شطرنج کا کھیل

ریاضی دنیا کا خوبصورت تریں مضمون ہے۔ اس مضمون کے دنیا کے تمام علوم پر بے پناہ احسانات ہیں۔ ہر مضمون اپنی بقا کے لئے ریاضی کا محتاج ہے۔کوئی مضمون اس کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جہاں گنتی کی، پیمائش کی یا ترتیب کی ضرورت ہوئی ریاضی مدد کے لئے آن موجود ہوا۔ کہتے ہیں ریاضی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ریاضی کو بار بار پڑھیں اور کریں، سارے مرحلے حل ہو جائیں گے۔ بہت سے لوگ گلا کرتے ہیں کہ ریاضی سمجھ نہیں آتی۔ اس میں ریاضی کا کوئی قصور نہیں۔ قصور پڑھانے والوں کا ہوتا ہے ۔ ریاضی نہیں ریاضی پڑھانے والے برے ہوں تو مضمون اپنی کشش کھو دیتا ہے اور یہ ریاضی ہی نہیں ،کوئی بھی مضمون جو پڑھانے والا دل جمعی سے نہیں پڑھائے گا، پڑھنے والوں کو ہمیشہ مشکل ہی نظر آئے گا۔ریاضی کی زبان تو آسان تریں زبان ہے ، غلطیوں سے پاک، سیدھی اور کھری۔ اس میں دو جمع دو ہمیشہ چار ہوتا ہے اور کبھی بھی پانچ نہیں ہو سکتا۔ قدیم ہندستان میں بہت سے نامور ریاضی دان گزرے ہیں جنہوں نے اس شعبے میں بے حد کام کیا۔ان لوگوں میں، 318 عیسوی میں شروع ہونے والے گپتا عہد میں ، بر صغیر ہندوپاک کا عظیم ریاضی دان اور اسٹرانومسٹ آریا گپتا تھا۔ آریا گپتا نے سب سے پہلے سال کے دن شمار کئے۔ اس نے سب سے پہلے پائی کی قیمت چار اعشاریہ تک معلوم کی۔زیرو کا ہندسہ ایجاد کیا۔یونانیوں کے بعد اور اسلام آنے سے پہلے اس خطے میں ریاضی پر بہت کام ہوا۔
 
آج کمپیوٹر کی بہت سی کھیلیں ریاضی ہی کی مدد سے وجود میں آئی ہیں۔موسیٰ الخوارزمی نے الجبرے کے جو اصول روشناس کرائے ،وہی آج کمپیوٹر کی بنیادی زبان ہے ، اسی لئے خوارزمی کمپیوٹر کے دادا جان شمار ہوتے ہیں۔ماضی کی مشہور شطرنج کا کھیل بھی خالصاً ریاضی دانوں کی ایجاد ہے ۔ کچھ لوگ اسے برصغیر اور کچھ اسے فارس کے لوگوں کی ایجاد جانتے ہیں۔ فارس ایران کا پرانا نام ہے جسے 1935 میں ایران کا نام دیا گیا تھا۔شطرنج کے اس کھیل میں ایک بادشاہ، ایک وزیر۔ ایک سپہ سالار اور دوسرے فوجی افسروں کے ساتھ پوری پیادہ فوج بھی موجود ہوتی ہے۔شطرنج کے کل چونسٹھ خانے ایک مربع کی شکل میں ہوتے ہیں اور دونوں فوجیں ہر دو طرف آمنے سامنے پہلے سولہ خانوں میں موجود ہوتی ہے اور وہیں سے بڑھ کر دوسروں پر وار کرتی ہے۔ ہر مہرہ بادشاہ کی حفاطت کے لئے جان لڑا دیتا ہے۔ بادشاہ کو شہ دینا اس کی زندگی ختم کرنے کا اعلان ہوتا ہے۔جولشکر اپنے بادشاہ کو شہ سے نہ بچا سکے اور بادشاہ ہلاک ہو جائے وہ لشکر ہار جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ اس کھیل کی ایجاد کے بعد وزیر یہ کھیل لے کر بادشاہ کے پاس گیا۔ بادشاہ کو یہ کھیل بہت پسند آیا اس نے وکیل کو داد دی اور اسے کہا کہ ایسی شاندار کھیل سے مجھے روشناس کرانے کے عوض جو منگنا ہے وہ مانگ لو۔ ہمیشہ کی طرح اس زمانے میں بھی زر، زن اور زمین ہی قیمتی سمجھی جاتی تھیں۔ چنانچہ بادشاہ نے وزیر کو ایسی ہر چیز کی پیشکش کی، کہا زمین لے لو،جتنی دولت کی ضرورت ہے بتا دو۔ عورتیں بھی اپنے حرم کے لئے طلب کر سکتے ہو۔ مگر وزیر نے کیا کہ اسے فقط اس کی مطلوبہ گندم دے دیں،وہ بھی ایسے کہ کل چونسٹھ خانے ہیں ۔ پہلے خانے میں گندم کا ایک دانہ، دوسرے میں دو دانے، تیسرے میں چار دانے ، چوتھے میں آٹھ دانے اور اسی طرح تمام چونسٹھ خانوں میں گندم کو پہلے سے ڈبل کرتے ہوئی جتنی گندم بنے وہ اسے دے دی جائے ۔ بادشاہ ہنسا اور کہا کہ اتنی معمولی چیز، میں تمہیں بہتر چیزیں دینے کا کہہ رہا ہوں مگر تم جانے کیوں اس معمولی گندم کو لینا چاہتے ہو۔بادشاہ کی تمام تر کوشش کے باوجود جب وزیر کسی دوسری چیز پر مائل نہ ہوا تو بادشاہ نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ اندازہ لگایا جائے کی کتنی گندم وزیر کو دینے کے لئے درکار ہوگی۔

حکام نے جب گنتی شروع کی تو وہ حیران رہ گئے کہ پہلی ایک دو لائنوں کے بعد گندم کی تعداد ان کے تصور سے بھی بڑھ کر تھی۔پہلی دولائن ہی کی گندم 1 ،2 ،4،8 ،16 ، 32 ،64 ،128، 256 ،512 ، 1024 ، 2048 ،4096 ،8192 ،16384،32768 تک پہنچ گئی ۔ تیسری قطار کے پہلے خانے میں 65536 گندم کے دانے درکارتھے وہ دانے اگر ایک بوری میں ڈال دئیے جائیں تو اگلی دو قطاروں میں بوریوں کی تعداد 32768 ہو جائے گی۔یہ پوری آٹھ قطاروں میں سے چار قطاریں پوری ہوئی ہیں اور جب آخر تک شمار کیا گیا تو پتہ چلا کہ درکار گندم کا وزن تقریباً 75بلین میٹرک ٹن کے برابر ہو گا ۔ انہوں نے بادشاہ کو بتایا کہ درکار گندم ملک کے گوداموں میں موجود نہیں اور اس گندم کی فراہمی کے لئے دنیا کی سو سے ڈیڑھ سو سال کی پیداوار کی ضرورت ہے اور اسے رکھنے کے لئے پہاڑوں جیسے اونچے بہت سے گودام درکار ہیں۔ یہ کہانی جیسی بھی سہی مگر یہ ایک عظیم ریاضیاتی کمال کو ظاہر کرتی ہے۔ریاضی ایسی بہت سی کھیلوں اور بہت سے کمالات سے بھرا ایک خوبصورت مضمون ہے۔

شطرنج کے ایک کھلاڑی سے ملاقات ہوئی ۔ شطرنج میں اسے کمال حاصل تھا مگر کہنے لگا مجھے ریاضی سے بہت ڈر لگتا ہے ۔ میں ہنس دیا کہ بھائی شظرنج کیسے کھیلتے ہو۔ کہنے لگا، سوچ کر کہ ملکہ کو کہاں تک آگے کروں، پیادوں کو کس ترکیب سے چلاؤں۔ بادشاہ کو کس جگہ رکھوں کہ وہ محفوظ رہے۔ میں نے کہا کہ تم سوچتے ہو گے کہ پیادوں کو کتنے قدم آگے بڑھاؤں۔ انہیں بادشاہ کے گرد کس ترتیب سے کھڑا رکھوں کہ بادشاہ کو شہ نہ مل سکے ،دشمن کی ہر چال پر غور کرکے اپنے مہروں کی ثال ترتیب دیتے ہو۔ اس کے ہاں کے جواب میں ،میں نے کہا تو یہ سب یعنی گننا،پیمائش کرنا اور ترتیب دینا ہی وہ اصول ہیں جن کا نام ریاضی ہے۔ تم سارا دن ریاضی سے استفادہ کرتے ہو، اسے پوری طرح استعمال کرتے ہو پھر بھی کہتے ہو کہ ریاضی تمہیں نہیں آتی۔اگر ریاضی نہ آتی تو شطرنج بھی نہیں آ سکتی تھی۔

شطرنج میں بادشاہ کے ساتھ سب سے اہم مہرہ وزیر ہوتا تھا۔ایک لمبے عرصے تک وزیر شطرنج میں پوری طرح حاوی رہا۔بادشاہ کی حفاظت اسی کا فرض تھا۔ لیکن جب سے خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں عروج حاصل ہوا ہے اور وہ ہر جگہ اپنی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں،شطرنج بھی ان سے محفوظ نہیں رہی۔ کل کے وزیر کواب ملکہ کا نام دے دیا گیا ہے ۔اب بادشاہ کی حفاظت کا فرض ملکہ نباہ رہی ہے۔ حالانکہ اتنی بڑی لڑائی میں زنانے حربے نہیں چلتے ۔ بڑی لڑائیاں تو آہنی ہاتھوں سے لڑی جاتی ہیں۔ لیکن شطرنج کی ملکہ بھی مردانہ وار جنگ میں اترتی اور اپنے بادشاہ کی ہرلمحے حفاظت کرتی نظر آتی ہے۔ فقط نام بدلنے سے اس کی کارکردگی میں کچھ فرق نہیں آیا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443975 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More