بیوی کے حقوق

بیوی کے حقوق سے مراد وہ امور لازم و شرعی ہیں جن کا ملحوظ رکھنا مرد کے لیے لازم و ضروری ہے۔
اسلام اعتدال کا مذہب ہے،

عدل و انصاف اور مساویانہ تقسیم اس کا وصفِ خاص ہے۔اس وصف خاص کے سبب دین اسلام دنیا کے تما م تر دیگر ادیان کے سبب ممتاز ہے۔جس مرد کے حقوق بیان کیے ہیں، اس طرح عورتوں کے حقوق کا تعین بھی فرمایا ہے۔

اعتدال، مساوات و انصاف جو برابری کی سطح پر ہو،
عدل کہلا تا ہے،

جو اسلام کی اولین ترجیح و تعلیم ہے۔معاشرے کے ارتقاء، باہم محبّت و رواداری، ایک دوسرے کے مابین مفاہمت و اعتماد کی فضا قائم رکھنے میں حقوق کی مساویانہ تقسیم اور اس پر عملاً قائم رہنا ایک مستحکم اور مضبوط گھرانے کی بنیاد ہوتا ہے،حضور ﷺ نے عورتوں کے بارے میں مردوں کو نصیحت فرمائی، مفہوم: ’’عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت اختیار کرو، کیوں کہ عورتیں تمہارے ماتحت ہیں، تم اس کے سوا کسی اور شے کے مالک نہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)مرد و زن کے حقوق کا تعین قرآن کریم نے ازدواجی زندگی کی استواری اور اس بندھن کو جس میں شرعی طور پر ان کو گرہ لگا کر رکھا گیا ہے، اس کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے فرمایا، مفہوم: ’’تاکہ ان کی رعایت سے معاشرتی نظم برقرار رہے۔‘‘ گویا معاشرت، میاں بیوی کے مابین حقوق کی مساویانہ تقسیم اور ان کے مابین خوش گوار تعلقات کا نام ہے۔
قرآن کریم میں انہیں ’’ایک دوسرے کا لباس‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ حقوق شرعی طور پر ایک دوسرے کے لیے ادائیگی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔
مرد کے لیے عورت کی ذمے داری پورا کرنا عملاً، قولاً و فعلاً نصائص و سنّت پر عمل کرنا ہے۔
حضرت حکیم بن معاویہ ؓ اپنے والد سے راوی ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے تو آپؐ نے فرمایا: ’’جب کھائے تو اسے کھلائے اور جب پہنے تو اسے پہنائے اور اس کے منہ پر نہ مارے اور اسے بُرا بھلا نہ کہے اور گھر کے سوا اس سے علیحدگی نہ اختیار کرے۔‘‘ (ابن ماجہ)
حضرت ابُوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مومنوں میں کامل ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہو اور تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ) حسن اخلاق، حسن سلوک کے بعد سب سے بڑا حق عورت کی آزادی یعنی اسے شوہر کے انتخاب اور شوہر کے ساتھ رہنے میں شریعت نے اختیار دیا ہے، انتخاب مرد میں بھی اس کی رائے کا احترام کیا ہے اور رفاقت میں اس کے جذبات کو پیش نظر رکھا ہے۔
اسلام عورت کی آزادی پر قدغن نہیں لگاتا مگر یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام میں عورت کی آزادی کا مطلب مغرب کی نام نہاد آزادی نسواں اور دیگر نسائی تحریکوں کی مادر پدر آزادی نہیں بل کہ اسلام کی عطا کردہ آزادی ان تمام خرافات سے پاک ہے۔
اس بے لگامی نے ہی مغرب سے خاندان کا تصور ختم کیا اور عورت کی عصمت کو برباد اور اس کی عزت کو تار تار کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو ایسی آزادی سے مبرا و منزیٰ رکھا ہے اور اسے پاکیزہ تعلیم دیتا ہے جو کہ دین اسلام کا خاصہ ہے۔

(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم ،اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے:”عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہاجائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔“(مسند امام احمد،ج 1،ص406، حدیث: 1661)

(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے ، چنانچہ معلّمِ انسانیت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آجائے اگرچہ تنّور پر ہو۔

(ترمذی ،ج2،ص386، حدیث: 1163)

(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبیِّ برحقصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،ج3،ص463، حدیث:5197 ، ملتقطاً)

(4):شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے، اُلجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ، ج22،ص126)

(5) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندھائے،اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے ،اس پر اپنے اِحسانات نہ جتائے،کھانے پینے ،صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے ،الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے ، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَہے :”جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

(6) شوہر ناراض ہوجائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں ۔ (معجم صغیر،ج1،ص46)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ
بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ﴾․(البقرة)

ترجمہ: اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں، قاعدہ(شرعی)کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے تدبیر والا۔

امام جصاص رحمہ اللہ نے لکھا ہے: اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اوربیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں اورخاوند کے بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جوبیوی کے خاوند پر نہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں:میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا : ” أَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلٰی الْمَرْأَةِ؟ قَالَ: زَوْجُہَا، قُلْتُ: فَأَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَی الرَّجُلِ؟ قَالَ: أُمُّہُ“․(السنن الکبریٰ للنسائي)

ترجمہ: ”عورت پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے ؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کے شوہر کا ، پھر میں نے عرض کیا مرد پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کی ماں کا“۔
ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے جب خاوند کے حقوق کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہ أَنْ لَّوْ کَانَتْ قَرْحَةٌ فَلَحَسَتْہَا مَا أَدَّتْ حَقَّہ“․(الترغیب والترھیب)

ترجمہ: آدمی کا اس کی بیوی پر حق یہ ہے کہ اگر اس کے بدن پرکوئی زخم ہو اور وہ اسے چاٹ لے تو بھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔
حضرت حصین بن محصن بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی کسی حاجت کے لیے خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں، جب اپنی حاجت سے فارغ ہوگئیں تو آپ نے دریافت فرمایا : کیا تو شادی شدہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ، آپ نے فرمایا: اپنے شوہر کے ساتھ تیرا معاملہ کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں اس کے حق کی ادائیگی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، الا یہ کہ میرے بس سے باہر ہو ، آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا کہ اس کے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہتا ہے ، وہ تمہارے لیے جنت یا جہنم کا سبب ہے ۔(مسند احمد)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو عورت پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتی رہے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے“ ۔

∗…بیوی کا انس و محبت میں شوہر کو ہر وقت کے لیے خود پر اختیار دینا۔حضرت طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”إِذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجتَہُ لِحَاجتِہ فَلْتَأْتِہ وإِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّورِ“۔(ترمذی)ترجمہ: جو شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراًآجائے ،چاہے وہ چولھے کے پاس مشغول ہو ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”إِذَا دعَا الرَّجُلُ امْرأَتَہُ إِلَی فِرَاشِہ فلَمْ تَأْتِہ فَبَات غَضْبانَ عَلَیْہَا؛ لَعَنَتْہَا الْمَلآئِکَةُ حَتَّی تُصْبحَ“․ متفقٌ عَلَیہِ. وفي روایةٍ لہما: ”والَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ، مَا مِن رَجُلٍ یَدْعُو امْرَأَتَہُ إِلَی فِرَاشِہ فَتَأْبَی عَلَیْہِ إِلَّا کَانَ الَّذي فيْ السَّماءِ سَاخِطًا عَلَیْہَا، حَتَّی یَرْضَی عَنْہا“․(مشکوٰة)

ترجمہ: کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکار کرے، پس شوہر ناراض ہو کر رات گذارے تو اس عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکارکرے تو الله تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس سے خوش ہوجائے ۔

∗…یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا، نہ کہ حکم کا۔ ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔

∗…گھر میں کیے جانے والے شوہر کے کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔

∗…گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔
بیوی کی کسی دینی خرابی کی وجہ سے شوہر اس پر ہاتھ اٹھائے تو اس خرابی کو دور کرنے کی فکر میں لگے اور شوہر سے اپنا دل کھٹا نہ کرے۔ خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے، نہ کہ کسی برائی کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگی اورہلکی سی مارکی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔معمولی مار مارنے کی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر نشان نہ پڑے اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے اور جسم کے نازک اعضاء پر مارنا مطلقاً منع قرار دیا گیا ہے۔

فقہائے کرام رحمہم اللہ نے چارمواقع پر عورت کومار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں :
جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اوربیوی اسے ترک کردے۔ جب بیوی طہر کی حالت میں ہواورخاوند اسے ملاقات کے لیے بلائے توبیوی انکار کردے ۔ نماز نہ پڑھے ۔ خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔

∗…خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اُسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے۔

∗…اگر شوہر ایک سے زائد نکاح کرنا چاہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے خوشی سے اجازت دینا۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461111 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More