عید ملن ،امید کی کرن

مجھے خبر ہے ،میں جانتا ہوں ،یہ دور ہے آگ کا سمندر
مگر غم_عشق کا سفینہ،اسی کی موجوں پہ ہے چلانا
بلا سے کروٹ نہ لیں اندھیرے،بلا سے پروا کرے نہ آندھی
مگر میرا فرض_ منصبی ہے،چراغ پیہم جلاۓ جانا
وہ دور_نقصان وابتلاء ہو کہ عہدِ اقبال و کامرانی
وفا کے بندے،رضا کے پیکر،گذار دیں گے ،مجاہدانہ !

حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ،کسی اچھی خبر کو سننے کے لئے انسان ترس گئے ہیں۔ایسے میں کوئی بالیقین روشن مستقبل کی خوشخبریاں سنانے لگے تو قلب و نظر میں امید کے جگنو جگمگانے لگتے ہیں،رگ و پے میں نئ توانائی بھر جاتی ہے،ایسی ہی ایک خوبصورت محفل کا احوال پیش_خدمت ہے جو فلٹیز ہوٹل کے کرسٹل ہال میں سجائ گئ ۔یہاں کرسٹل جیسے ہی صاف شفاف دل لوگ جمع ہوۓ، ایمان کی روشنی سٹیج سے پھوٹی ، حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان کی سیکرٹری جنرل ، محترمہ دردانہ صدیقی ،صدر_محفل تھیں،ان کی نائب محترمہ ثمینہ سعید ،اپنے گرمجوش انداز سے مہمانوں کواستقبالیہ کلمات اور عید مبارک کہہ رہی تھیں،انھوں نے حاضرین کی حیرت کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ عید ملن پروگرام میں تاخیر کی وجہ ،ہماری مہمان_خصوصی محترمہ دردانہ صدیقی کی مصروفیت تھی جو حال ہی میں بیرون_ملک ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کرکے وطن واپس پہنچی تھیں ۔مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی خواتین جن میں پروفیسرز ،ڈاکٹرز، بنک آفیسرز، ادیبات ،شاعرات، اسکالرز ، بوتیک مالکان ،پولیس آفیسرز، جرنلسٹ اور میڈیا پرسنز بھی موجود تھیں ،وہ مختلف سٹالز کا وزٹ کرکے نشستوں پر براجمان ہوئیں ،سٹالز سے ملنے والے رنگارنگ تحائف نے ماحول مذید خوش گوار کردیا تھا۔تلاوت_کلام پاک اور نعت شریف سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا، پروگرام کی کمپئیر شاذیہ عبدالقادر نے جماعتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کی نگرانوں سے سوال جواب کا دلچسپ سلسلہ شروع کیا ،پھر جیسے ہی صدر_ محفل کا خطاب شروع ہوا ،ہال میں یک دم سناٹا چھا گیا ۔ سالار_کارواں محترمہ دردانہ صدیقی کی آواز گونج رہی تھی ،جسے رپورٹنگ پر مامور خواتین قلمبند کر رہی تھیں :
*"یہ قرآن ،ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں -عید اللہ کا انعام ہے ،خوشی کا دن ہے ،شکرانے کا موقع ہے۔نزول_قران کی خوشی،نعمت_اسلام کی خوشی۔شکرانے کا طریقہ قرآن میں بتایا گیا "ولتکبروا اللہ علی' ما ھد'کم "
ہدایت ملنے پر ،اللہ کی کبریائی کا اظہار کرنا ،شکر گذاری ہے۔14 سو برس قبل ،نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دور کا مدینہ اور عید کا دن تھا ۔فضاؤں میں آواز آتی تھی:
اللہ اکبر ،اللہ اکبر ،لا الہ الا اللہ ،واللہ اکبر ،اللہ اکبر و للہ الحمد ۔
تکبیرات کا تسلسل باقی ہے۔الحمدللہ ،ہم سب مسلمان ہیں،پاکستان رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں حاصل ہونے والی عظیم نعمت ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بھی رمضان میں عطا فرمایا تھا ۔اشارہء الٰہی تھا کہ زمین پر اس کتاب ،قرآن کو نافذ کروگے تو وہ مقصد حاصل ہوسکے گا جس کی خاطر لاکھوں افراد نے آگ اور خون کے دریا پار کئے تھے ،جانوں کے نذرانے دئیے تھے ۔پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااللہ، محمد رسول اللّٰہ ۔
پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ دیانت دار قیادت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔قائداعظم نے ایمان ،اتحاد ،تنظیم کے جو بنیادی اصول دئیے تھے ،یہ ہماری زندگی کے رہنما اصول ہونے چاہیے تھے۔جب لوگ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے بارے میں سوچتے ہیں اور مل کر ساتھ چلتے ہیں تو قومیں آگے بڑھتی ہیں۔اللہ نے وطن_عزیز کی قیمتی امانت ہمارے سپرد کی ہے ۔ جماعتِ اسلامی ،کیسا پاکستان بنانا چاہتی ہے ،اس نظم سے عیاں ہوتا ہے:
امید ابھی کچھ باقی ہے
اک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو
اور جینا کوئی جرم نہ ہو
وہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں
اور موسم سارے ملتے ہوں
یہ بستی کاش تمہاری ہو
یہ بستی کاش ہماری ہو !
محترمہ دردانہ صدیقی کے خطاب کے بعد ڈپٹی سیکرٹری حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی ،محترمہ ثمینہ سعید نے جماعتِ اسلامی کا وژن اور منشور پیش کیا جو اسلامی ،جمہوری ،خوش حال پاکستان کا عملی روڈ میپ بھی ہے۔روزگار ، خوراک ،صحت ،انصاف، تعلیم ،علاج سب کے لئے ہوگا۔مزدور خوش حال، نوجوان مطمئن، اقلیتیوں کے حقوق کا تحفظ ،آزاد خارجہ پالیسی ،با اختیار عورت ،مستحکم معاشرہ ،ترقی یافتہ پاکستان ،اس کے لئے قوم کے تعاون کی ضرورت ہے۔ وعدہ کریں کہ جماعتِ اسلامی کا ساتھ دیں گے ۔ شرکاء محفل نے ہاتھ اٹھا کے وعدہ کیا*

تقریب میں کئ دلچسپ سرگرمیاں بھی کروائی گئیں ، میزبان شاذیہ عبد القادر نے شرکاء خواتین سے پوچھا کہ کون کون مہندی لگا کے اور عید والے دن کا جوڑا پہن کے آیا ہے ،جن خواتین نے ہاتھ کھڑے کئے ،انھیں خصوصی تحائف دئیے گئے ۔

محترمہ طاہرہ یاسمین کی دلدوز دعا سے اس بامقصد ،پر امید ،ایمان افروز عید ملن پروگرام کا اختتام ہوا اور ریفریشمنٹ کے لوازمات ،میزوں پر لگادئیے گئے ۔ شرکاء خواتین روح کی غذا ملنے کے بعد مادی غذا کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
#