چادر مبارک

طوطی ِ ہند حضرت امیر خسرو ؒ کے عرس مبارک سے میرے دوست اسمعیل نظامی صاحب خاص محبت شفقت سے خاص مٹھائی اور بہت ساری سوغاتوں کے ساتھ سبز رنگ کی زری چادر بھی لے کر آئے کہ حضرت جی کے گدی نشین نے خاص طور پر آپ کے لیے عقیدت و احترام سے بھیجی ہے مٹھائی چادر دھاگے نمکو دیکھ کر مجھے چند سال پہلے کے دن یاد آگئے جب میں سر زمین ہندوستان کی زندہ جاوید ہستیوں کو سلام کرنے بھارت گیا پھر دہلی کے قیام کے دوران روزانہ رات کو گلاب اور موتیوں کے پھولوں کے ٹوکروں کے ساتھ زری چادروں سمیت ہم حضرات امیر خسرو ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہو کر نذرانہ عقیدت سلام پیش کر تے پھر وہاں پر بیٹھ کر قوالوں کے پر سو ز آواز سے حضرت امیر خسروؒ کا یہ شعر سنتے چھاپ تلک سب چھین لی رے تو سے نیناں ملائی کے حضرت امیر خسروؒ جی کا رنگ و نور سے لپٹا پھولوں سے ڈھکا مزار مبارک سامنے اور آپ ؒ کا روح پرور کلام قلب و روح جھوم جھوم جائے شراب طہور کا یہ نشہ انگ انگ کو جھومنے پر مجبور کردیتا باطن کے تاریک نہاں خانے رنگ و نور کے فواروں سے روشن ہو جاتے پھر جب میرے دوست نے عقیدت سے سرکار ؒ کے مزار سے لائی چادر مبارک مجھے اوڑھا دی تو میری آنکھیں عقیدت کے موتیوں سے چمکنے لگیں اپنی کم اوقات اور سرکارؒ کی مہربانی سے دل و دماغ شاد ہو گئے اتنی بڑی درگاہ اور وہاں کی چادر مبارک کافی دیر تک تومیں چادراوڑھے بیٹھا رہا پھر سوچا اِس مبارک چادر کو کہاں رکھوں کون سی جگہ اِس قابل ہے کہ جہاں پر اِس کو رکھوں انہی سوچھوں میں غرق تھا کہ سوچ کی شاخ پر شگوفہ پھوٹا کہ یہ چادر مبارک تو میرے شہنشاہ میرے مالک لجپال حضرت امام بری سرکارؒ کی تربت مبارک پر جانی چاہیے یہ محبت عقیدت عشق بھی کیا عجیب ہے کہ آپ کسی روح پرور دلکش جگہ پر اور قیمتی خوبصورت چیز ملنے پر سب سے پہلے اپنے محبوب کو یاد کرتے ہیں اچھا کھانا فروٹ خوشگوار لمحہ جب بھی آپ کی زندگی میں آتا ہے تو آپ کو اپنا پیارا یاد آجاتا ہے جس کو آپ خود سے بھی زیادہ پیار کر تے ہیں آپ کی پھر خواہش ہوتی ہے کہ آپ یہ خوبصورت جگہ تحفہ کپڑا اپنے محبوب کے ساتھ شئیر کر سکیں اِسی طرح جب کوئی سالک مرید اپنے مرشد کے عشق میں فنا کا مقام حاصل کر لیتا ہے یا ابھی فنا فی الشیخ کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اپنی ہر خوشی اپنے محبوب مرشد کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے یہ مرشد مرید کا عشق بھی کیا لازوال جذبہ ہے کہ مرید مرشد کے سامنے سرنڈر کر دیتاہے اپنی تمام خوشیوں کو مرشد کی رضا کے ساتھ باندھ دیتا ہے ان تمام باتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے جو مرشد کو پسند نہ ہو اول و آخر صرف اور صرف مرشد کی ذات رہ جاتی ہے یہ محبت یکطرفہ نہیں بلکہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوتی ہے اگر مرید مرشد سے عشق میں اپنی ذات کو ترک کر دیتا ہے تو مرشد بھی اپنی متاع حیات فقر کا سارا خزانہ مرید کو سونپ دیتا ہے یہاں پر ذکر اذکار چلے وظیفے پیچھے رہ جاتے ہیں مرشد کے عشق کا سمندر ہو تا ہے جس میں مرید دن رات غوطے لگاتا ہے اِسی غوطہ زنی میں فنا فی الشیخ کے عمل سے گزر کر اپنی منزل پا جاتا ہے مرشد مرید کے عشق کا تذکرہ ہمیں ہر ولی اﷲ کے تذکرے میں خوب ملتا ہے حضرت امیر خسرو ؒ اپنے مرشد سے اِس قدر محبت کرتے تھے وہ علاؤ الدین خلجی بادشاہ کے لاڈلے وزیر تھے جب بھی شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہو تے تو شیخ کے موڈ کو خوشگوار کر نے کے لیے شاعری کر تے اچھے اچھے شعر سناتے تاکہ مرشد کا موڈ اچھا ہو جاتے ایک دفعہ کسی جنگی مہم کے لیے باہر چلے گئے تو کافی دنوں بعد جب شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہو ئے تو شیخ مراقبہ عبادت میں مصروف تھے جب بہت رات ہو گئی شیخ نے حاضری کی اجازت نہ دی تو زارو قطار رونا شروع کر دیا تو جب خادم نے اندر جا کر بتایا کہ آپ ؒ کا لاڈلہ مرید امیر خسروؒ باہر انتظار کی شدت سے ملاقات کے لیے درخواست کر رہا ہے اور رو بھی رہا ہے تو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے حاضری کی اجازت دی تو حضرت امیرخسروؒ دیوانہ وار پاؤں سے لپٹ گئے قدموں کو عقیدت سے چومنا شروع کر دیا تو شیخ بولے اے ترک زادے خیر ہے کیا ہوا کیوں رو رہے ہو تو سرز مین ہند کے سب سے بڑے سخن ور شاعر بولے میرے شہنشاہ مجھے عادت ہے آپ کے قدموں میں سر رکھ کر سونے کی جنگی مہم کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا میری پلکیں ترس رہی ہیں کب آپ کے تلوں کو چوم سکوں اور سو سکوں یہ حضرت امیر خسرو ؒ کا معمول تھا کہ جب مرشدرات کو سو جاتے تو حضرت امیر خسروؒ مرشد کے قدموں میں سر رکھ کر سو جاتے یہ عقیدت عشق صرف حضرت امیرخسرو ؒ کو نہیں تھا بلکہ بادشاہوں کو ٹھکرانے والے حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کہا کرتے تھے اگر شریعت مجھے اجازت دے تو میں وصیت کر جاؤں کہ امیر خسروؒ کو بھی میری قبر میں میرے ساتھ لٹا دیتا آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے روز محشر پو چھا کہ اے نظام الدین ؒمیرے لیے کیا لے کر آئے ہو تو میں کہوں گا کہ میں ترک زادے کا گداز غم لے کر آیا ہوں پھر آپ اکثر فرمایا کرتے تھے اگر میری گردن پر آرا رکھ دیا جائے اور پوچھا جائے کہ بتاؤ اپنی جان چاہیے کہ امیر خسروؒ تو میں اپنی جان دے کر بھی خسرو کو لے لوں گا یہ حال مرشد کا تھا جو اپنے مرید سے پیار کر تا ہے جب میں نے سوچا کہ طوطی ہند کی چادر مبارک میں اپنے سخی لجپال حضرت امام بری سرکار ؒ کے مزار مبارک پر لے کر جاؤں گا اور عقیدت و احترام سے سرکار کی قبر مبارک پر گلاب اور موتیوں کے پھولوں کے ساتھ سجاؤں گا یہ ایک نشیلا سا نشہ رگوں میں دوڑ جاتا جیسے ہی خیال آتا کہ مرشد خانے جانا ہے تو ہونٹوں پر دلنواز تبسم پھیل جاتا اور جسم کے مسام نشے میں ڈوب جاتا ساتھ ہی حضرت امیر خسرو ؒ کی سخاوت لجپالی بھی عقیدت میں ڈھل جاتی کہ چند سال پہلے جو میں پاکستان سے خاص طور پر زری کی چادر لے کر گیا تھا اُس کا انہوں نے خوب ادھا ر چکایا تھا میں شدت سے اِس انتظار میں تھا کہ کب جا کر مرشد خانے کے درو دیوار کو بوسہ دوں اور طوطی ہند کی چادر مبارک اپنے مرشد کی قبر مبارک پر ڈالوں ۔ ( جاری ہے )
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 656652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.