مزدور کرے کام امیر کرے آرام

اجرت میں نہ ہوااضافہ اوربھی کام بڑھ گیا
مزدورکادن تھا.......امیرکاآرام بڑھ گیا
یکم مئی 1886ء کو شکاگو اور ا مریکہ کے مختلف صنعتی اداروں کے تین لاکھ محنت کشوں نے سرمایا داروں کے ظالمانہ، غلامانہ رویہ اور جبری مشقت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ایک دِن کے اوقات کار صرف آٹھ گھنٹے روازانہ کی قانونی حیثیت کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لئے محنت کشوں پر ظْلم و بربریت اور تشدد کیا اور مظاہرین پر گولیوں کی بوجھاڑ کردی۔ جس کے نتیجے میں بے شمار محنت کش ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ لاتعداد محنت کشوں کو اپناجائز حق ما نگنے کی سزا بہیمانہ تشدد اور اپنی قیمتی جانوں کی قربانی کی صورت میں ادا کرنا پڑی اور لاتعداد محنت کشوں کو گرفتار کرکے مقدمات در ج کئے گئے اور کئی کو پھانسیاں دی گئی۔ ہلاک ہونے والئے رہنماؤں نے کہا تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کرسکتے ہو، لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے۔ محنت کشوں کا یہ خونی انقلاب اور قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ دْنیا آج ہر سال یکم مئی مزدوروں کے دن کے طور پر مناتی ہے۔ یکم مئی بلند ہمت محنت کشوں سے اظہار ہمدردی اور اْن کی عظمت کو سلام کرنے کا دِن ہے۔ یکم مئی استحصال کا شکار اور محنت کے جائز معاوضے سے محروم محنت کشوں کو اْن کا حق دلانے کا دن ہے۔ یکم مئی منانے کا مقصد مزدور دْشمن ظالمانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ اس لیے محنت کشوں کے لیڈرز اورسیاستدان معاشرہ میں محنت کشوں کی محنت کے احترام کو بلند کرنے کے لئے دنیا بھر میں جلسے، جلوسوں کا انعقادکرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی محنت کشوں کی تنظیمیں شکاگو کے محنت کشوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے مطالبات کے حق میں اپنے بھرپورعزم کا اظہار کرتے ہیں۔ خوشیوں کاخواب کون نہیں دیکھتاپْرسکون، خوبصورت زندگی کا خواب جس میں خوشیاں ہوں، امن ہو، روشن مستقبل ہو، خوبصورت گھر ہو، خوشحالی ہو، زندگی میں بہار ہو، مشکلات نہ ہوں اور اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لئے مزدوردِن رات محنت کرتا ہے، خون پسینہ بہاتاہے اور بھرپور جدوجہد کرتا ہے لیکن تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود مزدور کو اْس کا حق اور مقام نہیں مِلتا اور تمام خواب اپنے سینے میں لیئے اپنے بچوں کے رزق کے لئے بھٹکتارہتا ہے۔ کبھی کام مل جائے تو پیٹ کی آگ بْجھ جاتی ہے ورنہ سینے پر پتھر رکھ کر بچوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔آج بھی وہ روز کی طرح رزق کی تلاش میں شہر کے چوراھے پر کھڑا تھا۔ جہاں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے، جن کے چہرے مرجھائے، آنکھوں میں مایوسی، اْلجھے ہوئے بال، پھٹے پرانے کپڑے پہنے جیسے کسی کا انتظار کررہے ہوں لیکن کروناکی وجہ سے دنیا میں جوحالات چل رہے ہیں ایک وقت کی روٹی مل جائے تومزدوراﷲ کاشکراداکرتے ہیں مگر مارکیٹیں بند تھیں، سڑک پرکوئی گاڑی دور سے نظر آتی تو سب مزدوروں کی نگاہیں اْس کی طرف دیکھنے لگتی کچھ لوگ تو لپک کر گاڑی کی طرف دوڑتے کہ شاید کوئی مسیحاآیاہولیکن گاڑی فراٹے بھرتی قریب سے گزر جاتی اور وہ مایوس نگاہوں سے گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھتے اپنی جگہ پر آکر کھڑے ہو جاتے۔ یہ سلسلہ دوپہر تک چلتا رہا لیکن آج کوئی گاڑی ان کے پاس نہ رْکی۔ وہاں کھڑے سب لوگ بہت پریشان تھے۔ مایوسی اور پریشانی بڑھتی گئی اور سب ایک ایک کرکے مایوسی کی حالت میں واپس جانے لگے۔حالانکہ آج تو یکم مئی یوم مزدور ہے مگرمیرے ملک کے مزدوراس دن سے ہی بے خبرہوکے روزی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ اگرچھٹی کی تورات کوبچوں کیلئے کھاناکہاں سے لائیں گے۔مگرصاحب لوگ تمام کاروبار زندگی بند کرکے گھروں میں چھٹی مناتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ مزدوروں کے حق میں مزدوروں کے بناتقریرکرکے چلے جاتے ہیں۔ایسے حالات میں حکومت کا فرض ہے کہ ملک کے محنت کشوں کو بے روزگاری سے بچانے اور انہیں کرونا وائرس سے محفوظ کرانے کے لئے کام پر انہیں محفوظ، صحت مند ماحول کی فراہمی یقینی بنائے۔یاد رہے کہ رحمت العالمین جناب رسول پاکؐ نے محنت کشوں کو خدا کے حبیب کا درجہ دیاہے انہوں نے فرمایا ہے کہ جو ہاتھ سے محنت کرتے ہیں ان کے ہاتھ چومنے کے قابل ہیں۔ انہوں نے خود بھی اپنے ہاتھوں سے محنت فرمائی۔

وطن عزیز میں بھی محنت کشوں کی حالت زار نہایت ابتر ہے اْن کی بہتری اور حقوق کے حصول کے بلندو بانگ دعوئے تو کئے جاتے ہیں، لیکن کسی حکومت نے بھی محنت کشوں کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ ارکان پارلیمنٹ اور وزراء اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں حالانکہ وہ سب سرمایا دار ہوتے ہیں اور جب ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا وقت آتا ہے تو حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہوتے۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور کرونا وائرس کیتیسری لہرکی وجہ سے مہنگائی نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہاڑی دار محنت کش سب سے زیادہ متاثرہیں۔ علاج و معالجہ، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی، بچوں کے سکول کی فیس تو دور دو وقت کے کھانے کا انتظام ہی کرنا مشکل ہے۔حکومت نے کروناکی پہلی لہرمیں اپنے طور پر اور صاحب ثروت افراد کے تعاون سے 12000/روپے فی خاندان اور راشن تو تقسیم کرنے کے کھوکھلے دعوے کرتی رہی اوردوسری طرف مزدورفاقوں اورخودکشیوں پرمجبورہوتے رہے رہی ہے مانگنے والوں کے علاوہ سفید پوش افراد جنہیں ہاتھ پھیلانا نہیں آتا وہ مرنا تو پسند کریں گے مگر فوٹو بنواکر اپنی مفلسی کا مزاق اْڑانا اور اشتہار لگانا پسند نہیں کریں گے اس لیے حکومت کے وعدے کے مطابق تھوڑی تبدیلی ہوئی کہ حکومت غربت توختم نہ کرسکی مگر کئی غریب ختم کرڈالے ۔ملک کی موثر کثیر آبادی کسانوں کی ہے حکومت کا فرض ہے کہ وہ بے زمین کاشت کاروں کو حکومت کی خالی فالتو زمینیں الاٹ کرکے زرعی اصلاحات کے نفاذ سے انہیں زمین دے کر ان کی فلاح وبہبود اور قومی زراعت کی ترقی کے لئے فوری اقدامات کرے۔ ملک میں کمسن بچوں کی محنت و جبری مشقت کے خاتمہ اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو دور کرنے کے لئے موثرترقی پسندانہ اقدامات کرے۔حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ ملازمین کی کم ازکم اجرت آئی ایل او کنونشنوں کے مطابق اور ان کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے کارکنوں کے حق انجمن سازی کے لئے بینکوں، نادرا، سول ایویشن، اوپن ریلوے لائن اور زرعی مزدوروں کے لئے بنیادی حق انجمن سازی بحال کرے۔محنت کشوں کی محنت کے احترام بلند کرنے سے ہی قومی صنعتی، زرعی و تجارتی ترقی ممکن ہے۔ جرمنی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں مکمل تباہی کے باوجود محنت کشوں کی دن رات محنت کی قدر کرتے ہوئے آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں صف اول ہیں۔حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ پالیسی ساز اداروں میں محنت کشوں کے موقف سے استفادہ کرنے کے لئے ان سے توثیق شدہ آئی ایل او کنونشن نمبر144 کے مطابق سہ فریقی مذاکرات باقاعدہ منعقد کریں جو کئی سال سے منعقد نہیں کئے گئے۔ کارکنوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے مضبوط اتحاد سے اپنی جدوجہد کو کامیاب کریں۔حکومت کواس کروناکی تیسری لہرمیں نمنٹنے کیلئے مزدورطبقہ کونظراندازنہیں کرناچاہیے اورمزدوروں کیلئے موثراقدامات کرنے چاہیں ۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 198266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.