یونانی سمندر میں سینکڑوں انسانی ہلاکتوں کا اندوہناک واقعہ

اطہرمسعود وانی

یونان کے سمندری علاقے میں ایک بڑی کشتی ڈوبنے سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے اندوہناک واقعہ پہ آزاد کشمیرمیں18جون اور پاکستان میں19جون کو یوم سوگ منایا گیا۔تین سو سے ساڑھے تین سو گنجائش والی کشتی میں ساڑھے سات سو سے آٹھ سو افراد سوار تھے جن میں سے چار سو کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔حادثے میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں میں سے تقریبا چالیس کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی سے بتایا جا رہا ہے۔پاکستان کے گوجرانوالہ ڈویژن کے علاوہ پنجاب کے دیگر علاقوں کے بھی متعدد نوجوان اس حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں۔یونانی حکام نے تقریبا78لاشیں سمندر سے نکالی ہیں جبکہ 104افراد کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا جن میں سے12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حادثے میں لاپتہ پانچ سو افراد بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔پیر کی شام تک کی اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں پاکستان کے83اور آزاد کشمیر کے21افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔آزاد کشمیر انتظامیہ کی طرف سے27افراد کی ایک فہرست تیار کی گئی ہے جو غیر قانونی طریقے سے یورپ کی طرف روانہ ہوئے اور اب لاپتہ بتائے جا رہے ہیں۔

پاکستان سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان یورپ جانے کی خواہش میں ایجنٹوں کو بھاری رقومات دے کر مختلف غیرقانونی ذرائع سے یورپ کے سفرپہ روانہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ملکوں کی سرحدوں پہ گرفتار ہو کر جیل پہنچ جاتے ہیں، کئی حادثات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ہر ملک کی فورسز اور کوسٹ گارڈز کی طرف سے غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ سرحدوں پہ برے اور ظالمانہ سلوک کی اطلاعات عام ہیں ۔اس حادثے کے متعلق بھی یونانی کوسٹ گارڈز کے سفاکانہ روئیے کا ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ مدد کے بجائے گھنٹوں ڈوبنے والوں کو دیکھتے رہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ سال ایک روپورٹ میں بتایا تھا کہ سمندری راستے سے غیر قانونی طورپر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے ہزاروں افراد ہر سال ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان میں سے متعدد واقعات رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔ اچھے مستقبل، روزگار کے لئے یورپی ممالک جانے کی کوشش کے موضوع کے حوالے سے ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا میں سرمائے کی منتقلی پہ کوئی پابندی نہیں ہے۔سرمایہ قلیل وقت میں دنیا میں کسی بھی مطلوبہ جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن انسانی محنت کی منتقلی پہ پابندی عائید کی گئی ہے یعنی انسانوں کو مختلف معیارات میں تقسیم کیا جاتا ہے، انسانوں کے مساوی درجے کے اقوام متحدہ کے عالمی عزم کی عملی طورپرنفی کی جاتی ہے۔

بڑی تعداد میں نوجوانوں کی ہلاکتوں کے اس واقعہ کے بعد ان نوجوانوں کو یورپ بھجوانے کے سبز باغ دکھاتے ہوئے بھاری رقوم لینے والے ایجنٹوں کے خلاف گرفتاریاں کی گئی ہیں تاہم ایجنٹوں کی یہ گرفتاریاں صرف حالیہ واقعہ میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف کی جا رہی ہیں، انسانی سمگلنگ میں ملوث دیگر ایجنٹوں کے خلاف کوئی کریک ڈائون نہیں کیا جا رہا۔ متعدد ملکوں میں پھیلے انسانی سمگلنگ کے اس وسیع نیٹ ورک میں متعدد ملکوں کے ایجنٹ باہمی رابطے اورتعاون سے مل کر کام کرتے ہیں اور بیرون ملک جانے والے شخص سے حاصل رقوم میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔زمینی اور سمندری راستے سے جانے والے غیرقانونی تارکین وطن سے انسانی سمگلر بھی ظالمانہ اور غیرانسانی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں اوران کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر کے ہرنوجوان سے ایجنٹوں نے غیرقانونی طریقے سے یورپ بھجوانے کے لئے22لاکھ روپے وصول کئے۔اس درد ناک حادثے پہ بعض منفی حلقوں کی طرف سے معمول کے مطابق اس واقعہ کے حوالے سے بھی منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیرمیں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان غیرقانونی ذرائع سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔آزاد کشمیرکے تقریبا چالیس لاکھ آبادی والی خطے میں سرکاری تنخواہیں حاصل کرنے والوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ ہے۔مختصر رقبے اورمختصرآبادی والے اس خطے کو تین ڈویژنوں اور دس اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔آزا د کشمیرکے اکثراضلاع میں خصوصا پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے افراد کافی تعداد میں تجارت اور زمینداری کے کاموں سے منسلک ہیں اور لاکھوں ،کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔آزاد کشمیر میں اب بھی سرکاری ملازمت کو ترجیح دی جاتی ہے جس کے ذرائع محدود ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند عشروں سے آزاد کشمیرکے لوگ عمومی طورپر زراعت ترک کرچکے ہیں۔آزاد کشمیرمیں نوجوان بڑی تعداد میں حصول تعلیم کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے لئے بھی ان کی پہلی ترجیح سرکاری ملازمت ہوتی ہے۔آزاد کشمیرکے ضلع میرپور، کوٹلی اور مظفرآباد کے افراد بڑی تعداد میں مغربی ممالک کی شہریت کے حامل ہیں۔آزاد کشمیرکے لاکھوں افراد پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں اور کاروبار کے علاوہ سرکاری و نجی ملازمت کررہے ہیں۔مختصریہ کہ ان تمام عوامل، صورتحال کو دیکھتے ہوئے ذرائع روزگارکے حوالے سے کی جانے والی تنقید محض منفی پروپیگنڈہ ہی ثابت ہوتی ہے ۔

پاکستان اورآزاد کشمیر کی آبادی کا غالب حصہ نوجوانوں پہ مشتمل ہے اور یوںپاکستان و آزاد کشمیر انسانی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن منصوبہ بندی،نظام اور انصاف نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان ، آزاد کشمیرکے انسانی وسائل کی اہم دولت بری طرح سے ضائع ہو رہی ہے، منفی رجحانات کی طرف راغب ہو رہی ہے۔پاکستان میں ایک طاقتور اور خوشحال ملک ہونے کے تمام لوازمات، وسائل بھرپور طورپرموجود ہیں لیکن طبقاتی نظام، ملک میں حاکمیت کی کشمکش، بد انتظامی، مفاد پرستی، بد عنوانی اور عوامی مفاد کو ترجیحات میں شامل کرنے کے قابل نہ سمجھنے کے رجحان نے ملک و عوام کو کمزورسے کمزورتر ہی کیا ہے۔کئی سانحات سے گزرتے ہوئے ہم پہ اتنی بے حسی طاری ہے کہ ہم بہتری کی راہ اختیار کرنے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے، ان سے سبق حاصل کرنے پہ رضامند نہیں ہوتے۔بہرحال ، تمام عوامل سے قطع نظر، اپنے اچھے مستقبل کے لئے بڑی رقومات خرچ کرتے ہوئے یورپ جانے کی آس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی اجتماعی ہلاکت کا یہ کربناک واقعہ ایک بڑا سانحہ ہے۔اس واقعہ پہ اعلی سطحی تحقیقاتی کمیٹی اس واقعہ کے ذمہ داران کا تعین تو شاید کردے، چند کو سزا بھی ہو جائے لیکن نہ ان قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کا مداوا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اپنے وطن کو نوجوانوں کے لئے پرکشش، پرامید خطہ بنانے کی راہ اختیار کرنا خود غرضی کی انتہا کو منظور ہو سکتا ہے۔


اطہر مسعود وانی
0333517ww6429
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614118 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More