاہوں اب تک ہونیوالے تبادلوں سے ہمارے اداروں اورمحکموں میں بہتری نہیں بلکہ مزید ابتری آئی لہٰذاء ارباب اقتدار واختیار کوکئی دہائیوں سے جاری یہ عاقبت نااندیشانہ اور مجرمانہ روش ترک کرناہوگی ۔

سرکاری آفیسرز اوراہلکاروں کے سیاسی نظریات ضرورہوتے ہیں ،عام پاکستانیوں کی طرح ان کی بھی پسندناپسند ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود چندایک کے سوا ان کی وفاداریاں اورتوانائیاں ریاست کیلئے وقف ہوتی ہیں لہٰذاء منتقم مزاجی کے تحت محکموں میں بیجا اکھاڑ پچھاڑ کاسلسلہ بندکیاجائے ۔ کیا جس کالاہور سے خانیوال یاڈی جی خان میں ٹرانسفرکیا گیاہے وہ وہاں اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کیلئے آسانیاں پیدانہیں کرسکتا ۔جو ایس ایچ او شاہدرہ سے تبدیل ہونے کے بعد کاہنہ تعینات ہواہے،کیا وہ وہاں اپنی سیاسی وفاداری کامظاہرہ نہیں کرے گا ۔ارباب اقتدارسب سے زیادہ مداخلت اورپسندناپسند کے تحت تبادلے پولیس میں کرتے ہیں اوراس کانتیجہ بگاڑ کی صورت میں برآمدہوتا ہے۔اب لاہور سمیت پنجاب بھر میں پولیس کے متعدد اہم عہدوں پر"اجنبی "براجمان ہیں،ان کی آدم بیزاری سے عوام اورپولیس میں مزید دوری پیداہوجاتی ہے۔حالیہ ٹرانسفرز کی آڑ میں محض ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پربیسیوں قابل آفیسرزکوسیاسی انتقام کانشانہ بناتے ہوئے اوایس ڈی بنادیاگیا۔نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اورسی سی پی اولاہوربلال صدیق کمیانہ 1989ء اور1990ء کے دوران جی سی لاہور میں ہم جماعت اورہم خیال تھے اورآج 2023ء میں بھی وہ ہم جماعت یعنی مبینہ طورپر ان کی ہمدردیاں ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں۔25مئی2022ء کولاہور پولیس نے جس آمرانہ انداز سے پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین کو مس ہینڈل ، مردوزن کارکنان پرتشدد اورصوبائی سیاست کے گوہرمیاں اسلم اقبال سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کی چادروچاردیواری کاتقدس پامال کیا تھا اوراس دوران جوپرتشدد واقعات رونماہوئے تھے ان کے بعد بلال صدیق کمیانہ کی دوبارہ لاہورمیں تقرری ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

لاہور کے سابقہ سی سی پی اوغلام محمودڈوگر انتہائی پیشہ ورانہ مہارت اوراحسن انداز سے اپنا فرض منصبی انجام دے رہے تھے ،وہ امسال 23اپریل کوریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ انہیں ان کی ریٹائرمنٹ سے محض دوماہ قبل اوایس ڈی بنانے کاآمرانہ اقدام بدترین سیاسی انتقام ماناجائے گا۔ناجائز کوناجائز کہنا اورسیاسی دباؤ میں نہ آنا نڈرغلام محمودڈوگر کی فطرت ہے لہٰذاء ان سمیت جو زیرک اور زندہ ضمیر آفیسرزاتحادی حکومت کیلئے قابل قبول نہیں، وہ عوام میں مزید مقبول ہوجا تے ہیں ۔ جس پروفیشنل آفیسر نے اپنی زندگی کی بیش قیمت تین دہائیاں محکمہ پولیس کودیں ، آبرومندانہ اورمحکمانہ روایات کے مطابق ریٹائرمنٹ اس کا بنیادی حق ہے لہٰذاء انہیں باوقاراورشاندار انداز میں رخصت کیاجائے ۔غلام محمودڈوگر اورجہاندیدہ بیوروکریٹ راجاجہانگیر انور سمیت ہر وہ فرض شناس آفیسر جس کو انتظامی نہیں بلکہ انتقامی بنیادوں پراو ایس ڈی بنایا گیا ہے ،ان سبھی کو موزوں عہدوں پرتعینات کیا اور ان سے پیشہ ورانہ کام لیاجائے۔راقم نے ماضی میں اسلام آباد کے اندرتعینات ایس ایس پی محمدعلی نیکوکارہ کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کو اپنے کالم کاموضوع بنا تے ہوئے لکھا تھا ،"پولیس حکام سے تو وہ کوے اچھے ہیں جواپنے کسی ساتھی کے زخمی یاکسی مصیبت میں گرفتار ہونے پرخوب شور مچا تے ہیں لہٰذاء پولیس حکام حمیت کامظاہرہ کرتے ہوئے ارباب اقتدار کی طرف سے اپنے سینئرز اورہم عصر ساتھیوں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کیخلاف خاموش مزاحمت ضرورکیاکریں ورنہ کسی روز ان کی باری بھی آسکتی ہے۔عوام کئی دہائیوں سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن حکمرانوں کا پولیس حکام اوراہلکاروں کے مقام تعینانی تبدیل کرنے پرزور ہے ۔دوسری طرف پنجاب کی سطح پرایک بارپھرپولیس وردی تبدیل کرنے کی تیاریاں ہیں جبکہ دوسرے صوبوں میں ہنوز پراناپولیس یونیفارم زیر استعمال ہے ۔پولیس یونیفارم تبدیل کرنے کی بجائے وردی کوٹرسٹ وردی بنانے کی ضرورت ہے اوراس کیلئے دوررس اصلاحات کرنا ہوں گی۔ میں سمجھتا ہوں جس آئی جی نے محض آئندہ انتخابات تک رہنا ہے اسے اس کامینڈیٹ حاصل نہیں لہٰذاء یہ مہنگا ترین اور متنازعہ ترین قدم نہ اٹھایاجائے۔پنجاب پولیس باربار اپنایونیفارم تبدیل کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ہرچندماہ بعدآنیوالے آئی جی کے ویژن کی گردان بندکرناہوگی کیونکہ پولیس آفیسرز اوراہلکار آئی جی کے ویژن نہیں بلکہ پولیس قوانین کے پابند ہیں،خواتین پولیس اہلکاروں سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا لیکن انہیں ایس ایچ اولگانے سے گریزکیاجائے۔ ہرآنیوالے آئی جی کواپنے نام نہاد ویژن کی روشنی میں پولیس کوتختہ مشق بنانے کاحق اوراختیار نہیں دیا جاسکتا ۔

وفاق اورچاروں صوبوں کے ارباب اقتدارواختیار کے بیانات سے ظاہر ہے ان میں سے کوئی عام انتخابات کاانعقاد نہیں چاہتا ، الیکشن سے راہ فراراختیارکرنے کیلئے ان سے کچھ بعید نہیں تاہم انتخابات بروقت ہوں یا کچھ دیر سے دونوں صورتوں میں عوام کے ہاتھوں" عیب زدہ" اور"نیب زدہ" سیاستدانوں کی ـ "شامت "اور"حجامت "نوشتہ دیوار ہے ۔ عمران خان ، پرویزالٰہی اورشیخ رشید کو دیوار کے ساتھ لگایاجارہا ہے جبکہ نامعلوم نقاب پوش کردار ایک مخصوص سیاسی خاندان کیلئے آسانیاں پیدا کررہے ہیں لیکن عوام نے سیاسی انتقام سے بھرپوراس مصنوعی نظام کو مسترد کردیا ہے۔ آئندہ انتخابات میں واقعی جمہوریت کو بہترین انتقام قراردیاجائے گا کیونکہ بدترین مہنگائی کے سبب اپنے مستقبل سے مایوس عوام اس بار اپنے ووٹ کی پرچی سے قومی چوروں کی سیاست کے پرخچے اڑادیں گے ۔ ایک مخصوص اورمنحوس سیاسی خاندان کے ساتھ ڈیل اوراسے ڈھیل نے ملک وقوم کو مہنگائی کے سونامی اوربدانتظامی کے سوا کچھ نہیں دیا ، ماضی میں بھی ڈیل اورڈھیل سے مستفید ہونیوالی مخصوص جماعت کا عوام کی عدالت میں جانے سے ڈرنا اورانتخاب کواحتساب سمجھنا فطری ہے کیونکہ عوام کے نزدیک آئندہ انتخاب ایک طرح کا احتساب کی صورت اختیار کرجائے گااورمضطرب و وٹر مراعات یافتہ اشرافیہ پررحم نہیں کریں گے۔ شازیہ مری سمیت متعدد وفاقی وزراء کا پچھلے دنوں پٹرول بم گرانے کے بعد کہنا تھا" پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی پرمہنگائی کابوجھ نہیں پڑے گا" ، افسوس بصارت اور بصیرت سے محروم اشرافیہ کی نمائندہ سرکار کو زمین پرایڑیاں رگڑتے اورپل پل مرتے نیم مردہ عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ویژن سے عاری سیاستدان بھاری نہیں بلکہ ریاست ،سیاست ،معیشت اورمعاشرت کیلئے مہلک بیماری ہیں،بدقسمتی سے ہماری مقتدر اورمنتخب شخصیات میں سے کوئی اپنے ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ورنہ آج ہمارا محبوب پاکستان بحرانستان نہ بنا ہوتا۔ ہمارے ملک میں جو بدنصیب بارود سے نہیں مرتے ان بیچاروں کو بھوک سے ماردیاجاتا ہے ۔ زرعی ملک میں آٹا نایاب ہوناارباب اقتدار کی بدنیتی اور بدانتظامی کانتیجہ ہے۔ مہنگاآٹا حاصل اوریوٹیلیٹی بل ادا کرنے کیلئے طویل قطاروں میں کھڑے بے بس عوام کا ارباب اقتدار سے کہنا ہے " جوتے مارنیوالے سرکاری کارندوں اوردرندوں کی تعدادبڑھادی جائے"۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.